پٹرول کی قیمتوں میں اکٹھے ہی بارہ روپوں کے اضافے نے غریبوں کی چیخیں نکلوا دی ہیں، میں ٹھوکر نیاز بیگ پر احتجاج کرنے والے سینکڑوں رکشہ ڈرائیوروں کے ساتھ تھا جن کی قیادت مجید غوری کر رہے تھے، مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان بے چاروں کو مہنگے پٹرول اور لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی کے دو، دو ہزار روپے والے چالانوں کی غنڈہ گردی بلکہ دہشت گردی سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔
رکشہ ڈرائیور نواز شریف اور شہباز شریف کویاد کر رہے تھے، وہ کہہ رہے تھے کہ نواز شریف کے دور میں ایسی مہنگائی نہیں تھی، عزت سے دال روٹی چل جاتی تھی اور یہ کہ اگر شہباز شریف ہوتا اور اس کے علم میں آتا کہ لاہور ٹرانسپورٹ کمپنی جس کی ذمے داری لاہور میں بسیں چلانا ہے اس کے اہلکار صبح سویرے ڈاکووں کی طرح ناکے لگا کے کھڑے ہوجاتے ہیں اور وہ رکشہ ڈرائیور جو دن بھر میں شائد پانچ سو، ہزار روپیہ کماتے ہوں ان کے بدمعاشی کے ساتھ دو، دو ہزار کے چالان کرتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا عثمان بزدار کو شہباز شریف بننے کا بہت شوق ہے، کاش وہ یہاں بھی بن کے دکھائے، غریبوں کی دعائیں لے۔
میں نے اپنی سوشل میڈیا پروفائل پر ایک سروے دیا کہ اگر نواز لیگ، پیپلزپارٹی یا جماعت اسلامی کی حکومت ہوتی تو عالمی سطح پر پٹرو ل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں کیا ریٹ ایک سو ساٹھ روپے لیٹر ہی ہوتا۔ نوے فیصد نے رائے دی کہ ریٹ کم ہوتے، چھ فیصدکا کہنا تھا کہ اس سے بھی زیادہ ہوتے اور چار فیصد کی رائے تھی کہ اتنے ہی ہوتے۔ ایک روز پہلے پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما خواجہ عاطف رضا کہہ رہے تھے کہ حکومتی لچھن بتا رہے ہیں پٹرول دوسو روپے لیٹر تک جا سکتا ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ جب عالمی منڈی میں ریٹ زیادہ ہوں تو پاکستان کی حکومت سستا تیل کیسے بیچ سکتی ہے تو جواب تھا کہ حکومتیں پلاننگ کرتی ہیں، وقت پر خریداری ہمیشہ مہنگی پڑتی ہے، خریداری پہلے کی جاتی ہے اور دوسرا طریقہ سب سڈی ہے۔ اشرف مہتاب، سینئر کامرس رپورٹر ہیں، وہ کہہ رہے تھے کہ اس وقت حکومت کو ریفائنریوں پر پٹرول ایک سو آٹھ روپے لیٹر پڑ رہا ہے، ڈیلر مارجن منہا کرنے کے بعد نئی قیمت میں پینتالیس روپوں سے بھی اوپر ٹیکس لیا جا رہاہے۔
جب سے یہ حکومت آئی ہے پٹرول مجموعی طور پر تہتر فیصد تک مہنگا کر چکی ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنماوحید گل نے نیا انکشاف کیا کہ پٹرول پمپوں والے پورا پٹرول دیتے بھی نہیں لہذا یہ عین ممکن ہے کہ آپ کو پٹرول اس وقت بھی دوسو روپے لیٹر ہی پڑ رہا ہو۔ شہباز شریف کے پاس ایسی شکایت آتی تھی تو وہ ایم پی ایز کی دوڑیں لگوا دیتے تھے، ڈپٹی کمشنروں کی شامت آجاتی تھی، پٹرول پمپوں کے پیمانے چیک ہوتے تھے مگر اب کوئی پوچھنے والا نہیں۔
میں نے کچھ ماہرین سے پوچھا، کیا عوام کی یہ رائے درست ہے کہ اگر نواز شریف کی حکومت ہوتی تو پٹرول ایک سو ساٹھ روپوں سے کہیں کم قیمت پر دستیاب ہوتا جیسے سوا سو روپے لیٹر یااس کے آس پاس، کچھ کم یا زیادہ، ان کے جوابات سمجھ آنے والے تھے کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے عوام کو ہر شعبے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے پاس متعدد دلائل تھے، پہلی دلیل تھی کہ حکومت برآمدات بڑھانے کے سراب میں ڈالر دیوانہ وار مہنگا کرتی گئی۔
