Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chaudhry Abdul Khaliq Banam Shahbaz Sharif

Chaudhry Abdul Khaliq Banam Shahbaz Sharif

یہ رینیوایبل انرجی کے میدان میں درپیش چیلنجز پر کانفرنس تھی جس میں وفاقی وزیر خرم دستگیر خان بھی موجود تھے اور اس شعبے میں نمایاں خدمات کے حامل پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالخالق بھی۔ رینیوایبل انرجی سے مراد سولر انرجی بھی ہے اور ونڈ انرجی بھی، اسی میں ہائیڈرو پاور، جیو تھرمل اور بائیو گیس بھی آتی ہیں۔ ہم لوگ آج کل اس بارے کچھ زیادہ سن اور بول رہے ہیں کیونکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر بجلی کے بحران کا سامنا ہے۔

وہی بحران جس پر ہم مسلم لیگ نون کے پچھلے دور میں شہباز شریف کی انتھک کوششوں کی وجہ سے قابو پاچکے تھے مگر اب اس بحران نے ایک نئی اور انوکھی جہت اختیار کی ہے۔ بجلی کی کمی محض بجلی کی کمی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کے بحران کے ساتھ جا کے جڑ گئی ہے یعنی ہم نے آج سے پانچ سال پہلے بجلی بنانے کی صلاحیت تو حاصل کر لی تھی مگر اس بجلی کو بنانے کے لئے مہنگا تیل، گیس اور کوئلہ کیسے آئے گا، اب یہ مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

میں اس کانفرنس میں خرم دستگیر خان کو سن رہا تھا اور میرے اس خیال کی نفی ہورہی تھی کہ وہ اس معاملے میں کچھ نہیں کر رہے۔ یہ خیال اس لئے پیدا ہو رہا تھا کہ حکومت قائم ہونے کے پونے دو ماہ ہونے کے باوجود بجلی کی لوڈ شیڈنگ پر قابو نہیں پایا جاسکا جس کے بارے بتایا گیا تھا کہ یہ سابق حکومت کی مس مینجمنٹ کی وجہ سے تھی۔

سابق حکومت نے گردشی قرضے اتنے بڑھا دئیے کہ ہمارے ایک تہائی پاور پلانٹس کے پاس توانائی کے حصول کے پیسے ہی نہیں تھے اور کچھ اس وجہ سے بند تھے کہ وہاں چھوٹے موٹے نقائص تھے جنہیں دور نہیں کیا جا رہا تھا۔ شہباز شریف نے بارہ اپریل کو وزارت عظمیٰ کا حلف لینے کے بعد ترجیحی بنیادوں پر اس بارے میٹنگ کی اور وعدہ کیا گیا کہ یکم مئی تک لوڈ شیڈنگ ختم کر دی جائے گی۔

ہم میں سے بہت سارے شہباز شریف کی گورننس اور پرفارمنس پر یقین رکھتے ہیں سو خیال تھا کہ یہ وعدہ پورا ہوجائے گا مگر یکم مئی کی حد تک تو ٹھیک رہا کہ روزے مشکل میں گزرے اور پھردو، تین روز کے بعد عید آگئی، اس موقعے پربازار، دفاترا ور صنعتیں بند ہوگئیں تو بجلی کی طلب میں کمی ہو گئی مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا ہے کہ جون کا مہینہ شروع ہونے پر بھی لاہور میں وزیراعظم نے جو اجلاس کیا اس میں ان سے جھوٹ بولا جارہا تھا کہ لوڈ شیڈنگ صرف دو گھنٹے کی ہے۔

شہباز شریف زمینی حقائق پر نظر رکھنے والی شخصیت ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اگلے ہی لمحے انہیں بتا دیا کہ لوڈ شیڈنگ آٹھ سے بارہ گھنٹوں تک کی ہے۔ ا نہوں نے کہا کہ جو مرضی کریں مگر انہیں لوڈ شیڈنگ دو گھنٹوں سے زیادہ برداشت نہیں۔ میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو ا س وقت اس اجلاس کو چھتیس گھنٹے ہو چکے ہیں اور لوڈ شیڈنگ جوں کی توں ہے۔

میں واپس اسی کانفرنس کی طرف جاتا ہوں اور چوہدری عبدالخالق کی تجویز وزیراعظم تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ اگر ہم توانائی کے ساتھ ساتھ ڈالروں کی کمی کے بحران پر بھی قابو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں قلیل المدتی اقدامات کے ساتھ ساتھ وسط مدتی اور طویل مدتی اقدامات کی فہرست بنانی اور پبلک کرنا ہوگی۔

ہمارے سامنے ٹارگٹ ہونے چاہئیں کہ ہم کتنے وقت میں کیا نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جیسے وزیراعظم نے افسروں کی کھنچائی کی تو یہ فوری نتائج کے حصول کا ایک طریقہ ہے لیکن یہ ہمیشہ کے لئے کارگر نہیں ہے کہ اگر آپ کے پاس پراڈکٹ یعنی بجلی ہی موجود نہیں تو اس کی سپلائی کیسے کر سکتے ہیں۔

