Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Aik Mukammal Ghair Siyasi Column

    Aik Mukammal Ghair Siyasi Column

    یہ اتنا ہی اہم ہے کہ ہم کن لوگوں سے دور ہیں جتنا یہ کہ ہم کن لوگوں کے ساتھ رہیں۔ ایک اچھی زندگی کے لئے سب سے پہلے تو ان لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے جو کہتے ہیں کہ پیسہ اہم نہیں۔ وہ اپنی لچھے دار باتوں سے ثابت کرتے ہیں پیسے سے بسترخریدا جا سکتا ہے مگرنیند نہیں، جسم خریدا جا سکتا ہے مگر محبت نہیں، یہاں تک کہ پیسے سے دوائی خریدی جا سکتی ہے مگر صحت نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ امیروں کی بڑی تعداد بھی دکھی اور غم زدہ ہوتی ہے لہٰذا پیسہ خوشی کی ضمانت نہیں ہے۔

    میرا جب بھی ایسے لوگوں سے مکالمہ ہوا تو میں نے کہا کہ جب امیروں اور غریبوں دونوں نے ہی رونا ہے تو میں فٹ پاتھ پر بے یارومددگار رونے کے بجائے کسی جہازی سائز بیڈ روم میں سواسوانچ کی ایل ای ڈی پر ایک دکھی فلم دیکھتے ہوئے رونا ہی پسند کروں گا۔ مرنا تو امیرنے بھی ہے اور غریب نے بھی، مجھے زیادہ بہتر لگے گاکہ میں کسی سرکاری ہسپتال میں دوا اور بستر کی بھیک مانگنے، نرسوں اور پیرا میڈکس کی جھڑکیاں کھانے کے بجائے ڈاکٹرز یا نیشنل ہاسپٹل میں مروں جہاں ہر گھنٹے بعد وزٹ ہو رہا ہو، خوبصورت نرسیں مسکرا کر بات کر رہی ہوں، ڈاکٹر میری کال پر دوڑے دوڑے چلے آ رہے ہوں۔

    ٹھہریں، ٹھہریں، جب وہ کچھ نہیں کرسکیں گے تو وہ آپ کو مذہب کی مار ماریں گے، وہ آپ کو بتائیں گے کہ صحابہؓ بھی غریب تھے اور آپ کے پاس جتنے کم پیسے ہوں گے اتنا ہی کم حساب ہوگا، یہ جو مذہب کی دلیل ہوتی ہے اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا مگر ان سے اتنا تو پوچھا جاسکتا ہے کہ آپ ہمیں انہی صحابہؓ کے بارے کیوں بتاتے ہیں جو امداد لینے کے لئے آتے تھے، جن کے گھروں میں تین، تین دن کے فاقے ہوتے تھے، ان کے بارے کیوں نہیں بتاتے جو انہیں امداد دیتے تھے۔

    وہ جومیٹھے پانی کے پورے کے پورے کنویں یہودیوں سے خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیتے تھے۔ وہ صحابہؓ جو جہاد کے لئے اونٹ، گھوڑے، تلواریں اور زرہ بکتریں فراہم کرتے تھے، اگر ہم نے آئیڈیل بنانا ہے تو ان کو کیوں نہ بنائیں کہ اس حدیث کی عملی و فکری صداقت سے کس کو انکار ہے کہ اوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے) سے بہتر ہے۔ اسلام میں دولت کمانے کی نہ کوئی حد ہے اور نہ ہی پابندی، ہاں، پابندی کسی اور شے کی ہے کہ آپ جو کچھ کما رہے ہیں وہ حلال ہے، جائز طریقے سے ہے۔ غربت کو آئیڈیلائز کروانے والے کئی مشہور مولوی خودچار، چار کروڑ کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں۔

    دوسرے ان لوگوں سے دور رہیں جو یہ کہتے ہیں کہ حلال طریقے سے مال کمایا ہی نہیں جا سکتا اور جتنے بھی امیر لوگ ہیں وہ سب کے سب حرام کمائی سے ہی امیر ہوئے ہیں۔ ایسی باتیں کہنے والے ناکام اور فرسٹریٹڈ لوگ ہیں۔ ان لوگوں سے دور رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا پیسے کے خلاف بھاشن دینے والوں سے دور رہنا۔ جائز طریقوں سے دولت کمائی جا سکتی ہے اور یہ سہولت نوکری کے بجائے کاروبار میں کہیں زیادہ ہے۔ یہ خیال ترک کر دیجئے کہ ہر وہ شخص جس کے پاس اچھا گھر یا اچھی گاڑی ہے وہ چور ہی ہے۔ اچھا گھر اور اچھی گاڑی لینے کے لئے کسی نے کتنے برس جدوجہد کی ہے اس کا آپ کو پوچھے اور جانے بغیر علم نہیں ہوسکتا۔

