ماں بچہ صحت پراجیکٹ کا نوجوان سیکورٹی گارڈ بلال ارشد جب میرے سامنے بیٹھا ہوا تھا تو مجھے اگست2013 کو ریلیز ہونے والی انوشا رضوی کی سپر ہٹ فلم پیپلی لائیو، یاد آ رہی تھی۔ ا س فلم نے کسانوں اور صحافیوں کو درپیش مسائل کو یکساں طور پر اجاگر کیا تھا۔
پیپلی گاؤں کے کسان نتھا نے حکومت سے امداد لینے کے لئے خود کشی کا اعلان کر دیا تھا جس کی کوریج کے لئے صحافیوں نے اس کے گاؤں کے باہر ڈی ایس این جیز کا میلہ لگا دیا تھا مگر اس فلم کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں اورمیڈیا کے درمیان ایک فرق نظر آ رہا ہے کہ بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا نے نتھے کی طرف سے خود کشی کے اعلان کو سنجیدہ لیا تھا مگر بلال ارشد کی طرف سے کل اکیس فروری کو پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجا ج کے دوران خودکشی کے اعلان کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا گیا سوائے اس ڈپٹی کمشنر کے، جس نے بلال ارشد کے گھر خاموشی کے ساتھ آٹھ میں سے چھ ماہ کی واجب الادا تنخواہیں پہنچا دی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ماں بچہ صحت پراجیکٹ پر پانچ ہزار پانچ سو چھیاسی بلال ارشد اور بھی ہیں جن کے ساتھ ہر چھ ماہ بعد ایک ہی کہانی دہرائی جاتی ہے، بھوک اور افلاس کی، بے چارگی اور ذلت کی، خوف اور ناامیدی کی۔
مجھے بات کو وہاں سے شروع کرنے دیجئے جہاں سے آپ الجھی ہوئی ڈور کے تانے بانے پکڑ سکیں، سلجھانے تو حکمرانوں نے ہیں جو شائد انہیں سلجھانا ہی نہیں چاہتے کیونکہ انہیں بہت سارے مقاصد کوسامنے رکھ کے الجھایا جاتا ہے۔ ماں بچہ صحت پراجیکٹ والوں کا بھی وہی مسئلہ ہے جو لیڈی ہیلتھ ورکرز اور وزیٹرز کا تھا، جو محکمہ انہار کے ہزاروں ملازمین کا تھا۔ یہ سب سرکاری ملازمین ہیں مگر ان کی ملازمتیں مختلف پراجیکٹس کے نام پر ہیں۔
حکومت یہاں قانونی اور سرکاری زبان میں درست ہے کہ اگر پراجیکٹ ختم تو ملازمت ختم۔ آئین اور قانون کے مطابق ان کی ملازمتیں ایک ٹرمینیششن لیٹر کی مار ہیں۔ ہر سال دو، دومرتبہ یہی ہوتا ہے کہ پراجیکٹ ختم کرنے کی دھمکی آ جاتی ہے اور ان ہزاروں خاندانوں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ ان لوگوں سے پوچھا کہ جب آپ کا پراجیکٹ ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو کیا وہ کام بھی ختم ہوجاتا ہے تو تمام جگہوں سے ایک ہی جواب ملتا ہے، ہرگز نہیں، کام جاری رہتا ہے، پرانے کام کو نئے پراجیکٹ کے نام پر دوبارہ شروع کر لیا جاتا ہے۔
میں نے سمجھا کہ اس گھوم پھیر کا مطلب کیا ہے کہ اگر کام وہی ہے تو پانچ، دس اور پندرہ، پندرہ برس کے تجربہ کاروں کونکال کے نئے لوگ کیوں رکھے جاتے ہیں۔ مجھے تو یہی سمجھ آ ئی کہ آج کل نئی نوکری بغیر رشوت کے نہیں ملتی اور رشوت بھی لاکھوں کی، جیسے اس وقت محکمہ صحت میں ڈاکٹر کی ایڈہاک یعنی عارضی نوکری کا ریٹ چارسے آٹھ لاکھ روپوں کے درمیان ہے۔ ہم ان پوسٹوں کی اوسط رشوت تین لاکھ روپے تصور کر لیتے ہیں جو میری نظر میں اگر چہ بہت کم ہے اور پھر اسے چھ ہزار کے ساتھ ضرب دے دیتے ہیں تو یہ کم از کم پونے دو ارب روپوں سے اوپر کی دیہاڑی بنتی ہے اوراسی طرح باقی پراجیکٹس جن میں ملازمین کی تعداد دس، دس ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
یقین کیجئے مجھے بلال ارشد کی ویڈیو نے ہلا کے رکھ دیا تھا جس پر میں نے اسے لاہور اپنے پروگرام میں آنے کی دعوت دی۔ بلال ارشد اس ویڈیو میں بتا رہا تھا کہ اسے آٹھ ماہ سے تنخواہ نہیں ملی، وہ اس درد اورکرب کے ساتھ اعلان کر رہا تھا کہ وہ اکیس فروری کو لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے خودکو آگ لگا لے گا۔ اس ملاقات میں دلچسپ انکشاف ہوا کہ اس کے ضلعے کے ڈپٹی کمشنر نے اسے خاموشی کے ساتھ چھ ماہ کی واجب الاداتنخواہیں پہنچا دی ہیں اور حکمرانوں کی خواہش بھی کہ اب بلال ارشد ان کے حق میں ویڈیو بیان جاری کرے مگر سوال یہ تھا کہ کیا باقی ملازمین کے گھروں میں ان چندہزار روپوں کی ضرورت نہیں ہے جسے حکومت تنخواہ کے نام پر دیتی ہے۔
