یہ خبر پہلے ہمارے نیوز کے واٹس ایپ گروپ اور پھر پورے میڈیا پر آگئی تھی کہ لاہور کے سمن آباد کے گرلز کالج سے بائیس برس کی طالبہ ن، کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ وہ گھر سے کالج گئی مگر پھر وہ واپس نہیں لوٹی۔ اس طرح کی خبروں کو رپورٹ کرنے کا ایک خاص طریقہ کار ہے جس میں لڑکیوں کو ہمیشہ معصوم اور مظلوم بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ عمومی طور پر یہ تمام خبریں ایف آئی آر پر انحصار کرتی ہیں جومبینہ مغویان کے اہل خانہ درج کرواتے ہیں۔ ایسی تمام ایف آئی آرز میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان کی لڑکی روٹی کو چوچی کہتی تھی جبکہ اغواکار ہمیشہ اتنے چالاک ہوتے ہیں کہ وہ بھولی بھالی لڑکیوں کو ورغلا کرلے جا تے ہیں۔ ایف آئی آر میں منظر ہمیشہ ہی کچھ اس طرح کا بنتا ہے کہ جیسے کسی معصوم سی بچی کو چاکلیٹ دکھا کر بوری میں ڈال لیا گیا ہو، ایسا بھلا اب کہاں ہوتا ہے جب عمر بھی بارہ، چودہ اور سولہ برس سے زیادہ ہو؟
رپورٹر امداد حسین کا، انہوں نے تھوڑے ہی دنوں کے بعد اس مبینہ اغوا کی پوری تفصیل سوشل میڈیا پر اپنی پروفائل پر شئیر کر دی۔ مجھے لاہور کا ہی وہ واقعہ بھی یاد آ گیا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ چند اوباشوں نے رات کے دو، اڑھائی بجے سے صبح فجر تک ایک گاڑی میں ایک لڑکی سے زیادتی کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ لڑکی رات کو اڑھائی بجے ایک گاڑی میں ان انجان لڑکوں کے ساتھ کیا کر رہی تھی اور وہ تیرہ چودہ برس کی بچی کا معاملہ جسے لاہور کے ایک ہوٹل میں لے جایا گیا تھا اورا س میں ایک ایسا شخص ملوث نکلا تھا جس کی پنجاب اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر رانا مشہود کے ساتھ تصویریں تھیں۔ اس لڑکی کو بھی مظلوم کہا گیا تھا مگر وہ لڑکی بھی اس ہوٹل میں اس مرد سے اپنی سالگرہ کا تحفہ لینے کے لئے باقاعدہ تیار ہو کے پہنچی تھی۔
آپ کہیں گے کہ میں وکٹم بلیمنگ کر رہا ہوں مگر میں کہوں گا کہ میں وکٹم بلیمنگ کے استعمال اور اس کی تشریح کو اچھی طرح جانتا ہوں اور بتانا چاہتاہوں کہ وکٹم ہمیشہ صرف وکٹم نہیں ہوتی، وہ اس واردات کی پوری پوری پلئیر بھی ہوتی ہے جیسے اسی مقدمے میں ن، کی شادی فیضان سے ہوئی جو دوبئی میں ملازمت کرتا ہے مگر و ہ اپنے کزن محسن کو پسند کرتی تھی سو انہوں نے ایک نیا موبائل کسی دوسرے کے نام سے خریدا اور آپس میں طے کیا کہ وہ آن لائن ہی کالز کریں گے تاکہ ریکارڈ نہ مل سکے اور پھر وہ منصوبہ بنا کے محسن کے ساتھ کامونکی چلی گئی اور کرائے کے ایک گھر میں رہنے لگی۔ پولیس کو شاباش بنتی ہے کہ اس نے آئی ایم ای آئی نمبر سے رابطوں کا سراغ لگا لیااور بھانڈا پھوٹ گیا۔
آپ سوچیں، آپ ایک مرد ہیں اور آپ کو ایک لڑکی اچھی لگی ہے مگر اس تک آپ کے خط اور پیغام کا پہنچنا پہلے کتنا مشکل تھا مگر اب یہ اتنا ہی آسان ہے جتنا ایک کلک۔ میں تو اس سے بھی آگے کی بات کہتا ہوں کہ کسی وقت شادی بیاہ میں لڑکیاں بالیاں ڈانس وغیرہ کرنے لگتی تھیں تو لڑکوں کو باہر نکال کر دروازے، کھڑکیاں بند کر دی جاتی تھیں مگر اب ہمیں سوشل میڈیا پر گھروں کی ان لڑکیوں کے ڈانس بھی عام مل جاتے ہیں کبھی جن کا چہرہ دیکھنا بھی مشکل ہوتا تھا۔