جب ہم ساہیوال سمیت دیگر جگہوں پر کوئلے کے پلانٹس لگا رہے تھے اور خواجہ سعد رفیق کی قیادت میں پاکستان ریلویز بہت ہی مختصر مدت میں کراچی پورٹ سے ساہیوال تک کوئلے کی فراہمی کے لئے ہتھیلی پر سرسوں جما رہی تھی تو اس وقت بھی یہی کہا جا رہا تھا کہ اس کے ماحول پر اثرات ہوں گے، اگرچہ اس کے لئے بھی الگ پلانٹ لگا مگر حقیقت یہی ہے کہ اب دنیا کلین انرجی کی طرف جا رہی ہے۔

جب ہم سورج کی روشنی، ہوا یا پانی سے بجلی کی تیاری کی بات کرتے ہیں تو جہاں ہمیں اپنا قیمتی زرمبادلہ بجلی کی پیداوار حاصل کرنے کے لئے تیل، گیس یا کوئلے پر خرچ نہیں کرنا پڑتا تو اس کے ساتھ ساتھ ہم دنیا کے سامنے خود کو ماحول دوست قوم کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت سولر انرجی اسی طرح فیشن میں ہے، سود مند ہے جس طرح کبھی سی این جی ہوا کرتی تھی۔

اب اس لائحہ عمل کی طرف آتے ہیں جس کی تجویز چوہدری عبدالخالق پیش کر رہے تھے کہ حکومت سولر پینلز اور دیگر آلات پر صرف ٹیکس ختم نہ کرے بلکہ اس سے آگے بڑھے۔ وہ مثال دے رہے تھے کہ جس طرح حکومت نے ییلو کیب سکیم شروع کی جس نے بہت ساروں کو روزگار بھی دیا اور عوام کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی اور جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرا م کے تحت انتہائی غریب گھرانوں کی مدد کی جاتی ہے بالکل اسی طرح شہباز شریف ایک بڑا انیشیٹیو لے سکتے ہیں کہ وہ سولر پر نہ صرف تمام ڈیوٹیاں ختم کردیں بلکہ اس کے لئے بنکوں کو ہدایت کی جائے، سرکار خود فنڈز فراہم کرے جس کے تحت ایک عام مڈل او رلوئر مڈل کلاس گھرانہ اپنے مکان کی چھت پرسولر پینل لگائے، وہ گھرانے جن کی آمدن پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہے انہیں پانچ لاکھ تک کا یونٹ لگا دیا جائے اور جب ان کا بجلی کا بل دس ہزار کے بجائے زیرو ہوجائے یابہت ہی کم تووہ یہی پیسے قسطوں کی صورت میں واپس ادا کردیں۔

جب ان کی قسطیں پوری ہوجائیں گے توا س کے بعد ان کے لئے کتنے ہی برسوں کے لئے بجلی مفت ہوجائے گی۔ جہاں پرانے گھروں پر یہ سہولت ہو وہاں نئے گھروں پر قانونی طور پر سولر یونٹ لگانا لازمی قرار دے دیا جائے کہ جو شخص ایک ڈیڑھ کروڑ کا گھر بنا رہا یا لے رہا ہے تو وہ اس پر پانچ، سات لاکھ روپے کا یونٹ لازمی لگائے۔ جب بہت سارے گھروں پر یہ یونٹ لگ جائیں گے اور گرین میٹرز کی بھی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں پہنچ جائے گی تو پاکستان کو بجلی کی پیداوار کے لئے اپنے قیمتی ڈالرز خرچ نہیں کرنے پڑیں گے۔ ہمیں پٹرول کی پیداوار کے لئے بھی ایتھانول کی برآمد کی بجائے اس کے استعمال کی طرف جانا چاہئے۔

جب ہم سولر یونٹس کی تنصیب کی طرف جائیں گے تو جہاں گھروں میں لوڈ شیدنگ کا مسئلہ حل ہو گا، جہاں ہم اپنا خزانہ بجلی پیدا کرنے والے مہنگے پاور پلانٹس پر بہانے سے بچ سکیں گے وہاں یہ ٹیکنالوجی نئے کاروبار اور روزگار کے مواقع بھی پیدا کرے گی۔

مجھے پوری امید ہے کہ رینیوایبل انرجی ایسوسی ایشن کواگر سہولیات اور مراعات دی جائیں تو ہم سولر پینلز کی مقامی سطح پر پروڈکشن کو بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دے سکتے ہیں اوراس میں درآمدی فیکٹر کو بہت محدود کر سکتے ہیں۔

میں قائل ہوں کہ ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کے کتابی باتیں کرنے والوں کے بجائے پروفیسر ڈاکٹر چوہدری عبدالخالق جیسی علمی اور عملی شخصیات اس بحران میں حکومت کی عملی مد د کر سکتی ہیں، انہیں بحران سے نکلنے کی راہ دکھا سکتی ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف خود ایک پریکٹیکل پرسنالیٹی ہیں، وہ ایسی شخصیات کے ساتھ اپنا کمبی نیشن بنا کے کم سے کم وقت میں بہترین نتائج حاصل کر سکتے ہیں، ایک بار پھر اس بڑی قومی مشکل سے نجات کا سہرا اپنے سر باندھ سکتے ہیں۔