Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chalo Chalo Daska Chalo

Chalo Chalo Daska Chalo

میں نے بدھ کا پورا دن ڈسکہ میں گزارا جو سیالکوٹ کی اہم ترین تحصیل اور این اے 75 کا دو لاکھ سے زائد آبادی رکھنے والا شہر ہے۔ لاہور سیالکوٹ موٹر وے نے ڈسکہ پہنچنا بہت آسان بنا دیا ہے۔ میں شروع سے قائل ہوں کہ کسی ملک میں اچھی سڑکیں کسی بدن میں خون کی رگوں کی طرح ہوتی ہیں اورجہاں، جہاں خون کی ترسیل ہوتی رہتی ہے بدن کا وہ، وہ حصہ توانا اور فعا ل رہتا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب لاہور اسلام آبادموٹروے بن رہی تھی اوراس پر تنقید کرنے والے اسے ایک وزیراعظم کے گھر کو اس کے دفتر سے ملاتی سڑک قرار دے رہے تھے تو تب ہی نظر آرہا تھا کہ یہ سرگودھا، میانوالی، چکوال سمیت بہت سارے شہروں کی قسمت کھول دے گی، بہرحال، بات موٹروے کی نہیں بلکہ اس حلقے کی ہے جہاں کل پانچ لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ووٹر ایک مرتبہ پھر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔

میری ملاقاتیں پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجدملہی اور مسلم لیگ نون کی نوشین افتخار سے بھی ہوئیں مگر ان سے بھی اہم ڈسکہ کے مین بازار کا وزٹ اور رائے عامہ کا جائزہ رہا۔ انجمن تاجران ڈسکہ کے مرکزی صدر ارشد صاحب پی ٹی آئی کے حامی ہیں اور اپنی جماعت کا ڈٹ کر مقدمہ لڑتے ہیں مگر کیمرے آن ہونے پر ڈھیر سارے دکاندارجمع ہو گئے، ان کے ساتھ وہ خواتین اورمرد بھی تھے جو محض خریداری کے لئے آئے تھے۔ میں نے بازار میں بہت دور تک دکانداروں اور خریداروں سے بات کی، وہاں حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ نون کے لئے حمایت اور ہمد ردی اسی فیصد سے بھی زیادہ نظر آئی، میں نے بہت سارے لوگوں سے پوچھا، مسلم لیگ نون کی سپورٹ کیوں، بہت ساروں نے میرے پوچھے بغیر ہی مہنگائی کے خلاف چیخے اور بہت چیخے، زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے، آٹا دال چینی چاول ہی محال ہو گئے ہیں، بجلی کے بلوں نے چیخیں نکال دی ہیں۔ ڈسکہ میں نئی بات میڈیا گروپ کو انتہائی متحرک نوجوان صحافی شازب رضا کی معاونت حاصل ہے اوروہ بتا رہے تھے کہ ڈسکہ شہر میں نواز لیگ کو برتری ہے تاہم دیہات میں مقابلہ ہو گا۔ مجھے یہ ایک مختلف ٹرینڈ نظر آیا یعنی ہم عمومی طور پر سمجھتے ہیں کہ شہروں کے خوشحال پڑھے لکھے لوگ پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتے ہیں مگریہاں تجزیہ یہ رہا کہ ابھی تک گاوں کے چوہدری اور برادریاں اہم ہیں۔ مجھے پی ٹی آئی کے دفتر میں مغل برادری کے صدر بھی ملے، وہ بتا رہے تھے ان کی برادری علی اسجد ملہی کے ساتھ ہے اورمیں نے یہی سوال نواز لیگ کے ڈسکہ سٹی کے صدر افضل منشاءکے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ اب معاملہ برادریوں سے آگے نکل گیا ہے، لوگ حکومت سے سخت پریشان ہیں، اگر کسی برادری کا سربراہ ایسا کوئی اعلان کر بھی دیتا ہے تو اسی کی برادری اس سے بغاوت کر دیتی ہے۔ ایسے ایک اعلان پر ہم نے اسی برادری کے سینکڑوں بندوں کے ناموں کے ساتھ نوشین افتخار کی حمایت کے پوسٹرلگا دئیے۔ افضل منشا، ڈسکہ سے ایم پی اے کی کامیابی کا بھی بتاتے ہیں کہ ذیشان رفیق کا تعلق ڈسکہ سے نہیں سیالکوٹ سے تھا، ان کی نہ یہاں رہائش اورنہ برادری، نہ کاروبار اورنہ تعلقات مگر ڈسکہ نے محض نواز شریف کے ٹکٹ پرہزاروں ووٹوں سے جتوا دیا۔

