ہوا یوں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اپنی ویب سائیٹ پر بی ایس پڑھانے والے کالجوں کے لئے کچھ شرائط اپ ڈیٹ کیں اور ان میں ایک حلف نامہ مانگ لیا کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ الگ کیمپس ہی نہیں بنائیں گے بلکہ گرلز کالجز کا سٹاف بھی خواتین پر ہی مشتمل ہو گا۔ جب یہ خبر میڈیا پر آئی تو ہائیر ایجوکیشن کی وزارت نے اس کی تردید کر دی، کہا، پرانا نوٹیفیکیشن ہے مگر ایک پرانی بحث تازہ ہو گئی کہ مخلوط تعلیم ہونی بھی چاہئے یا نہیں۔
ہمارے سوشل میڈیائی دوستوں کی اکثریت مفتی کا درجہ رکھتی ہے، انہوں نے فتویٰ دے دیا کہ کو ایجوکیشن غیر اسلامی ہے اور جب آپ کسی شے کو غیر اسلامی قرار دے دیں اور دوسرا بندہ اس پر دلیل دے تو وہ کافر ہوتا ہے جیسے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت کا ہر مخالف غدار۔
میں اس امر سے انکار نہیں کرتا کہ جب لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں تو ان میں دوستی بھی ہوسکتی ہے اور تعلقات بھی مگر کیا یہ سب کچھ خاندانوں اور محلوں میں نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ خاندانوں اور محلوں پر بھی پابندی لگا دی جائے، عورتوں کے لئے الگ شہر بسا دئیے جائیں یا انہیں کسی دوسرے سیارے پر بھیج دیا جائے۔ یہ وہی سوچ ہے کہ عورتوں کو گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہئے کہ باہر آوارہ اور بدقماش لوگ ہوتے ہیں یعنی آپ آوارہ اور بدقماش لوگوں کو کنٹرول کرنے کی سعی نہیں کرتے، انہیں چھوٹ دیتے اور عورتوں کو پابند کرتے ہیں کہ باہر نہ نکلیں، کیا یہ کسی مہذب معاشرے کی نشانی ہوسکتی ہے۔
آج آپ عورتوں کے بارے یہ دلیل دیتے ہیں کل کہیں گے کہ گلیوں اور سڑکوں پر چور اور ڈاکو گھوم رہے ہیں، آپ گھروں میں رہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم ہی نہیں ہورہی بلکہ مخلوط کنسرٹ ہو رہے ہیں سو زمانہ بہت خراب ہے، میں کہتا ہوں کہ جب آپ کے ناخن بڑھتے ہیں تو کیا آپ ناخن کاٹتے ہیں یا انگلیاں؟
اگلی دلیل یہ ہے کہ مخلوط تعلیم کون سی ضروری ہے، کیا الگ الگ پڑھائی نہیں ہوسکتی۔ میں اس دلیل سے اتفاق کرتا ہوں کہ الگ الگ پڑھائی ہو سکتی ہے لیکن الگ الگ پڑھائی کے بعد آپ کیا کریں گے جب گرلز کالجز اور یونیورسٹیوں کی پڑھی لڑکیاں معاشرے اور ریاست میں کام اور نوکری کے لئے جائیں گی تو کیا ان کے لئے ایسے دفاتر بھی تخلیق کریں گے جہاں مردوں کا داخلہ بند ہو۔ جب ہم لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ان میں تمیز اور فرق کرتے ہیں تو ایک خاص نفسیات کو پروان چڑھاتے ہیں۔
میں آپ سے اپنی پنجاب یونیورسٹی کی کلاسز کا تجربہ شئیر کرتا ہوں۔ ہماری کلاس میں چوالیس کے لگ بھگ لڑکیاں اور چوبیس کے قریب لڑکے تھے۔ بہت ساری لڑکیاں اور لڑکے چھوٹے شہروں سے آئے تھے۔ انہوں نے اپنی اپنی جنس کے لئے مختص اداروں میں ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ کلاس روم میں کچھ کم اور لائبریری، لان اور کوریڈورز وغیرہ میں کچھ زیادہ، ہمارے وہ دوست لڑکیوں کو ایسے گھورتے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے، جیسے وہ پیاسے ہوں اور لڑکیاں کوئی پانی ہوں جسے انہوں نے غٹا غٹ پی جانا ہولیکن ان سے بات کرتے ہوئے انہیں غش پڑتا تھا یعنی بقول شاعر، ترستے تھے جو سمندر کو وہ صحرا تھے۔ یہ حال صرف لڑکوں کا ہی نہیں تھا بلکہ ایسی لڑکیوں کا بھی یہی حال تھا کہ اگر ان سے کسی لڑکے نے بات بھی کر لی تو ان کے خاندان کی عزت مٹی میں رل جائے گی، ان پر حد لگ جائے گی۔
اس بحث سے مجھے اپنے سپیشل پرسنز یاد آ گئے۔ چوہدری پرویزا لٰہی کے دور میں ان پر خصوصی توجہ دی گئی، ان کے خصوصی سکولز بنے، ان کے لئے خصوصی ٹرانسپورٹ کا اہتمام کیا گیا مگر اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد پتا چلا کہ اگر ہم اپنے معذور ساتھیوں کو خود سے الگ رکھیں گے تو وہ زندگی بھر ذہنی طور پر ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک الگ سیارے کی مخلوق رہیں گے۔ ہم ان سے دوستی اور بات کرتے ہوئے جھجکیں گے اور وہ ہمیں ہمیشہ خود سے الگ سمجھیں گے۔
