Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Aayine Par Barham Ho?

Aayine Par Barham Ho?

مجھے وزیراعظم عمران خان پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ ماضی کی حکومتوں کی غلطیوں پر برہم، ان پرچیختے چلاتے نظر آتے ہیں مگر وہ ان کی طرف سے کی گئی کوئی ایسی غلطی نہیں چھوڑنا چاہتے جسے وہ اس کی انتہا پر لے جا کر نہ کریں۔ وہ پاکستان کے قرضوں پر ہمیشہ غصے کا اظہار کرتے آئے اور آئی ایم ایف کے پاس جانے پر ناپسندیدگی کا مگرانہوں نے تین برسوں میں ستر برس کے قرضوں اور آئی ایم ایف کی چاکری کا ریکارڈ توڑ دیا۔

نئے سیاسی کلچر کی بات کرنے والے نے سیاسی انتقام میں آمریت کے ادوار کو شرما دیا۔ آزادی اظہار کی حمایت کرنے والے نے ماضی کی نرم قانون سازی کو اتنا سخت کر دیا کہ صحافیوں اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹس کے لئے دہشت گردوں اور قاتلوں کی طرح بلاوارنٹ اوربلاضمانت گرفتاری اور ایک ہی ہلے میں پانچ برس قید دے دی۔

میں وطن عزیز کی سیاست اور صحافت کے ادنیٰ طالب علم کے طور پر دیکھتا ہوں کہ ہر دور میں ہر آمر نے یا آمر بن جانے کی خواہش رکھنے والے سیاستدان نے صحافت کو اپنا دشمن سمجھا۔ صحافت کی تعلیم کے بنیادی اسباق میں ہی یہ بتایا اورپڑھایا جاتا ہے کہ یہ میڈیا کسی بھی معاشرے کا آئینہ ہے، اس آئینے میں ریاست کا اصل چہرہ نظر آتا ہے۔ یہ میڈیا ہی ہے جو اب روایتی تاریخ دانوں کے مقابلے میں ایک ایک لمحے کی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ہر ناپختہ کار حکمران نے صحافت کو اپنا دشمن سمجھا حالانکہ صحافت تو ہر حکمران کو اس کا چہرہ دکھاتی تھی۔

نرم لفظوں میں کہوں تو کسی نامعلوم شاعر کا شعر ہے (اسے غالب سے غلط طور پر منسوب کیا جاتا ہے)، عمر بھر ہم یونہی غلطی کرتے رہے، دھول چہرے پر پڑی تھی ہم آئینہ صاف کرتے رہے۔ معاملہ یہی ہے کہ ہمارے بہت سارے حکمران جب آئینے میں اپنے چہرے پر کالک دیکھتے ہیں تو وہ چہرہ صاف نہیں کرتے بلکہ آئینے کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھلا آئینوں کے ٹوٹنے سے کبھی چہروں کی کالکیں مٹا کرتی ہیں؟

ہمارے حکمران ایسا میڈیا چاہتے ہیں جیسا ایوب خان اور یحییٰ خان کے دور میں تھا۔ وہ صرف اپنے بیانات اور تعریفیں سننا چاہتے ہیں۔ جس روز میرے وطن کو اپنی تاریخ کی سب سے بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، ہمارے نوے ہزار فوجی دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے، ہمارا دایاں بازو ہمارے بدن سے کٹ رہا تھا اس روز سرکاری بھونپو میڈیا غیر قانونی اور غیر جمہوری حکومتی سربراہ کا بیان شہ سرخیوں میں شائع کر رہا تھا کہ وہ آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے اور یہ کہ وہ فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں۔

بہت سارے لوگ میڈیا کے اس کردار کے حامی ہیں اور چین، ایران، سعودی عرب، شمالی کوریا اور متحدہ عرب امارات جیسے میڈیائی ماڈلز کو ملکی ترقی کا ضامن سمجھتے ہیں مگر دنیا تحریر و تقریر کی آزادی میں بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ یحییٰ خان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا دوربھی اختلاف کرنے والی صحافتی شخصیات کے لئے بہت برا رہا۔ جناب مجیب الرحمان شامی سمیت ہمارے بہت سارے بزرگوں نے اس دور میں قلعے جیسے مقام پر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔

ضیاء الحق کا دور صحافت کے لئے ظلم و تشدد اور بربریت کا ایک الگ ہی زمانہ تھا اوراس کے بعد نواز شریف کے دور میں خاص طورپر جب وہ دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو ان کے احتساب سیل نے سیف الرحمان کی سربراہی میں ان کے دور کی سیاہ صحافتی تاریخ رقم کی۔ وہ وقت تھا جب روزنامہ جنگ اشتہارات ہی نہیں بلکہ نیوز پرنٹ کی بندش کے باعث چار صفحوں یعنی دو ورق تک محدود ہو گیا اور اسے سیف الرحمان اپنی کامیابی سمجھتا رہا۔ اس کے بعد پرویز مشرف کا دور ہے جس میں پسند ناپسند بھی رہی اور لوگوں کونوکریوں سے بھی نکلوایا جاتارہا مگر بہرحال وہ اتنا سخت نہیں تھا جتنے ماضی کے ادوار رہے۔

