کمال اظفر نے بٹوارے سے بنے خونی ماحول کو سمجھنے سمجھانے کے لئے جہاں ایک طرف سعادت حسن منٹو کے افسانے "ٹھنڈا گوشت" کا طویل اقتباس کتاب کا حصہ بنایا وہیں انہوں نے امرتا پریتم کی مشہور زمانہ نظم "اج آکھاں وارث شاہ نوں" کے ذریعے بھی بٹوارے سے ہوئی بربادیوں کا نوحہ بیان کیا۔ صبح آزادی کے مصنف کہتے ہیں۔۔
"ہندوستان کی تقسیم کے معنی پنجاب کے ہندوئوں اور سکھوں کی اکثریت پر مشتمل مشرقی پنجاب اور مسلم اکثریت پر مشتمل مغربی پنجاب میں تقسیم تھی۔ معلوم تاریخ میں اس عظیم انسانی ہجرت نے پانچ دریائوں کا پانی سرخ کردیا۔ ایک کروڑ لوگوں نے پنجاب کے خون آلودہ میدانوں کو عبور کیا 10 لاکھ قتل ہوئے اور سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے آبرو گنوائی یا اغوا ہوگئیں"۔
معروف بات بلکہ حقیقت یہی ہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کی اعلیٰ اور دوسرے درجہ کی قیادت برطانوی تعلیمی اداروں سے پڑھ کر آئی تھی۔ تعلیم کے ساتھ اعلیٰ اخلاقی و سماجی روایات سے طالب علموں کو روشناس کرانے کے دعوے دار برطانوی تعلیمی نظام متحدہ ہندوستان کے کانگریسی اور مسلمان لیڈروں کی اخلاقی و تہذیبی تربیت کے معاملے میں یکسر کورا ثابت ہوا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بطور نائب وزیراعظم ایٹلی نے جو پارلیمان میں شاہی مہر کے نگہبان خصوصی بھی تھے 2 فروری 1942ء کو دوران جنگ کابینہ میں ایک یادداشت پیش کی جس کے مندرجات تھے "ہم متحدہ ہندوستان کے لوگوں کے ہاتھوں اسی اخلاقی تصورات کے نشانے پر ہیں جو ہم نے ہی انہیں قبول کرنے کی تعلیم دی۔ سیاسی طور پر باشعور ہندوستانیوں کی آزادی و جمہوریت کے اصولوں کا بعینہ یہی قبولیت ہے جو ہمیں ان مقاصد کے حصول کی خاطر انہیں اپنا اتحادی بننے پر قائل کرنے کے قابل بناتی ہے۔ میں وائسرائے ہند کی سطحی سامراجی سوچ کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کو ناممکن سمجھتا ہوں صرف اس لئے نہیں کہ وہ غلط ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ میری نظر میں ہلاکت خیز کوتاہ بینی کا شکار ہے"۔
ایٹلی کی یادداشت کے مندرجات ایک بار پھر ہمیں یہ سوال اٹھانے پر مجبور کردیتے ہیں کہ وہ کون سے اخلاقی تصورات تھے جن کی تعلیم برطانوی راج میں متحدہ ہندوستان کے لوگوں کو تعلیم کئے گئے؟
طالب علم کی رائے مختلف ہے وہ یہ کہ سامراجی قوت اپنے مقبوضہ علاقوں میں جس اعلیٰ اخلاقی تصورات کو متعارف کراتی ہے اس کی بنیاد اطاعت و وفاداری پر رکھی جاتی ہے۔ اطاعت و وفاداری پر استوار تعلیم منشی منکے تو پیدا کرتی ہے حریت فکرکے علمبردار اور پاسبان ہرگز نہیں۔
کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی برطانوی تعلیمی ادارں سے فیض یاب لیڈر شپ سماجی وحدت کے اس اصول کو ہی نہیں سمجھ پائی جو شرف انسانی کی تعلیم کا ابتدائیہ ہے۔ سمجھ پاتے تو متحدہ ہندوستان ایک بڑے انسانی المیے سے بچ رہتا جوکہ نہیں بچ پایا۔
7 مارچ 1942ء کو ایٹلی نے ہندوستان کی مستقبل کی حکومت کے بارے میں ایک قرارداد کا مسودہ پیش کیا۔ مقصد ایک نئے ہندستانی اتحاد پر مشتمل عمل دار حکومت کا قیام ہے جو برطانیہ اور دوسری عمل دار حکومتوں کے ساتھ تاج برطانیہ کی اتحادی اور ماتحت تو ہو لیکن داخلی و خارجی معاملات میں کسی درجے کی محکوم نہ ہو"۔
یہ قرارداد 9 مارچ 1942ء کو منظور کرلی گئی۔ 30 مارچ کو کرپس وہ مشکل منظرعام پر لے آیا جو اس کی پریشانی کا باعث تھی۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہندوستان ایک واحد مملکت ہونی چاہیے کچھ دوسرے یہ کہتے تھے کہ اسے دو یا تین جدا مملکتوں میں تقسیم ہونا چاہیے۔ کانگریس کے صدر ابوالکلام آزاد کے نام کرپس نے ایک خط میں لکھا، کانگریس دفاع ہندوستان کی ذمہ داریوں کے بارے میں مشکلات کا شکار ہے۔
