عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہو یا ناکام، یہ کسی طور اپوزیشن کے لئے گھاٹے کا سودا نہیں۔ یہ چھکا لگ گیا تو عمران خان وزیراعظم نہیں رہیں گے لیکن اگر نہ بھی لگا تو اپوزیشن کی پوزیشن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا، ہاں، کچھ لوگ ڈر ا رہے ہیں کہ عمران خان سیاسی شہید بن جائیں گے، کہیں گے کہ انہیں پانچ برس پورے نہیں کرنے دئیے گئے، اگر وہ اپنی مدت پوری کر جاتے تو دودھ اور شہد کی نہریں بہا جاتے تو ان کے دعوے پر کوئی احمق ہی یقین کر سکے گا۔
ساڑھے تین برسوں میں عمران خان اور ان کی ٹیم نے نااہلی اور ناکامی کی وہ تاریخ رقم کی ہے جس کا موازنہ صرف یحییٰ خان کے دور سے کیا جا سکتا ہے جب پاکستان دولخت ہوا، مہنگائی اور بدعنوانی کو ایک طرف رہنے دیجئے، یحییٰ دور میں ہم نے ڈھاکہ کھویا تھا اور نیازی دور میں مقبوضہ کشمیر کوبھارت نے ا پنا آئینی حصہ بنا لیا، ہمارے حکمران آدھا گھنٹہ دھوپ میں کھڑے ہونے کے سوا کچھ نہیں کرپائے۔
یہ عدم اعتماد ہی کا طوفان ہے کہ حکومت کے سر سے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری اڑ گئی ہے۔ جناب عمران خان کو پہلی مرتبہ اپنی طاقت پر انتخابات اور سیاست میں حصہ لینا پڑ رہا ہے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں، مکمل بوکھلائے ہوئے ہیں۔ منظرنامہ اسی وقت واضح ہو گیا تھا جب حکومت میں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کو ضمنی اور کنٹونمنٹ انتخابات میں منہ کی کھانی پڑی۔ خیبرپختونخوا اورپنجاب میں ہونے والے یہی وہ انتخابات تھے جن کے بعد خان نے ملک بھر میں اپنی پارٹی کی تنظیم بدل دی تھی حالانکہ اس نالائقی اور ناکامی میں ان بے چاروں کا حصہ دس فیصد بھی نہیں تھا۔
عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ خود کو بدلتے مگر وہ خود کو آج تک نہیں بدل پائے۔ میں نہیں جانتا کہ فواد چوہدری اور شیخ رشید کے لہجوں میں ہفتے کے روز زمین آسمان کا فرق کہاں سے آیا، ایک نے صبح کے وقت صلح مشکل ہوجانے کا رونا رویا اور دوسرے نے دوپہر کو کہہ دیا کہ بات صلح صفائی سے ختم کی جائے ورنہ یہی حکومتی عقاب دو روز پہلے پارلیمنٹ لاجز پر حملہ آور تھے، ارکان اسمبلی کو اسلام آباد پولیس کے کسی یوتھیے ڈی آئی جی آپریشنز کے ذریعے تشدد کرتے ہوئے اٹھوایا جا رہا تھا، ان کی ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں مگر پھرمولانا فضل الرحمان کے شیر جیسے جگرے کے سامنے ان کے غباروں سے ہوا نکل گئی۔
مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گی یا ناکام، میں کہتا ہوں کہ میرے پاس ان ارکان کے نام نہیں جنہوں نے سرکاری بنچوں پر ہونے کے باوجود اپوزیشن کوتعاون کی یقین دہانی کروائی ہے مگر مجھے یہ علم ہے کہ اس وقت تمام اتحادی ڈانواں ڈول ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ان تین، ساڑھے تین برسوں میں جناب عمران خان اور ان کی کابینہ کے دیگر ارکان نے اتحادیوں کو کم ہی لفٹ کروائی ہے۔ وہ زعم میں تھے کہ جو طاقت انہیں ان کے ساتھ لائی ہے وہ انہیں باندھے رکھے گی مگر وہ سیاست کی تاریخ سے نا آشنا تھے۔
مجھے کہنے میں عار نہیں کہ عمران خان نے وہی غلطی کی جو ذوالفقار علی بھٹو اور پھر نواز شریف نے مقبولیت حاصل کرنے کے بعد کی تھی۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے اہل خانہ، ساتھی اور وکیل صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگا سکے تھے اور انہیں پھانسی کے پھندے تک لے گئے تھے مگر نواز شریف کی فیملی، ساتھی اور وکیل سیاست اور تاریخ کے سبق کو پڑھ رہے تھے، خود بھی سمجھ رہے تھے اور انہیں سمجھا بھی رہے تھے۔