آج بھی ڈالر پونے دو سو روپوں سے اوپر مل رہاہے جسے اسحاق ڈار نے اٹھانوے روپوں پر بھی رکھا اور نگران دور کے اضافوں کے باوجود سو ا سو کی حد میں تھا۔ پٹرول کی عالمی منڈی میں قیمت سب سے زیادہ پیپلزپارٹی کے دور میں رہی جب فی بیرل ڈیڑھ سو ڈالر کے قریب پہنچ گیا تھا، ابھی چھیانوے ڈالر پر گیا اور پھر روس او ریوکرائن کے درمیان جنگ بندی کی باتوں سے اکانوے، بانوے ڈالر پر آ گیا۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ قیمتیں برقرار رہتیں مگرحکومت نے بارہ روپوں کا اضافہ ٹھوک دیا۔ اس میں چار روپے آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق لیوی کا اضافہ ہے جو ہر مہینے ہونا ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے پٹرول پر جی ایس ٹی زیرو کر دیا ہے مگر دوسری طرف لیوی ہر مہینے بڑھائی جا رہی ہے۔ اب عوام کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ ان کی جیبوں سے پیسے کس نام سے نکالے جا رہے ہیں۔
ہمارے پاس سات بڑے دلائل ہیں کہ اگر نواز شریف کی حکومت ہوتی تو اس وقت پٹرول کی قیمت بیس سے چالیس روپوں تک کم ہوتی۔ سب سے پہلی دلیل ڈالر کی قیمت کی ہے۔ اگر ڈالر سستا ہوتا تو اس کے مقابلے میں روپے بھی کم دینا پڑتے۔ دوسری دلیل ہے کہ نواز شریف حکومت نے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا تھا اور اگر ہم آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہ ہوتے تو ہمیں پٹرول پر ٹیکس (یا لیوی) بڑھانے کے لئے مجبور بھی نہ کیا جا رہا ہوتا، فیصلے عوامی سیاسی مفاد میں ہوتے۔
تیسری دلیل ہے کہ شریف فیملی کے سعودیوں سے ہمیشہ اچھے تعلقات رہے، اتنے اچھے کہ انہیں آمریت کے دوران سزائے موت دی جا رہی تھی تو سعودی حکمران انہیں اپنے پاس سرور پیلس لے گئے اور برس ہا برس مہمان بنائے رکھا۔ نواز شریف کی حکومت ہوتی تو پاکستان پٹرول کی قیمت میں رعائیت لے سکتا تھا جو پہلے لی بھی جاتی رہی ہے۔
چوتھی دلیل کہ نواز شریف کے دور میں پٹرول کے متبادل ایندھن سی این جی کی درآمد پر سنجیدہ کام ہو رہا تھا، قطر وغیرہ سے معاہدے ہی نہیں ہورہے تھے بلکہ کراچی پورٹ پر درآمد کے لئے ٹرمینل بھی بن رہے تھے۔ اگر نوازحکومت برقرار رہتی تو ان تین، چار برسوں میں سی این جی کی درآمد کا ایک مستقل میکانزم بن چکاہوتا جس کی بنیاد شاہد خاقان عباسی نے رکھی تھی اور مہنگے پٹرول پر انحصار کم ہو چکا ہوتا۔ پانچویں دلیل ہے کہ موجودہ حکمران ڈائریکٹ ٹیکس میں اضافہ کرنے میں ناکام رہے ہیں جبکہ اسحق ڈار نے ٹیکس کولیکشن کو ڈبل کر لیا تھا۔
عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ پہلے برس ہی آٹھ ہزار ارب ٹیکس جمع کرکے دکھائیں گے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ چوتھے برس میں بھی اس ہدف سے بہت پیچھے ہیں۔ یوں ریاست چلانے کے لئے کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں کہ آپ ان ڈائریکٹ ٹیکس بڑھائیں اور ترقیاتی اخراجات کو کم رکھیں۔
چھٹی دلیل ہے کہ اگر جی ڈی پی میں اضافہ ہو رہا ہو، کاروبار بڑھ رہے ہوں تب بھی سرکار کے پاس ٹیکس جمع ہونے لگتا ہے مگر کچھ کورونا نے تباہ کیا اور کچھ حکمرانوں کی توجہ تعمیر و ترقی کی بجائے سیاسی انتقام پر زیادہ رہی لہٰذا اب راستہ یہی ہے کہ قیمتیں زیادہ ہوں اور زیادہ مہنگائی پرزیادہ ٹیکس اکٹھا ہو۔
ساتویں دلیل ہے کہ جب تک حکمرانوں کو یہ یقین نہیں ہوگا کہ انہیں اقتدار عوام نے دینا ہے وہ تب تک عوام کے لئے پالیسیاں بھی نہیں بنائیں گے، انہیں اہمیت بھی نہیں دیں گے اور ان سے ڈریں گے بھی نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جس وقت عوام مہنگائی کے خلاف چیخ رہے ہیں، دنیا ہم بلند ترین افراط زر کے ساتھ ہیں، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بات ہورہی ہے، پیپلزپارٹی عوامی مارچ اور نون لیگ، پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ لانگ مار چ کرنے جار ہی ہے تو حکمران بہت بہادری (یا ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی) کے ساتھ پٹرول کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ کر رہے ہیں سو اگر ایک حقیقی عوامی اور جمہوری حکومت ہوتی تو وہ ایسے حالات میں عوام پرپٹرول بم ہرگز نہ گراتی۔