    میں سورۃ حجرات کی اس آیت کی بات کر رہا ہوں میں جس میں ہمیں برا گمان رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور یہ ہمارے اطمینان اور سکون کی بنیاد ہے۔ ہمارے بہت سارے دوست امیر ہونے کے لئے بچت کو بہت اہمیت دیتے ہیں اوراس کے نتیجے میں وہ ساری عمر گزارنے کے بعد کسی نہ کسی حد تک امیر ہو بھی جاتے ہیں مگر یقین مانیں کہ اس وقت تک ان کے اندر غربت اتنی رچ بس گئی ہوتی ہے کہ وہ امیر ہونے کے باوجود امیر نہیں لگتے۔ یہ لوگ سبزی والے، رکشے والے اور نجانے کون کون سے والے سے پانچ پانچ اور دس دس روپوں کے لئے لڑتے نظر آتے ہیں۔

    بچت، امیر ہونے کاکوئی مؤثر اور اطمینان بخش طریقہ نہیں ہے جیسے بہت سارے لوگ کمیٹیاں ڈال لیتے ہیں، وہ اپنی روزمرہ کی بہت ساری ضرورتوں اور خواہشوں کی قربانی دے کر پیسے بچاتے رہتے ہیں تاکہ کمیٹی نکلنے پر اپنی کوئی ایک ضرورت یا خواہش پوری کرسکیں۔ آپ جتنا زیادہ بچاتے جائیں گے اتنا ہی اپنی ضرورتوں اور خواہشوں پر کمپرومائز کرنا پڑے گا لیکن دوسری طرف آپ جتنا زیادہ کماتے جائیں گے اتنا ہی زیادہ اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کو پورا کر سکیں گے۔ بچت، غربت کا ہومیوپیتھک علاج ہے جبکہ کمائی ایلوپیتھک، سرجری کی طرح فوری اور موثر۔

    ان لوگوں سے بھی دور رہیں جو اپنے نظریات، خیالات اور عقائد میں پختہ ہیں۔ آپ اس بات سے حیران ہوئے ہوں گے مگر سچ بات یہی ہے کہ وہ تمام لوگ جو کسی بھی نظرئیے پر سختی سے کاربند ہیں اوراس کو مقدس بھی سمجھتے ہیں انہوں نے اپنے دماغوں کو قفل لگا لئے ہیں، وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو زنگ لگا چکے ہیں، اپنی زندگی میں ایک کمفرٹ زون بنا چکے ہیں اور وہاں باقی اپنی تمام زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ کبھی کبھار اپنے آپ کو اپنے نظریات اور خیالوں سے جدا کر کے بھی دیکھئے۔ آپ دوسروں کی بات اور موقف کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ آپ کے عقائد اور نظریات اس وجہ سے تو نہیں کہ آپ جہاں پیدا ہوئے، جہاں تعلیم حاصل کی اور جہاں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا آپ اس علاقے کے اسیر ہیں۔

    کیا یہ بات درست نہیں کہ انڈین مسئلہ کشمیر پر جو رائے رکھتے ہیں یا پاکستانی مسئلہ کشمیر کو جس طرح دیکھتے ہیں ان میں ننانوے فیصد کی رائے اس وجہ سے ہے کہ وہ واہگہ بارڈر کے ایک طرف پیدا ہوئے تھے یا دوسری طرف، جس روز آپ نے یہ صلاحیت پیدا کر لی آپ عام آدمی نہیں رہیں گے۔ یاد رکھیں، کنفیوژ ہونا ہرگز نیگیٹو نہیں، یہ نئے نئے امکانات کی راہ دکھاتا ہے، انتہا پسندسے بچاتا ہے۔

    ایک اور کلاس ہے جس سے دور رہنے کی ضرورت ہے جو جھوٹ، منافقت اور دھوکہ دہی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتی ہے، میں انکار نہیں کرتا کہ ہمارے معاشرے میں یہ سب بکتا ہے، چلتا ہے بلکہ دوڑتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ زندگی ہو یا کاروبار اس میں کامیابی کی سب سے بڑی حکمت عملی ہی ایمانداری ہے۔ اس گوالے کا دودھ سب سے زیادہ اور مہنگا بکتا ہے جو خالص بیچتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سکولوں اور کالجوں میں بچوں کو ڈگریاں دے کرمارکیٹ میں پھینک دیتے ہیں مگر ان کی بنیادی اخلاقی تربیت نہیں کرتے۔

    میں اس وقت تک کسی جج، جرنیل، جرنلسٹ، بزنس مین، بیوروکریٹ کو اچھا جج، اچھا جرنیل، اچھا جرنلسٹ، اچھا بزنس مین اور اچھا بیوروکریٹ نہیں سمجھتا جب تک وہ ایک اچھا انسان نہیں ہے۔ ان سے دور رہیں جو اچھے انسان نہیں ہیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ جو لوگ اچھے انسان نہیں وہ انسان ہی نہیں ہیں، حیوان ہیں۔