 علی اسجدملہی کہتے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہوئے تو حلقے کے لئے ایک ماہ کے اندر ایک سو کروڑ کے ترقیاتی پیکج کا اعلان ہو جائے گااور یہ کہ پہلا انتخاب بھی انہوں نے ہی جیتا تھا مگر نواز لیگ رو پڑی۔ وہ کہتے ہیں کہ پریذائیڈنگ افسران کو دھند کی وجہ سے پہنچنے میں دیر ہوئی تو دوسری طرف نوشین افتخار کا کہنا ہے کہ اگر ا ن کے وعدے بھی ان کے لیڈر عمران خان کی طرح ہی جھوٹے ہیں کہ اگر یہ سچے تھے تو وفاقی وزرارت ہوتے ہوئے انہوں نے علاقے کی ترقی کیوں نہ کروائی، وہ ایک خاتون ہو کر عوام کی لڑائی مردانہ وار لڑ رہی ہیں، نوشین بی بی سے ملاقات ڈسکہ سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر قلعہ کالروالا میں ہوئی، ہم میانوالی بنگلہ اورستراہ سے ہوتے ہوئے چھوٹی چھوٹی سڑکوں کے ذریعے وہاں پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے امیدوار اگر ترقیاتی کام کرواتے تو ان کے اپنے گاوں گٹیالیاں کی بری حالت نہ ہوتی۔ میں نے دیکھا کہ لاہور نارووال روڈ کی حالت بھی بہت خراب ہے، اس میں جگہ جگہ کئی کئی فٹ گہرے گڑھے ہیں اور اس کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے اس بارے علاقے کے لوگ جانتے ہیں۔

انیس فروری کے الیکشن میں فائرنگ بھی ہوئی اور بدمعاشی بھی، دلچسپ امر یہ ہے کہ نواز لیگ والے فائرنگ کے ساتھ علی اسجدملہی کی موجودگی کی ویڈیوز دکھاتے ہیں اور علی اسجد ملہی کہتے ہیں کہ وہ فائرنگ رکوانے کے لئے وہاں گئے تھے تو دوسری طرف پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے چوہدری ممتازسمیت دیگر رہنما فائرنگ اور جھگڑوں کی ذمہ داری نون لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ خان پر عائد کرتے ہیں۔ میں نے ڈگری کالج کے علاوہ جناح اسلامیہ ایلیمنڑی سکول کو بھی دیکھا، ان دونوں مقامات پرسخت کشیدگی رہی تھی اور اب بھی تین سو سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں سے سوا سو سے زائد حساس ہیں۔ سکول کے ہیڈماسٹر ذوالفقار علی صاحب نے بتایا کہ اب سکول میں کیمرے لگا دئیے گئے ہیں، انہوں نے پانچ کیمرے دکھائے جو براہ راست الیکشن کمیشن کے آر او اور حکومت کے ڈی سی کے دفتر سے منسلک تھے۔ الیکشن کمیشن نے فارم پینتالیس کی پولنگ ایجنٹوں کی موجودگی میں فوری ترسیل کے لئے ضوابط کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے۔ رائے عامہ کے تجرئیے یہی بتاتے ہیں کہ ڈسکہ میں مسلم لیگ نون آگے ہے مگردوسری طرف پی ٹی آئی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ عام انتخابات میں ان کے رہنما عثمان خالد نے ناراض ہو کر الیکشن لڑا تو انہیں پچاس ہزار سے بھی زائد ووٹ ملے جو اب ناراض نہیں مگر دوسری طرف یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عثمان خالد کے یہ ووٹ ایک دینی شخصیت کی وجہ سے تھے سو نہ یہ ووٹ پہلے ان کا تھا نہ اب ہے۔ واللہ اعلم باالصواب حلقے کا ماضی یہ ہے کہ یہاں سے نواز لیگ کے سید افتخار الحسن المعروف ظاہرے شاہ پانچ بار جیتے مگر علی اسجد ملہی کہتے ہیں کہ وہ 2002 میں جیتے تھے، جواب یہ ملتا ہے کہ اسی طرح جیتے تھے جس طرح ا ب جیت بنائی جا رہی ہے کہ مشرف دور کے ان انتخابات کو صاف شفاف ماننا بہت مشکل کام ہے۔ اس کا جواب پی ٹی آئی ڈسکہ کے دفتر میں رہنماوں سے ملا کہ نواز لیگ بھی جتنے انتخابات جیتی وہ سب دھاندلی سے ہی جیتی اور اب بھی وہ دھونس اور دھاندلی ہی کرنا چاہتے ہیں۔ اس حلقے میں حقائق کی تلاش میں جواب در جواب درجواب کاسلسلہ بہت دلچسپ ہے مگر اس سیاسی تنازعے نے ڈسکے کو مشہور کر دیا ہے۔