Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Ammi

Ammi

آپ لفظ رب کے معنی جانتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے جو قرآن پاک میں بار بار استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں رب آقا، مالک اور پرورش کرنے والے کو کہتے ہیں۔ اسلام سے قبل عرب اپنے دیوتاوں لات اور ہبل کو بھی رب ہی کہتے تھے مگرنبی اکرم ﷺ نے ہدایت کی کوئی غلام اپنے آقا کو رب کہہ کر نہ پکارے کیونکہ رب کا لفظ اللہ سے منسوب ہے۔ دوسری طرف قرآن پاک میں حکم ملتاہے، و قل رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا، یعنی کہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے (رحمت و شفقت سے) پالا تھا۔ یہاں رب نے ربوبیت کی صفت کو والدین کی طرف موڑ دیا۔ جب میں اپنی ماں کو دیکھتا ہوں تو اس میں مجھے رب ہی نظر آتا ہے، انہوں نے مجھے پیدا کیا، پرورش کی، تعلیم و تربیت سے نوازا۔ میرے لیے میری ماں، باپ بھی تھیں کہ میں جب تین برس کا تھا تومیرے والد کا انتقال ہو گیا تھا، میرے ذہن میں والد کا کوئی نقش اور کوئی عکس نہیں ہے۔

 ساری دنیا کی مائیں اپنی اولاد کے لئے محترم ہوتی ہوں گی مگر میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جس طرح میری والدہ نے ہم بہن، بھائیوں کی مشکل ترین حالات میں بہترین پرورش کی، دنیا کی شائد ہی کوئی ماں اس ہمت، جرات اور محنت کا مقابلہ کر سکتی ہو۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ جب بہت سارے باپوں والے بھی یونیورسٹیوں کامنہ نہیں دیکھ سکتے توہم بہن بھائیوں نے ماسٹرز تک کی تعلیم ریگولر کیسے حاصل کر لی۔ امی نے ہم بچوں کو پالنے کے لئے ایک سرکاری محکمے میں ملازمت اختیار کر لی، پھرمڈل کلاس ایریا کے چھوٹے سے گھر کے مزید حصے بنا کے اسے کرائے پر دے دیا گیا۔ میرے پاس جوریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق والد کی وفات کے بعد اس چھوٹے سے مکان کے لئے بھی مقدمے بازی ہوئی مگر اب اس کا ذکر تلخیوں کے سوا کچھ بھی نہیں کہ امی نے زندگی بھر صلہ رحمی کی، رشتے داریاں نبھائیں۔ وہ دن بھرکی ملازمت کے بعد تھکی ہاری آتیں، پھر گھر میں کھانا پکتا اور وہی سالن اگلے روز دوپہر تک استعمال ہوتا۔ اکثر یوں ہوتاکہ رات ہونے کو ہی وقت ملنے پر ہمارے گھر میں واشنگ مشین لگ جاتی، یونی فارم اور دیگر کپڑے دھلتے، چونکہ صحن کی عیاشی دستیاب نہیں تھی لہذا گھر کے اندر ہی لکڑی کی سیڑھی وغیرہ پر لٹکا دئیے جاتے۔ جب دن چڑھتا تو سوکھنے کے لئے ڈال دیتے۔ وہ صبح ڈیوٹی پر جاتے ہوئے اضافی روٹیاں پکا جاتیں، ہم سکول سے گھر آتے، تالا کھولتے اوررات والاسالن ٹھنڈی روٹیوں کے ساتھ کھا لیتے۔ شائد زمانہ بھی کچھ سادہ تھا اور ہمارے مزاجوں میں آج کل والی تیزی نہیں تھی مگر ایک مرتبہ مجھے شوق پیدا ہوا کہ وہ چائینیز قلم خریدنا ہے جس کے ایک طرف انک والا پین اور دوسری طرف بال پوائنٹ ہوتا تھا، اٹھارہ روپے اس کی قیمت تھی، والدہ نے انکا رکر دیا کہ یہ عیاشی نہیں ہوسکتی، چا ر روپے کا ایگل کا پین ہی ٹھیک ہے، میں اس " محرومی " پر بہت رویا اور پھر مجھے وہ پین خرید دیا گیا، مجھے علم نہیں کہ روزمرہ خرچے سے اٹھارہ روپوں کا وہ نقصان کیسے ایڈجسٹ ہوا ہو گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ بہت سخت طبیعت کی تھیں اور میں سوچتا ہوں کہ اگر وہ دنیا والوں کے سامنے اپنا رویہ سخت نہ رکھتیں تو دنیا والے ان سمیت ہم سب کو کچا ہی کھا جاتے۔