جناب عمران خان میڈیا کے ساتھ وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو ماضی کے تمام حکمرانوں نے مل کر کیا۔ وہ اختلاف کرنے والے صحافیوں اور اینکروں کو نوکریوں سے نکلوا رہے ہیں، وہ مقدمے درج کروا رہے اور ایف آئی اے سمیت دیگر سرکاری اداروں سے بہیمانہ تشدد کروا رہے ہیں۔ جناب میر شکیل الرحمان کوایک برس سے بھی زائد کی قید کاٹنی پڑی۔

مشرف دور میں بہت سارے نئے ادارے بنے مگر عمران خان کے دور میں بہت سارے بند ہورہے ہیں۔ ڈان جیسے ادارے کو اپنے ملازمین کی تنخواہیں ان کے دور میں ہی آدھی کرنی پڑیں۔ افسوس، حکمرانوں کابغض اور انتقام اس انتہا پر ہے کہ وہ صحافیوں کو بے روزگار کرواتے ہیں اور اگر کوئی ادارہ ان کے صحافتی اور شخصی کردار کی گواہی دیتے ہوئے کئی برس کی بے روزگاری کے بعد ملازمت دیتا ہے تو اس نازک ترین صورتحال میں بھی جب ان کا اقتدار داؤ پر لگا ہوا ہے بدترین انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اس ادارے کے اشتہارات ہی بند کر دیتے ہیں، جی ہاں، میں جناب طلعت حسین اور نئی بات میڈیا نیٹ ورک کی ہی بات کر رہا ہوں۔

طلعت حسین آج ٹی وی، میں میرے پروگرام ہنڈرڈ ڈیز، کے ایگزیکٹو پروڈیوسر رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ صحافت کے شعبے کی آن بان اور شان ہیں، ہم جیسے کارکن صحافیوں کا مان ہیں۔ میں آج سے بہت برس پہلے یہ اپنے کالم میں لکھ چکا کہ طلعت حسین کی صحافتی خدمات ایسی ہیں کہ انہیں صحافت کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہئے اور نوجوانوں کو بتایا جانا چاہئے کہ صحافت اس طرح ہوتی ہے۔

جس روز جناب طلعت حسین نیو نیوز، جوائن کر رہے تھے تو میں نے چیئرمین نئی بات میڈیا گروپ جناب چوہدری عبدالرحمن سے کہا تھا کہ آپ بہت بڑا فیصلہ کر رہے ہیں، اس فیصلے کے نتائج سامنے آئیں گے۔ میں جانتا ہوں کہ ان پر جناب نصرا للہ ملک اور بینش سلیم کے پروگراموں کے حوالے سے بھی بے پناہ دباؤ رہا مگر انہوں نے سرنڈرنہیں کیا۔ یہ ایک بڑا فیصلہ تھا جس کے بعد ہی جیو گروپ نے جناب حامد میر کو بھی ان کا پروگرام کئی ماہ کے بعد لوٹا دیا تھا۔

میں فخر کرتا ہوں کہ طلعت حسین ہوں یا نصراللہ ملک اور بینش سلیم، ان کے پروگرام چوہدری غلام حسین اور صابر شاکر کے پروگرام نہیں ہوتے، یہ خوشامد نہیں کرتے، یہ سوال اٹھاتے ہیں اور ان کے جواب مانگتے ہیں اور یہی اصل صحافت ہے کہ پھر ان جوابوں کو بھی بلا کم و کاست اپنے پروگراموں کا حصہ بناتے ہیں۔ میں جناب طلعت حسین کے حوالے سے دوٹوک انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ صرف عمران خان ہی نہیں بلکہ نواز شریف کے بارے میں بھی سوا ل اٹھاتے ہیں اور ایک بار نہیں بار بار اٹھاتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت نے اسی شاندار صحافی کے نیو نیوز جوائن کرنے پر اس ادارے کے چینل اور اخبارنئی بات کے اشتہارات بند کر دئیے ہیں اور چینل بند کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حکمران چاہتے ہیں کہ نئی بات میڈیا گروپ ان کا سہ لیس ہوجائے مگر وہ نہیں جانتے کہ اس ادارے نے بہت کم عرصے میں بہت اعلیٰ روایات قائم کی ہیں۔

میں جس چوہدری عبدالرحمن کو جانتا ہوں آپ انہیں محبت اور اصول سے تو زیر کر سکتے ہیں مگر چیلنج، نفرت، د باؤ اور دھمکی کے ذریعے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔ اگر کوئی شہباز گل یہ سمجھتا ہے کہ وہ اشتہارات بند کر کے نئی بات میڈیا گروپ کو اپنا غلام بنا سکتا ہے تو وہ زور بازو آزما لے۔ حکومتی چراغ بجھنے سے پہلے پھڑپھڑا رہا ہے۔ وہ وقت جو اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے اور توبہ کرنے کا ہوتا ہے اس میں غلطیوں کو بلنڈرز بنایا جا رہا ہے۔

حکومتی لوگ کہیں گالیاں دے رہے ہیں اور کہیں دھمکیاں۔ وہ آئینے کو اپنے حکومتی اختیارات اور طاقتیں استعمال کر کے توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ نہیں جانتے کہ یہ شیشہ ان کے مکے سے زیادہ مضبوط ہے اور ویسے بھی آئینہ ٹوٹے تو اس کا ہر ٹکڑا ایک نیا آئینہ بن جاتا ہے اور توڑنے والے کے ہاتھ اور چہرے کو لہولہان کردیتا ہے۔

ٍعمران خان، تم ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، نواز شریف اور پرویز مشرف سے طاقتور حکمران نہیں ہو!