Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Anari

Anari

آپ حکمرانوں کو پیار سے بلانا چاہیں تو انہیں کس نام سے بلائیں گے، مجھے ایک ہی نام سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے اناڑی،۔ نواز شریف نے ایک مرتبہ راج کپور پر فلمایا ہوامکیش کا ایک گانا گنگنایا تھا، سب کچھ سیکھا ہم نے نہ سیکھی ہُشیاری، سچ ہے دنیا والو کہ ہم ہیں اناڑی۔۔ ، ، مگر انہوں نے اناڑی ہوتے ہوئے بارہ، بارہ اور سولہ، سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا ایسا علاج کیا کہ آج تین برس بعد بھی حکمران اضافی بجلی کا رونا رو رہے ہیں، وہ کیسے اناڑی تھے جنہوں نے ہر ہفتے ہونے والے خود کش حملوں کو فوج کی مدد سے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اکھاڑ پھینکا، کراچی سے خیبر اورگوادر تک ہزاروں کلومیٹر لمبی سڑکوں کا جال بچھا دیا، مہنگائی کی شرح جو اب پندرہ فیصد سے نیچے جانے کا نام نہیں لے رہی تین ساڑھے تین فیصد پر روکے رکھا، ملکی ترقی کی شرح کو چھ فیصد کے قریب لے گئے اور ہدف گذشتہ برس اس سے بھی آگے جانے کا تھا اگر خدمت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہی حکومتوں کے فیصلے ہوتے۔

میں نے اپنے دفتر جانے کے لئے شیرپاؤ برج سے گاڑی ایم ایم عالم روڈ کی طرف موڑی تو ایم ایم عالم ایکسٹنشن روڈ پر دھویں کے بادل تھے۔ میں قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہاں کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگی ہوئی تھی۔ یقین کریں میں کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگنے کے مناظر بھول چکا ہوں۔ یہ کام میرے شہر میں ہوا کرتا تھا مگر اس کے بعد صفائی کا جدید نظام آ گیا۔ میں نے کبھی عیدوں پر بھی کوڑا کرکٹ اور جانوروں کا فضلہ نہیں دیکھا۔ میں نے گاڑی روکی اور اس کی ویڈیو بنا لی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حکومتی اناڑی جو باتوں کے کھلاڑی ہیں مجھے کسی نہ کسی جگہ ضرور چیلنج کریں گے۔ وہ اپنی کارکردگی کو ظاہر کرتی ہوئی ہر بات کو جھوٹ کہنا عادت بنا چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہم محمود بوٹی پر ڈمپنگ سٹیشن پرشجر کاری کر رہے تھے کہ وہاں سے ہم نے کوڑے سے گیس بنانی تھی اور اب یہ گیس ہماری سڑکوں، گلیوں اور محلوں میں بن رہی ہے۔ لاہور کچرا کنڈی بن چکا ہے اور میرے علم میں آیا ہے کہ لاہورویسٹ مینجمنٹ کمپنی کے کرتا دھرتا کچھ پیاروں کو ٹھیکے دینا چاہتے تھے اور اتنے اناڑی طریقے سے دینا چاہتے تھے کہ پکڑے گئے۔

ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے کی بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے لاہور کے لئے چھ ہزار ارب روپوں کے ایک پیکج کا اعلان کیا ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ابھی تک کسی نے اس اعلان کو لے کر جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا ماتم نہیں کیا۔ اس میں لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے شیرانوالہ گیٹ تک کئی ارب روپوں سے ایک فلائی اوور کا منصوبہ بھی شامل ہے مگر اسی منصوبے کی جگہ پر گذشتہ تین برسوں سے ایک موریہ پل کا منصوبہ زیر تکمیل ہے جسے ریلوے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کے اداروں نے تکمیل تک پہنچانا ہے۔ شہر کے دوسری طرف ملتان روڈ کی توسیع کا منصوبہ ہے او روہ بھی تین برسوں سے ہی زیر تکمیل ہے حالانکہ اس نے چھ سے نو ماہ میں مکمل ہونا تھا۔ ملتان روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے دس کلومیٹر کے لگ بھگ سڑک کی توسیع ہونی تھی اوراس کے ساتھ تین یوٹرن بننے تھے مگر وہ منصوبہ بھی اناڑیوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے حالانکہ میں نے اس کی نشاندہی چھ ہزار ارب روپوں والی میٹنگ میں کی تھی اور وزیراعلیٰ نے میری نشاندہی کے جواب میں کہا تھا کہ وہ ایوان وزیراعلیٰ میں ایک سیل بنا رہے ہیں جو زیر تکمیل منصوبوں کی بروقت اور معیاری تکمیل پر نظر رکھے گا مگرنجانے وہ سیل کہاں سو رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ ملتان روڈ پر جس باب لاہور کا افتتاح کر کے آئے ہیں آپ اسے لاہور میں داخل ہوتے ہوئے دیکھیں تو وہ آپ کو ٹیڑھا نظر آتا ہے۔

