Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bain Ul Aqwami Sazish?

Bain Ul Aqwami Sazish?

عمران خان نے بہت روز شور مچایا کہ وہ ستائیس مارچ کو بہت بڑا سرپرائز دینے جا رہے ہیں۔ اپنے سپورٹرز، اور عام پاکستانیوں کوکہا کہ وہ جوق در جوق پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد پہنچیں تاکہ دس لاکھ افراد کے سامنے اس سرپرائز کو سامنے لا سکیں۔ انہوں نے پونے دو گھنٹے کے قریب تقریر کی جو ان کی ماضی کی تمام تقریروں کا اعادہ تھی اور پھر اسی دوران انہوں نے ایک کاغذ بھی جیب سے نکالا اور بتایا کہ یہ ایک دھمکی آمیز خط ہے جو ان کی حکومت کو بھیجا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک دوسرا کاغذ بھی نکالا اور کہا کہ وہ عام طور پر لکھی ہوئی تقریر نہیں کرتے مگر اس بات کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بات ادھر ادھر نہ ہوجائے لہٰذا وہ لکھ کر لائے ہیں۔

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ ماضی میں نواز شریف پر پرچیاں بڑھنے کی جو تنقید کرتے رہے ہیں وہ بے بنیاد تھی، غلط تھی کہ ہر اہم بات کو کم از کم نکات کی صورت میں لکھ لینا ہی عقل مندی ہے۔ انہوں نے وہ خط جیب سے نکالااور یہ پیشکش کرتے ہوئے جیب میں واپس ڈال لیا کہ وہ اسے آف دی ریکارڈ ان شخصیات کو دکھا سکتے ہیں جو اسے دیکھنا چاہیں۔

وزیراعظم کی عوامی جلسے میں اس حرکت پر بہت ساری جگتیں لگیں، بہت سارے میمز بنے کہ کیا ٹیکنالوجی او ر سفارتکاری کے اس دور میں خط لکھ کر بھی دھمکی دی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد جناب اسد عمر اور فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں جناب عمران خان کے الزام کو آگے بڑھایا کہ میاں نواز شریف بیرون ملک بیٹھ کے ملاقاتیں کررہے ہیں، یہ خط انہی ملاقاتوں کانتیجہ ہے۔

بات آگے بڑھانے سے پہلے مجھے کہنے دیجئے کہ جناب عمران خان کی سیاسی مہم کو ڈیزائن کرنے والے بہت بچگانہ انداز میں کھیل رہے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست تین ہی نعروں پر ہوتی ہے، ایک اسلام، دوسرا امریکا اور تیسری اسٹیبلشمنٹ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اورمیاں نواز شریف کی جلاوطنی کا ملبہ بھی امریکا پر ہی ڈالا جاتا ہے۔

ہم عالمی سیاست میں پاکستان کی حالیہ خارجہ پالیسی کو دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈرز کئے ہیں۔ وہ دوسرے ممالک کے انتخابات میں نادانی کرتے ہوئے فریق بنے جو پاکستان کے وزیراعظم کو بطور ریاستی سربراہ زیب نہیں دیتا تھا۔ ہم مانیں یا نہ مانیں کہ ہم نے افغانستان میں بھی جو کچھ کیا اسے بین الاقوامی برادری نے بہت منفی لیا۔ انہوں نے روس کے دورے کے لئے انتہائی غلط وقت کا انتخاب کیا حالانکہ وہ دورہ کچھ عرصے کے لئے ملتوی بھی کیا جا سکتا تھا۔

ہم یہاں تک تنہا ہوچکے تھے کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پیروں تلے روندتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کا متنازعہ سٹیٹس ختم کر دیا تو ہم اس پر بھی عالمی حمایت حاصل نہ کر سکے۔ بہت سارے دوست اقوام متحدہ کے اسلاموفوبیا کے خلاف دن منانے کے اعلان کو بڑی کامیابی سمجھتے ہیں اور میں اسے ایک حماقت۔ اسلاموفوبیا کوئی منشیات قسم کی چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک علمی، فکری اور تاریخی اختلافات کی بنیاد پر پیدا کیا جانے والا خوف ہے۔ اس خوف کو اختلاف، نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر پھیلایا جاتا ہے۔

غور کیجئے، آپ بھی اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ اختلافات، نفرتیں اور دشمنیاں کبھی ان کے حق یا مخالفت میں دن منانے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ زندہ رہتی ہیں، جوان رہتی ہیں، دشمنیاں بھلانے سے اور نظرانداز کرنے سے ختم ہوتی ہیں۔ ہم نے اسلاموفوبیا پھیلانے والوں کو ایک دن مہیا کر دیا ہے کہ وہ نظریاتی مغالطے مزید پھیلائیں اور جواب میں ہم کتنے علمی اور فکری پہلوان ہیں، ہم سب جانتے ہیں۔

