میرے لئے یہ خبر حیران کن تھی کہ لاہور کی خاتون ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر نے لاہور میں عورت مارچ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے تاہم انہوں نے جماعت اسلامی کے مردوں کی نگرانی میں عورتوں کے حیا مارچ کی اجازت دے دی ہے۔ میرے قارئین جانتے ہیں کہ میں ویسٹرنائزیشن اور لبرلائزیشن کے خلاف ہوں مگر ایک زندہ اور جمہوری معاشرے میں اختلاف رائے لہو کی طرح ہوتا ہے اور اگر یہ اختلاف ہی ریاستی طاقت کی مدد سے ختم کر دیا جائے تو کسی جمہوری معاشرے کازندہ رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
میرے لئے یہ حیران کن اس لئے تھا کہ یہ پابندی ایک عورت کے حکم سے لگائی گئی۔ مجھے افسوس ہوا کہ ایک تعلیم یافتہ اور حقوق سے بہرہ ور عورت نے اپنے ہی معاشرے میں موجود ان عورتوں کے حقوق پر بات کرنے سے روک دیا جنہیں آج بھی تعلیم سے محروم رکھا جاتا ہے، جن کے صحت کے مسائل پر آج بھی توجہ نہیں دی جاتی، جنہیں آج بھی ونی اور سوارا جیسی رسموں کا سامنا ہے، جن کے شوہر انہیں آج بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، جن کی شادیاں آج بھی بھاری جہیز کے مطالبات کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں اور وہ عمر کے تیسویں اور چالیسویں سال میں پہنچ رہی ہیں۔
ایک طاقتور، مراعات یافتہ عورت ان سب کے مسائل سے اتنی ہی لاعلم اور لاپرواہ ہوسکتی ہے جتنا کوئی نواب اور جاگیردار کسی غریب کے گھر میں فاقے سے۔ میری کوئی ایوارڈ دینے کی نام نہاد تنظیم ہوتی تو میں لاہور کی اس خاتون ڈپٹی کمشنر کو اپنی ہی جاتی کی غدار کا ایوارڈ دیتا۔
میں مانتا ہوں کہ عورت مارچ کوایک مخصوص سوچ کی حامل عورتوں اور مردوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے مگر میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ یوم خواتین نہیں مناتے، عورت مارچ نہیں ہونے دیتے تو پھر عورتوں کے ان تمام مسائل پرکس دن بات ہوگی۔ میں نے برس ہا برس جماعت اسلامی کے اور گذشتہ برس عروۃ الوثقیٰ مدرسے والوں کے عظیم الشان حیا مارچ دیکھے اور مجھے افسوس ہوا کہ انہوں نے بھی جوابی طور پرہمارے معاشرے میں عورتوں کی محرومیوں اور مجبوریوں کو مذہب کی جنگ بنا دیا ہے۔
میں نے گذشتہ برس ان کے حیا مارچوں میں کیمرے سے سب کچھ دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یوم خواتین پر آپ کے ہاتھوں میں عورتوں سے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ایک بھی بینر یا پوسٹر کیوں نہیں ہے۔ یہ ایک فکری نوعیت کا جملہ ہے کہ اگر ہمارے معاشرے میں اسلام کے دئیے ہوئے حقوق عورت کو نہیں ملتے تو اس پر تو مولویوں کو اللہ اوررسول اللہ ﷺ کے دئیے ہوئے قوانین کونافذ کرنے کے لئے آواز بلند کرنی چاہئے مگر انہوں نے اس دن کو اسی طرح متنازع بنا دیا ہے جس طرح آزاد خیال طبقہ اس دن کو مولوی اور اسلام کے خلاف بغاوت کے طور پر استعمال کرتا ہے، منفی اور بے بنیاد پروپیگنڈہ کرتا ہے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اسلامی اصولوں میں اتنا انصاف اوراتنی منطق موجود ہے کہ اس کے خلاف مہم کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن جب آپ مخالف کی ایکٹیویٹی پر ہی پابندی لگا دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اس سے خوفزدہ ہو گئے۔ آپ کے پاس منطق اور دلیل کا گھاٹا پڑ گیا۔ پابندی اصل میں مکالمے میں شکست کا اعلان ہے اور میرے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے دینی طبقات مقابلے سے ڈر کے بھاگ گئے ہیں۔