میری آج کی تحریر کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ اب وہ دور نہیں رہا جس میں چوہدری کا منڈا لوفر اور لفنگا ہوتا تھا اور وہ لڑکی کو گھوڑی پرڈال کر لے جاتا تھا۔ میں انکار نہیں کرتا کہ اب بھی ایسا کوئی واقعہ ہوسکتا ہے، کوئی بدمعاش پستول دکھا کر گاڑی میں کسی بھی لڑکی کو ڈال سکتا ہے مگر یقین رکھیں کہ ایسا معاملہ دو، چار، پانچ سو میں ہی ایک ہو گا۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ باہمی رضامندی سے ہو رہا ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں، نہیں نہیں، لڑکے اور مرد زیادہ حملے کرتے ہیں چاہے وہ فزیکل ہوں یا ورچوئل ہوں، میں ان سے اتفا ق کرتا ہوں کہ مردوں کی طرف سے کوششیں زیادہ ہوتی ہیں مگرایسی کوئی بھی کوشش کامیاب اسی وقت ہوتی ہے جب دوسری طرف سے گرین سگنل ملتا ہے۔
یہ ناممکن ہے کہ ایک لڑکی انکار کر دے، کسی کو سوشل میڈیا پر بلاک کر دے اور وہ پھر بھی اس پر وقت ضائع کر رہا ہو۔ دوسرے بات اسی وقت بڑھتی ہے جب فیس بک اور انسٹا سے واٹس ایپ نمبر تک آتے ہیں جو لڑکی اپنی مرضی سے ہی من پسند بندے کو دیتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مردوں کی طرف سے کوششیں زیادہ ہوتی ہیں اور عورتوں کی طرف سے کم، اس میں ہمارا سماجی عدم تحفظ کا مسئلہ ہے کہ خواتین خود کو کمزور اور غیر محفوظ سمجھتی ہیں جبکہ مرد لاپروا ہو کے یہ سب کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتیں بھی وہی کچھ کرتی ہیں مگر وہ زیادہ محتاط ہوتی ہیں۔
ہمارے ہاں محبت اور ہوس کی تعریف میں صرف ایک فرق ہے کہ من پسند مرد کی ہر ہوس اور ٹھرک، محبت ہے جسے قبولیت حاصل ہواور ہر وہ محبت، ٹھرک اور ہوس ہے جو ناپسندیدہ مرد کی طرف سے ہو یعنی یہ عورت پر منحصر ہے کہ وہ کسے زیادتی کہے اور کسے خدا کا تحفہ۔ کہتے ہیں کہ مرد جسم کا بھوکا ہوتا ہے تو، معذرت، عورتیں کون سی خواجہ سراؤں سے محبتیں کرتی ہیں۔ یہ فطری تقاضے ہیں اوریکساں ہیں۔ جمع تفریق کیجئے کہ اگر ایک مرد ان معاملات میں برا اور غلط ہے تواس کے ساتھ کوئی شریک جرم بھی ہوگا اور وہ ایک عورت ہی ہو گی۔
ابھی چند روز بعد عورت مارچ کیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہ پدر سری معاشرہ ہے جس میں عورتوں کو حقوق حاصل نہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اس وقت معاشرہ مردوں کے بجائے عورتوں کا ہو چکا ہے۔ میرے ذاتی علم میں دو حالیہ واقعات ہیں جن میں ایک میں لڑکی نے نکاح اس لئے توڑا کہ وہ کسی دوسرے کے ساتھ عہد و پیمان کر چکی تھی۔ شوہر اس کے لئے روتا رہا اور رشتہ برقرار رکھنے کی درخواستیں کرتا رہا مگر ناکام رہا۔ ایک دوسرے واقعے میں لڑکی نے والدین کی مرضی کے بغیر طے شدہ رشتہ توڑ دیا جبکہ لڑکا اس رشتے کو نہیں توڑنا چاہ رہا تھا۔
اس وقت بھی مڈل کلاس کے ننانوے فیصد گھروں میں عورتوں کے فیصلے چلتے ہیں اور وہاں مرد محض کمائی کی مشین بنے ہوئے ہیں۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ ٹی وی اور سمارٹ فونز کی وجہ سے ہوا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ یہ سب کچھ انسا نی فطرت میں پہلے سے موجود تھا، اس جدت اور تہذیب نے صرف اسے آسان بنا دیا ہے۔ یہ آسانی باہر کام کرتے او رپھرتے مردوں کی نسبت عورتوں کو کہیں زیادہ ملی ہے۔ مرد سماج اور تہذیب کے نام پر بہت ساری باتوں میں اچھا خاصا مظلوم بن چکا ہے، وہ غیر ذمہ دارانہ چسکوں کی وجہ سے پھنس جاتا ہے بلکہ اچھا ماراجاتا ہے۔
آپ میری بات سے اختلاف کرتے ہیں کہ ایسی حرکتوں میں عورتیں برابر کی ملوث ہوتی ہیں اوربعض معاملات میں حاوی اور آگے، وہ خود کہتی ہیں کہ تم مجھے کیوں نہیں چھیڑتے۔ چلیں آپ اختلاف کرلیں مگر اس پر ہمیں اتفاق رائے کرنا ہو گا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے لہٰذا ہمیں اپنی ایف آئی آرز اور رپورٹنگ کا انداز بدلنا ہوگا کہ اب کوئی لڑکی روٹی کو چوچی نہیں کہتی۔