امی کی وفات تک الیکٹرانک میڈیا عام نہیں ہوا تھا اور پرنٹ میڈیامیں صحافیوں کی تنخواہیں شاندارنہیں تھیں، اس وقت میں روزنامہ ایکسپریس میں تھا اور اس سے پہلے دن، اخبار کا چیف رپورٹر بھی رہ چکا تھا مگر میرے پاس جوموٹرسائیکل تھی وہ کمیٹی نکلنے پر سیکنڈ ہینڈ خریدی گئی تھی۔ میری تنخواہ کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ کی پنشن گھر اچھے طور پر چلانے میں اپنا کردارادا کرتی تھی، آخری دنوں وہ میرے ساتھ ریلوے ہیڈکوارٹرز سے والد کی پنشن لینے کے لئے گئیں، ملنے والی تھوڑی سی رقم کو تھاما اوربولیں، وہ دن کب آئے گا جب یہ پینشن میں اپنے پاس رکھا کروں گی، اس سے اپنی مرضی سے بچوں کے لئے چیزیں لیا کروں گی کیونکہ وہ معمولی رقم بھی بجلی کے بل کی ادائیگی میں چلی جانی تھی۔ پھر الیکٹرانک میڈیا آگیا، ہم کارکن صحافیوں کے حالات کاربہتر ہونے لگے مگر اچھے دن آنے سے پہلے ایک رات اچانک انہیں دل کی تکلیف ہوئی، میرے خالہ زاد بھائی بھی آئے ہوئے تھے، فیصلہ ہوا کہ انہیں فوری طور پر ہسپتال لے جایا جائے، انہوں نے کراہتے ہوئے مجھے کہا کہ ا س کا کوئی فائدہ نہیں، تم کلمہ پڑھو۔ میں سمجھا کہ وہ ہمت ہار رہی ہیں لہٰذا ان کے ساتھ اونچی آواز میں کلمہ طیبہ دہرانے کی بجائے گھبراہٹ میں کہاکہ وہ مایوسی والی باتیں نہ کریں، میں اور نواز ش بھائی انہیں لے کر شیخ زید ہسپتال پہنچے مگر ان کا انتقال ہو چکا تھا۔

میں نے اپنی والدہ سے دیانتداری کے ساتھ کام اور محنت کرنا سیکھا ہے، کوئی حکمران ہے یا سرمایہ دار، مجھے کسی کو خوش یا ناخوش نہیں کرنا، مجھے اپنی والدہ کوگواہ بنا کے کہنا ہے کہ مجھے دیانتداری کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے چلے جانا ہے۔ آج اگر میں کسی مقام پر ہوں تواس میں میرا کوئی کمال نہیں، اگر اللہ کا بے پایاں کرم اور امی کی سخت محنت کے ساتھ دی ہوئی تربیت نہ ہوتی تو میں آج کسی ویلڈر، کسی مکینک کے طورپر کام کر رہا ہوتا۔ بہت سارے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ میں نے سٹی فارٹی ٹو کا پرائم ٹائم شو چھوڑ کر ریلوے میں ڈی جی پی آر کی پوسٹ کیوں قبول کر لی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شائد یہ نواز لیگ کی مجھ پر کوئی مہربانی تھی تو مجھے بتاناپڑتا ہے کہ اگر یہ مہربانی تھی تو صرف خواجہ سعد رفیق کی تھی جن سے میرا تعلق سٹوڈنٹ پالیٹکس کا تھا۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میرے والد ریلوے ہیڈکوارٹرز میں ملازمت کرتے تھے اورمیں نے اپنے بچپن سے جوانی تک کے دن ریلوے ہیڈ کوارٹرز کی قلعہ نما دیواریں دیکھتے ہوئے گزارے جب میں اور امی پینشن لینے جایا کرتے تھے اور کچھ ماہ کے بعد ہمیں ریلوے ہیڈکوارٹرز سے ایک سرٹیفیکیٹ کی تصدیق کروانا ہوتی تھی۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑی بات تھی کہ میں اس ادارے میں جا کر ایک بڑی سیٹ پر بیٹھوں جہاں میرے والد کام کرتے تھے ورنہ ایک مقبول چینل کا کامیاب پرائم ٹائم شو چھوڑنا بہت سارے لوگوں کی نظرمیں ایک گھاٹے کا سودا تھا مگر اس سودے میں میری محبت، عقیدت اور جذبات تھے اور ان کے بھلا کب کوئی دام لگتے ہیں۔

جب تک امی زندہ تھیں تو قومی اخبارات کی چیف رپورٹری کرنے کے باوجود غربت کے دن تھے، اچھے دن الیکٹرانک میڈیا میں آئے اور تنخواہ چھ فگرز تک پہنچی مگر ان دنوں کو انجوائے کرنے کے لئے امی موجود نہیں تھیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس حج کا ثواب موجود ہے کیونکہ میں نے امی کا چہرہ پیار اور محبت سے دیکھا ہے۔ اب میں آپ کو ایک عجیب بات بتاتا ہوں کہ سٹوڈنٹس پالیٹیکس سے توبہ کے بعد میں نے نماز پڑھنا شروع کر دی اور یہ سلسلہ رپورٹنگ کے دوران بھی جاری رہا۔ وہ دسمبر دو ہزارتین کے آخری دن تھے کہ شیطان نے میرے ذہن میں ڈالنا شروع کر دیا کہ تم دن میں اتنی مرتبہ اپنا کام چھوڑ کے نماز کی طرف چلے جاتے ہو، کیا وہ لوگ کامیاب نہیں جو نماز نہیں پڑھتے، اس کی بجائے اپنے کام میں دھیان دو تو زیادہ کامیاب رہو گے۔ میں نے یکم جنوری سے نماز پڑھنا چھوڑ دی اور پھر صرف ایک ہفتے کا مارجن ملا، ایک ہفتے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی دی ہوئی سب سے بڑی نعمت واپس لے لی۔ امی کا انتقال دل کی تکلیف سے ہوا اور دفن کئے جانے تک ان کا چہرہ نیلا ہونے لگا تھا اورجب میں جنازہ اٹھانے لگا تھا تو میں نے ان کا ماتھا چوم لیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میں اس کے صدقے بخش دیا جاؤں گا، جنت میں بھیج دیا جاؤں گا۔ (قارئین سے امی کی برسی پر ان کے لئے ایصال ثواب کی درخواست ہے)