ہم کبھی ایک دوسرے کے ساتھ نارمل نہیں ہوسکیں گے، ایک دوسرے کے جذبات، خیالات اور احساسات کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ سو اسی طرح لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان نارمل تعلقات اسی وقت ہو سکتے ہیں جب وہ ایک دوسرے کے لئے کوئی پراسرار، کوئی پیچیدہ شے نہ ہوں بلکہ عام سے ہیومین بینگ، ہوں، جیسے وہ خود ہیں۔
میں اپنے ووستوں سے اپنے اتفاق کو دہراتا ہوں کہ جب آپس میں فاصلے نہیں ہوں گے تو دوستیاں بھی ہوں گی اور ڈیٹس بھی ہوں گی اور یہاں ہی ہمارے والدین، خاندان، اساتذہ اور ریاست سمیت پورے معاشرے کا کردارآتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اچھے اوربرے کے بارے میں بتائیں۔ یقین کیجئے کہ مخلوط تعلیم لڑکوں سے کہیں زیادہ لڑکیوں کو اعتماد دیتی ہے۔ اس سے آپس میں کمپی ٹیشن میں اضافہ ہوتا ہے۔
میں نے اس پر ایم ایس ایف پاکستان کے صدر رانا ارشد، آئی ایس ایف پنجاب کے کنوینر چوہدری محسن خالد اور پی ایس ایف کے نائب صدر حافظ عامر کے ساتھ مکالمہ کیا۔ میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ ہمیں لڑکوں اور لڑکیوں کو ایک دوسرے کے لئے معمہ اور اچھوت بنانے کی راہ روکنے کے ساتھ ساتھ اپنی معاشرتی روایات کا بھی تحفظ کرنا ہے۔ ہم تعلیمی اداروں میں کو ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے لئے الگ اورمخصوص کھیل کے میدان اور ایکٹی ویٹی رومز بنا سکتے ہیں اور یوں ایک معتدل حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔
ہم جدت اور ٹیکنالوجی میں بہت آگے جا چکے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ گرلز کالجز میں پڑھی ہوئی لڑکیوں کے کردار بہت بہتر ہوتے ہیں، وہ ڈیٹس پر نہیں جاتیں اور گھروں سے نہیں بھاگتیں تو میری معذرت قبول کیجئے، حقائق کچھ اورہیں۔ مجھے انتہائی ادب اور احترام سے کہنا ہے کہ جہاں پابندیاں زیادہ ہیں وہاں بغاوتیں زیادہ ہیں، بس تھوڑے کہے کو ہی بہت جانئے۔
ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام کے نام پر یہاں لڑکیوں کے تعلیمی اداروں تک کو بموں کے دھماکوں سے اڑایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ آزادی کی ایک حد اور انتہا مقرر کر سکتے ہیں لیکن جب آپ نفرت اور پابندیوں کی طرف جاتے ہیں تو اس کی کوئی حد، کوئی انتہا نہیں ہے۔ جب آپ یہ کہہ دیتے ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں کا انٹریکشن غیر اسلامی ہے تو آپ اسلام کی اس تاریخ کو بھول جاتے ہیں جس میں ہماری ماں اماں خدیجہؓ خود تجارت فرمایا کرتی تھیں اور ہماری ماں اماں عائشہؓ نبی ﷺ کے پڑھائے ہوئے دین کی تشریح فرمایا کرتی تھیں، صحابیات غزوات میں خدمات سرانجام دیا کرتی تھیں اور مساجد میں نماز پڑھنے کے لئے جایا کرتی تھیں حالانکہ تب ہی یہی حالات تھے، ایسے نہ ہوتے تو کبھی سورۃ نور کی کچھ آیات نہ اترتیں۔
کچھ مردوں نے اپنے اسلام کو عورتوں کے لئے بہت مختلف اورتنگ نظر بنا دیا ہے اور شائد اس پر برصغیر کے پرانے مذاہب کے بھی کچھ اثرات ہیں۔ ہم اعتدال کی راہ چھوڑ چکے۔ ہم ہر برائی کا ایک ہی حل پاتے ہیں اور وہ پابندی ہے۔ مجھے طالب علم رہنماؤں نے کہا کہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ لڑکیوں کے سکولوں اور کالجز کے سامنے آوارہ اوربدقماش لڑکوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ پھر اس کا کیا علاج ہے، لڑکوں کو تہذیب سکھانی ہے یا لڑکیوں کے تعلیمی ادارے بند کرنے ہیں؟
بصد احترام، آپ کے ذہن میں لڑکے یا لڑکی کاتصور آتے ہیں سیکس کا خیال آتا ہے تو آپ اپنا ماحول تبدیل کیجئے۔ یہ ایک مرض ہے جو بہت سارے دوسرے سماجی اور جسمانی امراض پیدا کرتا ہے۔ مجھے کہنے دیجئے کہ میں لبرل آنٹیوں کا کیس نہیں لڑ رہا بلکہ اپنے عام عوام کی بات کر رہا ہوں۔ اپنے بچوں کو اعتماد دیجئے، کردار دیجئے۔ اے میرے پیارے لوگو، اعتدال، اعتدال، اعتدال۔