حکمران کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت سارے ہسپتال بنائیں گے جیسے لاہور کے علاقے مزنگ میں گنگا رام ہسپتال میں زچہ بچہ کا ہسپتال۔ اب یہ ہسپتال یہاں اس لئے بننا ہے کیونکہ وزیر صحت کا اس ہسپتال سے خصوصی تعلق ہے اور امکان ظاہر کیا ہے کہ ان کی صاحبزادی زچہ بچہ کے حوالے سے کسی پروگرام کی انچارج بھی ہوں گی جن کی اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں روزی روٹی کا بندوبست کیا گیا ہے۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ وہاں پہلے ہی گنگارام ہسپتال موجود ہے جس کا گائنی کا شعبہ اچھی خدمات دے رہا ہے۔ لاہورئیے جانتے ہیں کہ گنگارام ہسپتال جس جگہ پر ہے وہاں پارکنگ تک کی جگہ نہیں ہے۔ اسی ہسپتال سے محض دو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر میو ہسپتال بھی موجود ہے اور دوسری طرف سروسز بھی مگر اناڑی حکمران یہیں اربوں روپے پھینکنا چاہ رہے ہیں۔ اسی طرح ارفع کریم ٹاور کے ساتھ سبزی منڈی کی جگہ اس لئے خالی کروائی گئی تھی کہ وہاں آئی ٹی کے حوالے سے مزید منصوبے ہوں گے مگر وہاں بھی چلڈرن ہسپتال، گلاب دیوی اوراتفاق ہسپتال کے ساتھ ایک اور ہسپتال بنایا جا رہا ہے کیونکہ حکمرانوں نے بہرحال ایک ہسپتال بنانا ہے۔

کون سا شعبہ ہے جہاں حکمرانو ں کا اناڑی پن واضح نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کورونا کے نام پر بازار چھ بجے بند کر دئیے ہیں اور دفاتر کا وقت دوپہر دو بجے تک کا ہے اب جس کسی نے رمضان یا عید کی شاپنگ کرنی ہے تو اس کے پاس تین سے چھ بجے کا ہی وقت ہے۔ یوں حکمرانوں نے بازاروں اور سپر مارکیٹس میں کورونا کو ان تین گھنٹوں میں کھیلنے کے لئے مکمل میدان فراہم کردیا ہے۔ اس کے بعد اگر ہمارے پاس کیسز بڑھتے ہیں تو حکمران معصوم سا منہ بنا کے کہہ سکتے ہیں کہ عوام نے ایس او پیز کی پابندی نہیں کی حالانکہ انہوں نے تو بہت کہا۔ لاہور کی سپر مارکیٹس کی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری عمران سلیمی خود تحریک انصاف سے ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ اگلے مرحلے میں سپر مارکیٹس کو چھ بجے کے ساتھ ساتھ ہفتہ اتوار کو بھی بند رکھنے کا حکم دے دیا گیا ہے سو ا ب یہ رش مزید بڑھے گا۔ اللہ مغفرت کرے رحیم سٹور کے مالک رانا اختر محمود جب تک زندہ تھے وہ ان غلطیوں کی کھل کر نشاندہی کیا کرتے تھے۔

میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم بیس، تیس یا پچاس لاکھ کی ایک گاڑی لے لیں تو اسے اناڑی کے حوالے نہیں کرتے۔ اناڑی حکمرانوں نے ہمارااچھا خاصا چلتا ہوا ملک جگہ جگہ ٹھوک دیا ہے اور اب کہہ رہے ہیں کہ یہ گاڑی انہیں ٹھیک ملی ہی نہیں تھی۔ جنہوں نے ان حکمرانوں کو ووٹ دیا کیاانہیں یہ ملک اپنی گاڑی جتنا بھی عزیز نہیں تھا؟