مجھے خوشی ہے کہ میاں نواز شریف نے کشمیر کے انتخابات کے بعد میرے کالموں کو سنجیدگی سے لیا، تلخ نوائی پر معذرت، اگرچہ مریم نواز نے اس پر غصے میں مجھے ٹوئیٹر پر ان فالو کر دیا، اپنی سوشل میڈیا بریگیڈ کو حملہ آور ہونے کا بھی حکم دیااور جناب کیپٹن صفدر شادی کی تقریبات میں جملے کستے رہے۔ رانا ثناء اللہ بھی باز نہیں آئے۔ ایک مشترکا دوست کی صاحبزادی کی شادی میں ان سے کچھ دیر ملاقات نہیں ہوئی تو اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ طنز فرما دیا کہ ایسی باتیں ہی کیوں کرتے ہو کہ سامنا نہ کر سکو، الحمد للہ، میری باتیں آپ کو بعد میں سمجھ آتی ہیں اور فائدہ بھی دیتی ہیں، کسی وقت اس پر تفصیلی کالم لکھوں گا توشکریہ ضرور ادا کیجئے گا۔
بات ہو رہی ہے کہ حکومت جا رہی ہے یا نہیں تو بطور سیاسی تجزیہ کار میرے پاس جناب عمران خان کا ہی رویہ ہے جو کچھ اشارے دے رہا ہے۔ وہ ہر جانے والے حکمران کی طرح امریکا کو الزام دے رہے ہیں۔ ان کے شہباز گل جیسے نادان دوست مذہب کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ ملکی معیشت کی پروا کئے بغیر سیاسی شہید بن کر مقبولیت لینے کے لئے بجلی اور پٹرول سستا کرنے کے بچگانہ اقدامات کررہے ہیں۔ وہ حکومت میں ہونے کے باوجود غیر ضروری جلسے کر رہے ہیں۔
وہ اسٹیبلشمنٹ کو دیوانہ وار پکار رہے ہیں، نیوٹرل ہونے کو جانور ہونا قرار دے رہے ہیں مگر ان کے اول فول خود ان کے گلے پڑ رہے ہیں جیسے انہوں نے دو روز پہلے جلسے میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ آرمی چیف کے ساتھ ان کی فرینک نیس برقراررہے اور وہ انہیں ایسے سیاسی مشورے بھی دیتے ہیں جیسے کہ وہ مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل نہ کہیں مگریہ داؤ بھی غلط ہو گیا۔ ا نہوں نے خود اشارہ دے دیا کہ آرمی چیف اب پی ڈی ایم کے سربراہ کے بارے سافٹ کارنر رکھتے ہیں اوران کی بدکلامی کو ناپسند کرتے ہیں۔
اس سے واضح ہوگیا کہ پالیسی بدل چکی ہے اور یہ کہ انہیں سمجھانے کی جو کوشش خفیہ طور پر کی گئی تھی انہوں نے اس کا سرعام بھانڈا ہی نہیں پھوڑا بلکہ اس کا تمسخر بھی بنایا۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ بے وقوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتاہے۔ تحریک عدم اعتماد، جناب عمران خان کے لئے، کتنا بڑا خطرہ ہے اس کا اندازہ ان کی بوکھلاہٹ، بدکلامی، دھمکیوں اورارکان اسمبلی تک کی گرفتاریوں کی کوششوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
عمران خان دھمکی دے رہے تھے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو وہ اپوزیشن کے لئے بہت خطرناک ثابت ہوں گے اور میں سوچ رہا تھا کہ جس حد تک وہ پہلے گئے ہیں اس سے آگے کیا جائیں گے۔ انہوں نے توسیاسی اختلاف میں چار دیواری، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں تک کا لحاظ نہیں کیا۔ قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی فیملی پر جس طرح حملے کئے گئے جس طرح ان کی بیمار اہلیہ اور غیر سیاسی بیٹیوں کو عدالتوں میں گھسیٹا گیا، بیٹوں اور داماد تک جلاوطنی پر مجبور کیا گیا، حمزہ شہباز کو ملکی تاریخ کا طویل ترین سیاسی قیدی رکھا گیا۔
وہ شہباز شریف کو تیسری مرتبہ جیل میں ڈالنے کے لئے اتنے جنونی تھے کہ شہزاد اکبر کوانتہائی بھونڈے طریقے سے عہدے سے ہٹایا، یہ سب کیا تھا اور اس تمام کے بعد یہ اور کیا خطرناکی دکھا سکتے ہیں۔ عمران خان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ملک بھر سے عوام کو ڈی چوک بلائیں گے اور میرا سوال ہے کہ کون سے عوام، وہ جن کا مہنگائی سے جینا مشکل ہو گیا، کرپشن نے جن کی زندگی عذاب کر دی۔
اب وہی نشئی آ سکتے ہیں جن کے لئے پناہ گاہیں بنانے کے علاوہ عمران خان کے کریڈٹ پر کوئی کارنامہ نہیں یا وہ انہیں بلا لیں جنہیں انہوں نے اپنی حکومت کے تین برسوں میں تین مرتبہ کالا دھن سفید کرنے کا موقع دیا۔ ادویات، لینڈ، پٹرول، چینی کے مافیاؤں کو بلا لیں، ان برہمن بیوروکریٹوں کو بلا لیں جن کی تنخواہوں میں انہوں نے ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کیا اور صرف پنجاب کے دس لاکھ غریب سرکاری ملازمین کو شودر بنا کے رکھ دیا۔ کیا وہ ان کینسر کے مریضوں کو بلائیں گے جن کی ادویات وہ بار بار بند کر کے انہیں موت کے منہ میں دھکیلتے رہے؟