کرپس کی تجویز یہ تھی کہ دفاع کا قلم دان دو اداروں میں تقسیم کردیا جائے۔ فوجی انتظام و انصرام ہندوستانی اختیار ہو اور فوجی حکمت عملی اور اس پر عملدرآمد کمانڈر انچیف وائسرائے کے تحت رکھا جائے۔ کرپس مشن اور اس کی تجاویز بر نہ آئیں۔ چرچل نے 11 اپریل 1942ء کو روز ویلٹ کو کرپس مشن کی ناکامی کی اطلاع دی۔
کریس کی تجاویز پر سب سے شاندار اور برجستہ تبصرہ مہاتما گاندھی کا تھا انہوں نے کہا "یہ ایک ایسے بینک کا چیک ہے جو اگر دیوالیہ نہ ہوا تو چیک کیش کروایا جاسکتا ہے"۔
9 اگست 1942ء کو کانگریس نے متحدہ ہندوستان سے برطانوی راج کے خاتمے کی قرارداد منظور کی۔ گاندھی اور نہرو سمیت کانگریس کی ساری قیادت کو اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب "ہندوستان چھوڑدو" تحریک جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی سلطنت برطانیہ کا سورج بھی غروب ہونا شروع ہوگیا۔
30 اپریل 1945ء کو جب برلن کی لڑائی اختتام کو پہنچی تو ہٹلر نے موسی لینی جیسے انجام سے بچنے کے لئے اپنے زیر زمین بنکر میں پہلے اپنی محبوبہ ایوا براون سے شادی کی چھوٹی سی رسم کی۔ ایوا کے زہر کھالنے کے بعد ہٹلر نے خودکشی کرلی۔ اس کی پہلے سے دی گئی ہدایات کے تحت اس کے وفادار ساتھیوں نے ایوا اور ہٹلر کی لاشیں جلادیں۔
کیبنٹ مشن نے متحدہ ہندوستان کے تین گروپوں پر مشتمل وفاق تشکیل دینے کی تجویز پیش کی۔ پہلا گروپ یو پی، مدراس، بمبئی، سی پی، بہار اور اڑیسہ کے ہندو اکثریت کے صوبوں پر مشتمل تھا۔ دوسرا گروپ پنجاب، سندھ، شمال مغربی سرحدی صوبے (اب خیبر پختونخوا) اور بلوچستان کے مسلم اکثریتی صوبوں جبکہ تیسرا گروپ برصغیر کے شمال مغرب میں بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں اور کثیرالثقافتی آسام پر مشتمل تھا۔
ہر گروپ کو سکیم کے اطلاق کے دس سال بعد آزادی (حق خوداختیاری مل جانا تھا) کا حق تھا۔ مسلم لیگ نے 6 جون 1946ء کو یہ منصوبہ قبول کیا جبکہ کانگریس نے 25 جون کو لیکن 10 جولائی 1946ء کو کانگریس کے نومنتخب صدر جواہر لال نہرو نے بمبئی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ منتخب ایوان بااختیار ہوگا اور وہ کیبنٹ مشن کے تحت کام نہیں کرے گا۔
جواباً مسلم لیگ کے صدر محمدعلی جناح نے بھی کیبنٹ مشن کے لئے اپنی جماعت کی حمایت واپس لے لی۔
27 جولائی 1946ء کو بمبئی میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جنرل کونسل نے حصول پاکستان کے لئے راست اقدام کا اعلان کیا جو کیبنٹ مشن کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔
کمال اظفر لکھتے ہیں "3 جون 1947ء کو وائسرائے لارڈ مائونٹ بیٹن نے اعلان کیا کہ 2 ماہ بعد ہندوستان کو تقسیم کردیا جائے گا تو تھکے ماندے نہرو اور قریب المرگ جناح نے چار و ناچار اس منصوبے کو قبول کرلیا۔ بلدیو سنگھ دو "دیووں" میں پھنس کر رہ گیا"۔
یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ متحدہ ہندوستان کے اس طور اجڑنے برباد ہونے پر اس وقت صرف ایک شخص مہاتما گاندھی ہندوستان کی چیڑپھاڑ پر آہ و زاری کرتا رہ گیا۔ خون کے سوداگروں نے اس کی ایک نہ سنی۔
ہم اس تلخ حقیقت کو یکسر نظرانداز نہیں کرسکتے کہ برطانوی تعلیمی اداروں سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تعلیم حاصل کرنے والی کانگریسی و مسلم لیگی لیڈر شپ نے نفرت اور بٹوارے کی سیاست سے ایک ایسے خونی کھیل اور دائمی نفرت کی بنیاد رکھی جس کا خمیازہ آج بھی واہگہ کے دواور کے لوگ بھگت رہے ہیں۔
پڑوسیوں سے اچھے تعلقات کی ایک روشن مثال آج کا یورپ (یورپ یونین) ہے۔ انتہا پسند ہندو سکھ اور مسلمان قیادت نے اگر اس وقت رتی برابر بھی دانش سے کام لیا ہوتا تو برصغیر اس خون خرابے سے بچ سکتا تھا جس کی وجہ سے دس لاکھ افراد موت کا رزق بنے۔
ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ بٹوارے کے 77 برس بعد بھی ہندوستان اور پاکستان میں نفرت بھری تاریخ والا بیانیہ فروخت ہورہا ہے۔ دونوں طرف کے ریاستی وفادار بٹوارے اور خون خرابے پر ایک دوسرے کو دوش دیتے ہیں۔ پورا کیا چوتھائی سچ بھی کوئی بولنے پر تیار نہیں۔
جاری ہے۔۔