گجرات کے چوہدری سیاست کے منجھے کھلاڑی ہیں اور جانتے ہیں کہ سیاست کی شطرنج پر کامیابی والی چال کدھر سے چلتی ہے مگر اس مرتبہ معاملہ یہ ہوا کہ انہیں مقتدر حلقوں کے غیر جانبدار ہونے پر فیصلے خود کرنے پڑے، اگر کوئی دوست تھا بھی تو اس نے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کی اور چوہدری پرویز الٰہی بخوشی ہو بھی گئے کیونکہ مونس الٰہی بھی یہی چاہتے تھے۔
اب دھوم ہے کہ چوہدری تقسیم ہو گئے، وہ کام ہو گیا جو انیس سو اٹھاون سے لے کر آج تک نہیں ہوا، یہ وہ برس تھا جس میں چوہدری خاندان کے بڑے چوہدری صاحب، چوہدری ظہورالٰہی نے سیاست شروع کی تھی۔ میں اس افواہ کو افواہ ہی سمجھتا ہوں کہ وہ پولیس میں تھے اوروہاں سے سیاست میں آئے بلکہ معروف ہے کہ وہ ٹیکسٹائل کے بزنس میں آئے اور بھرپور کامیابی حاصل کی، خیر یہاں ان کی کاروباری کامیابیاں تو زیر بحث ہی نہیں، وہ الگ موضوع ہیں، یہاں زیر بحث ان کی سیاسی کامیابیاں ہیں۔
چوہدری ظہورالٰہی کی شہادت کے بعد بھی ان کی پولیٹیکل ہسٹری نکال کر دیکھ لیجئے، ہم رپورٹنگ بھی کرتے رہے، مجال ہے کہ شریکا ہونے کے باوجود چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویزالٰہی کے درمیان سے ہوا بھی گزری ہو، جی ہاں، یہ دونوں سگے بھائی نہیں بلکہ کزن ہیں اور برادر ان لا ہیں۔ نواز شریف کا ساتھ دینا ہو یا ساتھ چھوڑنا ہو، مشرف کے ساتھ جانا ہو یا پیپلز پارٹی کے ساتھ، سب فیصلے یہ اک مٹھ ہو کر ہی کرتے رہے ہیں۔
میں نے اس تازہ تقسیم کو سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے اور سمجھنے والوں سے آن دی ریکارڈ اورآف دی ریکارڈ رہنمائی لی ہے۔ وسیم اشرف بٹ، گجرات کی صحافت کا بہت بڑا نام ہیں اور وہ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی بہت کچھ کہہ گئے۔ ان کی تشخیص ہے کہ اگر چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ بن جاتے تو یہ صورتحال ہی درپیش نہ ہوتی۔ اس فقرے کو سمجھنے کی کوشش کیجئے، یہ کوزے میں دریا بند کیا گیا ہے۔
میں نے جانا کہ چوہدری پرویز الٰہی سے طاقت کے کھیل میں ہارے ہوئے کھلاڑی عمران خان کے ساتھ جانے والا بھنڈ، ہو گیا تواسے سنبھالنا بھی ضروری تھا اور یہاں چوہدری شجاعت حسین کی سیاست اور فراست کام آئی۔ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا خاندان ہارے ہوئے لشکر میں جا رہا ہے۔ ہمارے دوست ابراہیم لکی کہتے ہیں کہ اگر چوہدری شجاعت حسین کی کہی ہوئی بات سمجھ آجائے تو وہ بڑے بڑوں کو بہت کچھ سمجھا دیتی ہے۔ وہ بیمارتھے اور ہر کوئی ان کی عیادت کے لئے آ رہا تھا مگر جب ان کی سیاست بیمار ہوئی تو بیمار خود صحت مندوں کے پاس پہنچ گیا۔
مجھے گجرات سے ہی محموداختر بتا رہے تھے کہ اس صورتحال میں بھی کہ جب سالک حسین، شہباز شریف کے وزیر بن گئے ہیں اورمونس الٰہی، عمران خان کے سٹیج سے حمزہ شہباز کو کرلی، کہہ کے پکار رہے ہیں چوہدری خاندان اکٹھے افطاریاں کر رہا ہے اور فیصلے بھی۔ چوہدریوں کے قریبی حلقے اسے حکمت قرار دے رہے ہیں مگر بہت سارے غیر جانبدار حلقے یہ بھی کہہ رہے ہیں، نہیں، بات اب شجاعت اور پرویز کے بس میں نہیں رہی، سیاست اگلی نسل کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔
پہلے گجرات کے وسط میں ظہور پیلس سیاست کا مرکز ہوا کرتا تھااور پھر نت گاؤں کا مشہور نت ہاؤس ہو گیا، اب مونس الٰہی نے کنجاہ ہاؤس بنا لیا ہے اور وہاں بڑی سیاسی اور کاروباری سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔
ویسے ایک بات یاد رکھیں کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ چوہدری تقسیم ہوئے ہوں، اس سے پہلے چوہدری تجمل حسین کی فیملی بھی الگ ہو چکی ہے، چوہدری تجمل کے بیٹے چوہدری مبشر حسین نے نواز لیگ کا ساتھ کیا دیا کہ ظہور پیلس کے اندر دیوار کھینچ دی گئی۔ ہم چوہدری ظہور الٰہی کی برسی پر وہاں جاتے تو ساتھ ہی گیٹ کے اندر نوازشریف کے بینرز اورہورڈنگز لگے ہوتے، حال یہ ہوا کہ چوہدری ناصر نے ظہور پیلس والی یوسی سے چوہدریوں کو ہرا دیا تھابہرحال اب بات آگے بڑھ چکی ہے۔