عورت مارچ والے میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگا تے ہیں جس کی ایک حد تک مخالفت کی جا سکتی ہے کہ جسم پرمرضی اللہ، نبی کے احکام اور معاشرتی روایات کے خلاف نہیں ہوسکتی۔ آپ کے جسم پر آپ کی مرضی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ آپ اسے لاہور کی سڑکوں پر بغیر کپڑوں کے لے کر باہر آجائیں کیونکہ یہ آپ کا جسم ہے اور آپ کی مرضی ہے مگر دوسری طرف یہ بات بھی تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ آپ کے جسم پرمرضی کسی دوسرے کی ہو چاہے وہ آپ کا قریبی رشتے دار ہی کیوں نہ ہو۔
میرا جسم تمہاری مرضی جیسی بات بھی قابل قبول نہیں ہے۔ ہم نے پسند کی شادی کو گالی بنا دیا ہے حالانکہ یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے اور بغیر مرضی اور منشاء کے شادی ہو ہی نہیں سکتی، اس کے لئے تین مرتبہ قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے کی گواہی دینی پڑتی ہے۔ عورت مارچ والے کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی آدھی ہونا اس کی توہین ہے اور میں کہتا ہوں کہ یہ اس کا اعزاز ہے۔
گواہی کسی بھی ملک میں او ر خاص طور پر ہمارے تھرڈ کلاس عدالتی نظام میں کوئی فخروالی بات نہیں۔ یہ مردوں کے لئے بھی مشکل ہے اور دشمنی پیدا کرنے والی ہے اور اگراس میں عورت کو استثنا دیا گیا ہے، بچنے کی راہ دی گئی ہے تو یہ اس کے لئے سہولت ہے۔ عورت مارچ والے کہتے ہیں کہ بیٹی کا بیٹے کے مقابلے وراثت میں آدھا حصہ ظلم ہے اور میں کہتا ہوں کہ دنیا کوئی معاشی نظام اٹھا کے دکھا دو جس میں ذمہ داری زیرو ہو اور معاوضہ پچاس فیصد ہو۔
اسلام عورت پر معاشی ذمہ داری ایک روپے کی بھی نہیں ڈالتا مگر جہاں وراثت میں پچاس فیصد دیتا ہے وہاں اس کی اپنی کمائی پر اس کو سو فیصد ملکیت دیتا ہے۔ میں صحابہ کرام سے منسوب اس قول سے مکمل متفق ہوں کہ اسلام نازل ہی عورتوں کے لئے ہوا ہے۔ میں تو حیران ہوا جب میرے بھائی راغب نعیمی نے تشریح کی کہ عورتوں پر گھر کا کام کاج اورساس سسر کی خدمت ہرگز فرض نہیں ہے اوراگر وہ کرتی ہے تو گویا احسان کرتی ہے۔
میں اورمیرے بہت سارے دوست اور قارئین جس طبقے کا حصہ ہیں وہاں اپنی گھر کی عورتوں اور دفاتر میں کولیگز کی عزت کی جاتی ہے۔ بیٹیوں کو بیٹوں کے برابر تعلیم دلائی جاتی ہے۔ گھر ہماری ماوں کے حکم پر چلتے ہیں، ان کے پیروں تلے جنت سمجھی جاتی ہے، بہنوں اور بیٹیوں کے لاڈ اٹھائے جاتے ہیں مگر کیا ہم ان علاقوں اور خاندانوں کی نفی کرسکتے ہیں جہاں آج بھی عورت کو پاوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے، اسے مارا پیٹا جاتا ہے، وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا، ونی اور سوارا کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ہم اگر ان تمام مظالم پر یوم خواتین پر بھی بات نہیں کریں گے تو کب کریں گے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہمیں ماں، باپ اور عورتوں کے دن منانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم تو ہر روز ہی یہ دن مناتے ہیں تو پھر حیا کا دن منانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ کیا آپ حیا کا ایک ہی دن منانا چاہتے ہیں اور باقی پورے سال بے حیا ہی رہنا چاہتے ہیں۔ مجھے پیشہ ور مولویوں کے ساتھ ساتھ عورت مارچ والوں سے بھی کہنا ہے کہ وہ انتہا پسندی سے باز آئیں۔ عورت کی محرومیوں اورمظلومیت کومادر پدر آزادی، ناجائز جسمانی روابط اور دوسری غلط باتوں کی ترویج کے لئے استعمال نہ کریں۔
میرے ارد گرد تمام خواتین کو یوم خواتین مبارک ہو۔ میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں ان کے ان تمام حقوق کے لئے آواز بلند کرتا رہوں گا جو ہمارے دین نے انہیں دئیے ہیں۔ میں ان تمام مردوں کو بھی یوم خواتین کی مبارکباد دیتا ہوں جو کسی عورت کے بطن سے پیدا ہوئے، اس کی مہربانی اور محبت سے پرورش پائی۔ باوفا بیوی کی صورت محبت پائی۔ تابعدار بیٹی کی صورت آنکھوں کی ٹھنڈک پائی۔