فرینہ جمیل، ینگ پیرامیڈیکس ایسوسی ایشن اوکاڑہ کی صدر ہیں، وہ بتا رہی تھیں کہ ہر چھ مہینے کے بعد یہی ڈرامہ ہوتا ہے کہ آپ کا پراجیکٹ ختم ہو گیا ہے، اس کی منظوری نہیں ہوئی لہٰذا تنخواہ ریلیز نہیں ہورہی، چھ چھ ماہ یوں گزرتے ہیں کہ رشتے دار اور دکاندار ادھار تک دینا بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد پھر فائلیں گردش کرتی ہیں، کبھی ایک ڈائریکٹر اور کبھی دوسرا سیکرٹری بڑے بڑے دفتروں میں بیٹھ کر قلم گھما دیتا ہے، کوئی نہ کوئی اعتراض لگا دیتا ہے اوران کے گھروں میں فاقے رقص کرنے لگتے ہیں حالانکہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دور درا ز کے دیہات میں عورتوں کے لئے فرشتوں والا کردارادا کیا ہے یعنی ان کی بچوں کی پیدائش میں مدد کی ہے، ان کی زندگیاں بچائی ہیں اور ان سے پہلے عورتیں بچوں کو جنم دیتے ہوئے عطائیوں اور دائیوں کے ہاتھوں مر جاتی تھیں۔ وہ بتا رہے تھے کہ یہ پراجیکٹ شہباز شریف نے شروع کیا تھا اور میرا شکوہ یہ ہے کہ شہباز شریف انہیں ریگولر اور کنفرم کر کے کیوں نہیں گئے؟
ہوسکتا ہے کہ میرے کالم کے عنوان پر کوئی عدالت مجھے طلب کر لے، کوئی حکمران مجھ پر چڑھ دوڑے کہ تم بلال ارشد کو خود کشی کی ترغیب دے رہے ہوتو میں کہوں گا کہ ہم میڈیا والوں کے کہنے پر کب کوئی جیتا او رمرتا ہے، مرتے وہ ہیں جن کے گھروں میں فاقے ہوتے ہیں، وہ اپنے بوڑھے والدین اور بچوں کو جواب نہیں دے پاتے، جن کا بلڈ پریشر اتنا بڑھتا ہے کہ وہ دماغوں اور دلوں کی رگیں پھاڑ دیتا ہے۔
میں نے بلال ارشد سے درخواست کی کہ وہ اپنا اعلان واپس لے، اسے تو چھ ماہ کی تنخواہ، اس کی ویڈیو سے ڈرتے ہوئے، چاہے غیر قانونی اور غیر روایتی طریقے سے ہی، مل چکی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا کہ ایسے ظالم اور بے درد حکمرانوں کے لئے نہیں مرتے، یہ کوئی نہ کوئی جواز گھڑ لیں گے مگر تمہارے والدین اور بچے کیا کریں گے، وہ کس کے سہارے جئیں گے لیکن جب میں بلال ارشد کو سمجھا رہا تھا تو اسی پراجیکٹ کی ایک اور خاتون ورکر کی ویڈیو آ گئی، اس نے بھی وزیراعلیٰ عثمان بزدار اوران کے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے اپنے بچوں کو دنیا میں تنہا چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بڑے محلات میں رہنے والے سیاستدان اور بیوروکریٹ ایسے اعلانات سے نہیں ڈرتے، وہ کچھ کچھ ڈرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس پراجیکٹ کے ملازمین کو زبانی کلامی کہا گیا ہے کہ ان کی نوکریاں جون تک برقرار رہیں گی مگر اس کی کوئی تحریری ضمانت نہیں دی گئی۔ سوال یہ بھی ہے کہ جون کے بعد کیا ہوگا۔ دوسرے صوبوں میں ایسے ملازمین کو پکا کیا جا چکا ہے۔ پنجاب اسمبلی کا قانون بھی کہتا ہے کہ تین برس تک ملازمت کرنے والے غیر مستقل ملازمین کو مستقل کیا جا سکتا ہے مگر سوال پونے دو ارب کی دیہاڑی کا ہے جو موجودہ ملازمین کو فارغ کئے بغیر نہیں لگائی جا سکتی لہٰذا اب اس میں این ٹی ایس بھی شامل کیا جا رہا ہے اور بہت ساری دوسری شرطیں بھی عائد کی جا رہی ہیں۔
میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار، وزیر صحت یاسمین راشد اور دیگر سے کہتا ہوں کہ میں نے بلال ارشد اور ان کے ساتھیوں کے سامنے ہاتھ بھی جوڑ دئیے، ان کی منت سماجت بھی کر لی، موٹیویشنل سپیکر کی طرح انہیں کامیابی اور خوشحالی کے بہت سارے راستے بھی دکھا دئیے مگر انہیں خود کشیوں سے صرف آپ لوگ روک سکتے ہیں، ان کی خدمات کا اعتراف کر کے، ان کی ملازمتوں کا تحفظ دے کر، جو ان کا حق ہے اور آپ کا فرض ہے۔