مارچ کے آخری ہفتے میں ہی چوہدری شجاعت حسین نے اپنے جنرل سیکرٹری طارق بشیر چیمہ کو اس وقت کی اپوزیشن کے ساتھ فٹ کر دیا تھا۔ یہ فیصلہ طارق بشیر چیمہ کو بھی بہاولپو ر سے اپنی سیٹ کے حوالے سے فائدے میں جاتا تھا۔ اس سے پہلے گجرات کے سابق ناظم چوہدری شفاعت حسین بھی دونوں بڑے مشہور چوہدریوں سے باقاعدہ برسی کے موقعے پر اختلاف کر چکے ہیں مگر دلچسپ بات یہ رہی کہ بارہ مارچ کو چوہدری وجاہت حسین نے بھی ایک بیان داغ دیا کہ جہاں عزت نہ ہو وہاں نہیں رہنا چاہئے۔ اس سے مطلب لیا گیا کہ چوہدری وجاہت حسین جو کہ گجرات کی ساری چوہدری سیاست کو کنٹرول کرتے ہیں وہ چوہدری شجاعت حسین کے موقف کے ساتھ ہیں۔
میں نے گجرات میں بہت ساری جگہوں پر وجاہت فورس کی وال چاکنگ دیکھ رکھی ہے جو ایک خاص پیغام دیتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگر چوہدری وجاہت، چوہدری شجاعت کے ساتھ ہیں تو حسین الٰہی جو کہ چوہدری وجاہت کے بیٹے ہیں وہ چوہدری پرویز الٰہی اورمونس الٰہی کے ساتھ کیوں ہیں۔ ہمارے بیوروچیف اور گجرات کے سینئر صحافی سعید احمد نے ہی یہ خبر بریک کی کہ حسین الٰہی، مونس الٰہی کی سپورٹ کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن رہے ہیں۔
اس کی ایک تشریح یہ کی جا سکتی ہے کہ وہ بھی رکن قومی اسمبلی ہیں اور اپنی سیاست بہتر سمجھتے ہیں مگر یہ جواب اطمینان بخش نہیں ہے ایک بات پوری طرح واضح ہے کہ چوہدریوں نے سوچے سمجھے فیصلے کے تحت، مقتدر حلقوں کی غیرجانبداری کے بعد، دونوں کشتیوں میں سواری کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ انتظار کریں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کا مستقبل کا کا گھوڑا کون ہو گا، وہ جو بھی ہو گا وہ اس پر کاٹھی ڈال لیں گے۔
ایک اور اہم تشریح یہ کی جار ہی ہے کہ مشرف دور ہو یا عمران خان کا، وزارت اعلیٰ ہو یا سپیکر شپ، سب کچھ چوہدری پرویز الٰہی کے گھر کو ملا مگر چوہدری شجاعت حسین جو کہ خاندان کے سربراہ بھی کہلاتے ہیں ان کا گھر ایک مختصر ترین مدت کی وزارت عظمیٰ کے علاوہ ڈرائی، رہا سو اب یہ سوچا گیا کہ اگر وڈے چوہدری صاحب بھی عمران خان کے ساتھ چلے جاتے ہیں تو پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کی موجودگی میں ان کے بچوں کو کیا ملے گا لہٰذا یہ دوسر ی طرف والی گیم ڈال دی گئی۔
یہ بات میں پہلے بھی کالموں میں لکھ چکا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے بچوں کے دل شریفوں، سے ہرگز نہیں ملتے۔ ان کے ساتھی نوازلیگ کے خلاف بھرے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ گجرات، لالہ موسی، کھاریاں اور منڈی بہاؤالدین میں قاف لیگ کا ووٹر کیا سوچے گا تو اس بارے پریشان نہ ہوں وہ یہی سوچے گا کہ ان کے چوہدری بہت سیانے ہیں اور ہر مشکل میں راستہ نکال سکتے ہیں، ہاں، یہ سوال ضرور ہے کہ گجرات میں پی ٹی آئی کا کارکن کیا سوچ رہا ہے۔
ایک طرف عمران خان، شریف فیملی کا ان ہی کے سٹائل میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے پرچوہدری پرویز الٰہی پر صدقے واری ہوتے نظر آ رہے ہیں مگر دوسری طرف آپ پی ٹی آئی کے گجرات سے بہت پرانے اور قربانیاں دینے والے رہنما افضل گوندل کی چوہدریوں کے بارے وائرل گفتگو سنیں، آپ کانوں کو ہاتھ لگا لیں گے کہ ایسی باتیں تو نواز لیگ والے بھی ان کے بارے بیس بائیس برس کی دوریوں کے باوجود نہیں کرتے۔
پی ٹی آئی والے سمجھتے ہیں کہ چوہدریوں نے ان کو کچل کے رکھ دیا ہے اور ضلعے میں ہر برا کام ان کی پارٹی اور حکومت کے نام پر ہوتا رہا ہے۔ میں نے تو یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا اب چوہدری برادران کے امیدوار اگلے الیکشن میں الگ الگ ہوں گے تو اس پر سب ہنس دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھیں، کیا بنتا ہے، خون کے رشتے ہیں۔
وہ پارٹی جس کے بارے جگتیں لگائی جا رہی تھیں کہ وہ ایک چنگ چی میں پوری آسکتی ہے، آپ مانیں یا نہ مانیں، ہر طرف سے مبارکبادیں لیتی نظر آ رہی ہے، یہی ہماری سیاست ہے، کیا سمجھے؟