نہیں نہیں، میں جنوبی پنجاب کی محرومی والے افسانے میں رنگ نہیں بھر رہا بلکہ اس پورے پاکستانی پنجاب کے سرکاری دفترو ں میں الگ الگ پنجاب کی بات کر رہا ہوں، ایک برہمن ملازموں کا، دوسرا شودر ملازموں کا۔ اس پر شورمچاتے ہوئے سال، سوا سال ہو گیا مگر آئین، قانون اور عوام کاکوئی محافظ نوٹس لینے کے لئے تیار ہی نہیں۔ ایک پاکستان، کانعرہ لگانے والوں نے حکومت سنبھالی توانہیں گمان گزرا کہ بیوروکریسی سابق حکمرانوں کی شیدائی ہے سو انہوں نے افسر شاہی کو قابو میں کرنے کے لئے سرکاری رشوت کا طریقہ ایجاد کیا جو کسی اسمبلیوں یا عدالتوں والے ملک میں تھوپا ہی نہ جا سکتا۔ انہوں نے سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں میں یکمشت ڈیڑھ سو فیصد اضافہ کر دیا یعنی جس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے تھی وہ چھلانگ لگا کر اڑھائی لاکھ روپوں کے لگ بھگ ہوگئی۔ یہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن والے حکومت کی لاٹھی ہیں، یہ لاٹھی حکومت کوچلنے میں سہارا بھی دیتی ہے اور حکومتی مخالفین کی ہڈیاں بھی سینکوا دیتی ہے۔ اس کے بعد پولیس والے کیوں پیچھے رہتے، ان کے بڑے گریڈوں کی تنخواہیں بھی بڑھ گئیں، انجینئرز نے کام بند کیا تو انہیں بھی الاونس مل گیااور کچھ دوسرے شعبوں کو بھی۔
سابق دورمیں عدالتوں، اسمبلیوں اور تینوں سیکرٹریٹوں میں کام کرنے والوں کو اضافی تنخواہیں ملتی تھیں، اصولی طور پروہ بھی غلط تھا مگر اب یہ سلسلہ دفتر، دفتر پہنچ چکا ہے۔ اگر ایک ڈرائیور سیکرٹریٹ کا ہے یاحکمرانوں کے لئے کسی ضروری محکمے کا تو اس کی تنخواہ پچاس، ساٹھ ہزار ہو سکتی ہے اور عام ڈرائیور کی اٹھارہ، بیس ہزار۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ ایک طرف برہمنوں کی تنخواہیں بڑھ رہی تھیں تو دوسری شودر سرکاری ملازمین کو بجٹ میں ملنے والا معمول کا دس فیصد اضافہ بھی دینے سے انکار کر دیا گیا، کہا گیا کہ سرکار کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس پرشودر وں کی چیخیں نکل گئیں اور وہ کئی ماہ انتظار کے بعد اسلام آباد پہنچ گئے جہاں انہوں نے نئے نئے لگنے والے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کو آنسو گیس کے ایکسپائرڈ شیل اپنے اوپر آزمانے کاموقع بھی فراہم کیا۔ ظاہر ہے جو اسلحہ دشمنوں پر استعمال نہیں ہوگا وہ پھر اپنے آپ پر ہی ہو گا اور پھر اس پر وزیر داخلہ نے ہنسی بھی اڑائی اورجگتیں بھی لگائیں جیسے ملازمین انڈیا کے تھے اور وزیر داخلہ پاکستان کا۔ سرکاری ملازمین نے ایک ٹیچر کی نعش اورتین وفاقی وزرا شیخ رشید احمد، پرویز خٹک اور علی محمد خان سے ایک تحریری اعلان موصول کیا جس کے تحت ان کی تنخواہوں میں پچیس فیصد اضافہ کیا گیا تھا اور یہ واضح کیا گیا تھا کہ صوبے بھی اس پر عمل کریں گے۔
پنجاب کے دس لاکھ کے لگ بھگ سرکاری ملازمین میں سے پانچ سے دس فیصد کو آپ برہمن کہہ سکتے ہیں مگر نو، ساڑھے نو لاکھ شودر ہیں۔ پنجاب میں شودروں کے شور مچانے پر وزیراعلیٰ بزدار نے ایک میٹنگ میں ہاتھ اور جھولی جھاڑ کے دکھا دئیے کہ ہمارے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں جس پر دوبارہ احتجاج اور دھرنے شروع ہو گئے۔ میں اس اطلاع کی حمایت کرتا ہوں کہ پنجاب کے وزیر قانون راجا محمد بشارت نے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں اضافہ دینے کی حمایت کی۔ انہوں نے کابینہ میں سمری بھی پیش کی اور وہاں ان کا مقدمہ بھی لڑا مگر دلچسپ امر یہ ہے کہ اس پچیس فیصد ڈسپیریٹی الاونس، کی راہ میں رکاوٹ بننے والے وہی سرکاری مگرمچھ ہیں جو خود ایک سو پچاس فیصد اضافے کی ایک برس سے جگالی کر رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے چوبیس مارچ کے دھرنے کوختم کرواتے ہوئے وعدہ کیا گیا کہ اکتیس مارچ تک لسٹیں مرتب کر لی جائیں گی کہ کن برہمن ملازمین کو پچیس فیصد اضافہ نہیں دینامگراکتیس مارچ کو ایک اور کمیٹی بنا دی۔ اب امید راجا بشارت سے ہی ہے جو کہہ رہے ہیں کہ سرکاری ملازمین ان سے کل پیر کی شام مل لیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ کورونا کی وبا اپنی شدت پر ہے لہٰذا سرکاری ملازمین چھ اپریل بروز منگل کو اعلان کردہ دھرنا منسوخ کر دیں کہ وہ سرکاری ملازمین کے نمائندوں کوہر موقعے پر اعتماد میں لے رہے ہیں، انہیں ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔
میں نہیں جانتاکہ کل شام کیا ہو گا۔ کیا طاقت ور بیوروکریسی کوڈیڑھ سو فیصد اضافی تنخواہ کی رشوت دینے والی حکومت باقی تمام سرکاری ملازمین کو پچیس فیصد وہ الاونس دے گی جسے اگلے بجٹ میں تنخواہ کا حصہ بنایا جانا ہے یعنی عملی طور پر اس کے بعد اگلے بجٹ میں کوئی اضافی فائدہ نہیں ہوگا مگرمیں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اگر میرے صوبے میں کوئی اسمبلی اور کوئی عدالت ہوتی تو یہ حکم ہی جاری نہ ہوپاتاکہ کچھ سرکاری ملازمین کو ڈیڑھ سو فیصد اضافہ دے دیا جائے اور باقیوں کو محروم رکھا جائے کیونکہ یہ آئین اور قانون کے منافی ہے مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ جب اسمبلیوں اور عدالتوں والے خود اضافی تنخواہیں لے رہے ہوں تو انہیں دوسروں سے کیا غرض کہ انہیں کتنی ملتی ہے یاملتی ہی نہیں ہے۔ میں نے ایک ٹریڈ یونین رہنما سے پوچھا، تم ایس اینڈ جی اے ڈی، پولیس اوردیگر محکموں کے طاقتور مچھندروں کی اضافی تنخواہوں کے خلاف عدالت کیوں نہیں جاتے۔ میں اس لیڈر کے ردعمل سے حیران رہ گیا جب اس نے کہا کہ عدالتوں میں گئے اور وہاں اس پر قانونی مہر لگ گئی تو پھر ہم احتجاج کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے۔ اس نے مجھے مزید حیران کرتے ہوئے ڈاکٹروں کے ایم ٹی آئی ایکٹ سمیت دیگر مثالیں دیں جہاں اس شعبے کے لوگ اپنے ساتھ ہونے والے ظلم اور ناانصافی کے خلاف احتجاج سے بھی محروم کر دئیے گئے۔ حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ایسا چکر چلایا کہ سب کچھمینج، کرلیا۔ حکومت سے کہا گیا کہ وہ ایم ٹی آئی ایکٹ پر سٹیک ہولڈروں سے مشاورت کرے تو عہدوں کی طالب کٹھ پتلیوں کو بٹھا کے تصویریں بنوا لی گئیں، سرکاری ہسپتالوں کو اپنے فنانسرز کے حوالے کرنے پرہاتھ کھڑے کروالئے گئے۔
مجھے اسمبلیوں اور عدالتوں سے یہ مایوسی بہت خطرناک لگتی ہے۔ مجھے یہ خطرناک لگتا ہے جب لوگ قانون اورضابطوں کے بجائے احتجاج اور دباو سے اپنے حقوق لینے کو ترجیح دیں۔ یہ کسی آئینی، قانونی اورمہذب معاشرے کی عکاسی نہیں ہے، کاش، اپوزیشن اتنی جاندار اور سمجھدار ہوتی کہ وہ اس معاملے کوپنجاب اسمبلی کے ایوان میں اٹھاتی مگر لگتا ہے کہ کہ اس کے پاس اپنی پشت بچانے کے سوا کسی دوسرے کام کے لئے نہیں وقت ہی نہیں، وہ پشت جس پر ہر روز ایک نئی لات پڑ رہی ہے۔ کاش، ہماری عدالتیں اس بے انصافی کانوٹس لیتیں اور قرار دیتیں کہ ایک پاکستان کا نعرہ لگانے والوں کو پنجاب کے اندر کئی پنجاب بنانے کاکوئی حق اوراختیار نہیں۔ ایک ایس اینڈ جی اے ڈی اور پولیس جیسی مگرمچھ کی طرح طاقتور افسر شاہی کا پنجاب اور دوسرے کیچوے کی طرح کے پاوں تلے کچل دئیے جانے والے ڈرائیوروں، نائب قاصدوں، کلرکوں کا پنجاب۔