اب اس مبینہ خط میں نواز شریف کے کردار کو ڈسکس کر لیتے ہیں۔ عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور فواد چوہدری نے تسلیم کر لیا ہے کہ وہ حکومت میں ہونے اور تمام ریاستی وسائل کے مالک ہونے کے باوجود اتنے نااہل اور نکمے ہیں ان کے مقابلے میں ایک جلاوطن شخص، جسے وہ دنیا کے سامنے کرپٹ اور سزایافتہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، بین الاقوامی برادری کے لئے زیادہ اہم اور قابل قدر ہے۔

میں نواز شریف کو نہ غدار سمجھتا ہوں او رنہ ہی ملک دشمن بلکہ میں تو انہیں ان معنوں میں کرپٹ بھی نہیں سمجھتا جس معنوں میں حکومتی ٹولہ ان کی کردار کشی کرتا ہے۔ میں پہلے بھی بارہا کہہ چکا کہ اگر نواز شریف کرپٹ ہیں تو اس ملک کا ہر تاجر اور ہر صنعتکار کرپٹ ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ اقتداربچانے کی جدوجہد میں مصروف عمران خان چاہتے ہیں کہ جب وہ رخصت ہوں تو کوئی اس مہنگائی، بدعنوانی اورنااہلی کی بات نہ کرے جس نے پی ٹی آئی کے ایک کروڑ سپورٹرز کے علاوہ باقی اکیس کروڑ عوام کی زندگی جہنم بنا رکھی ہے۔

پی ٹی آئی کے سپورٹرز اپنی ہی جنت میں رہتے ہیں اور بہت سارے ایسی جنت کو احمقوں کی جنت کہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عمران خان، ہماری ایم اے سیاسیات میں پڑھی ہوئی، میکاولین پالیٹکس کے تمام حربے استعمال کر رہے ہیں۔ وہ اپنے مخالفین کی کردارکشی کررہے ہیں، اپنے لئے مذہب کا استعمال کر رہے ہیں، امریکا کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

مہذب اقوام اور جدید ریاستوں میں اب یہ گھسے پٹے نعرے استعمال نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ امریکا اور برطانیہ میں اس صدی میں بھی ان نعروں کو کامیابی ملی مگر سب جانتے ہیں کہ پھر ٹرمپ کس طرح رخصت ہوئے۔ لو آئی کیو لیول کے حامی جذباتی افراد کے لئے یہ نعرے اہم ہوتے ہیں اور وہ اس میں کارکردگی کے سوال کو چھپا جاتے ہیں۔

عمران خان او ران کے ساتھی جسے بین الاقوامی سازش کہہ رہے ہیں وہ خود جانتے ہیں کہ ان کی نااہلی اور نالائقی ہے۔ وہ مقتدرحلقوں کے ساتھ تعلقات میں فہم و فراست استعمال نہیں کر سکے۔ وہ چین سے امریکااور سعودی عرب جیسے دوست ممالک کے ساتھ دوستی برقرار نہیں رکھ سکے۔ وہ الیکٹ ایبلز کے نام پر ساتھ ملائے گئے ارکان اسمبلی کو بھی مطمئن نہیں رکھ سکے۔

وہ مہنگائی اور بدعنوانی کو عام کر کے عوام کو بھی ناراض کر بیٹھے۔ ان سمیت بے شمار چھوٹی بڑی وجوہا ت کی بنا پر اب اگر انہیں جانا پڑ رہا ہے تووہ اسے بین الاقوامی سازش کا نام دے رہے ہیں۔ الزام لگا رہے ہیں کہ کوئی خط لکھا گیا ہے جس میں ان کو باقاعدہ تحریک عدم اعتماد کی دھمکی دی گئی ہے، چلیں، مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی معاملہ ہے تو فہم و فراست یہ نہیں کہ ایسا کرنے والوں کو آپ اپنا ہمیشہ کا مخالف بنا لیں۔

ایک ہمدردانہ مشورہ سنیں، اگر کوئی ایسی بات ہے تو ان سازش کرنے والوں کی غلط فہمیوں کو دور کریں، ان کے تحفظات پر بات کریں، عالمی برادری کے ایک ذمہ دارانہ رکن کا رویہ اختیار کریں، یہی سیاست ہے اور یہی سفارتکاری ہے۔ آپ نے جلد یا بدیر چلے جانا ہے مگر پاکستان نے یہیں رہنا ہے اور دوسری عالمی قوتوں نے بھی۔ یہ امریکا وغیرہ سے لڑائی کر کے فتح کے دھوکے نہ دیں۔ دنیا میں اسی طرح رہیں جیسے باقی ممالک رہتے ہیں اور ہنسی خوشی رہتے ہیں۔