Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Confused Jamaat

Confused Jamaat

میں نے جماعت اسلامی کو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے چناؤ میں اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈالتے دیکھا توحیرانی ہوئی۔ جب سے جماعت کا بطور طالب علم مطالعہ شروع کیا، میں نے اسے پیپلزپارٹی کاکٹر نظریاتی مخالف دیکھا۔ بھٹو مرحوم کی حکومت کے خاتمے اورانہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچانے والے ضیاءالحق کی حلیف بنی اور پھر آئی جے آئی کا حصہ، جسے حمید گل اینڈ ایسوسی ایٹس نے پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے کے لئے ہی بنایا تھا۔ اس وقت تک کچھ نہ کچھ لیفٹ اور رائیٹ کی سیاست باقی تھی اور جماعت اسلامی نے مقتدر حلقوں کی چوائس نواز شریف کو پیپلزپارٹی کے مقابلے میں بڑا لیڈر بنا دیا۔ آئی جے آئی کے وہ تمام ترانے جماعت ہی کے مرکز سے نکلے جنہیں اس وقت نوجوان جھوم جھوم کے گایا کرتے تھے، پی پی جی کھیہڑا جان دیو، کوئی نویں قیادت آن دیو، جیہڑا غنڈہ اے مشٹنڈا اے اوہدے ہتھ ترنگا جھنڈا اے،۔ پی پی کی مخالفت اتنی شدید تھی کہ میرے بہت پسندیدہ حافظ سلمان بٹ پرواحد تنقید اندرون لاہور شاہی محلے کی اس تقریر پر کی جاتی ہے جس میں وہ اس حد پر پہنچ گئے جسے آج کل ہر کوئی عبورکئے بیٹھا ہے۔

پھر جماعت نے چھوٹی برائی سے جان چھڑوا لی، بڑی برائی اس وقت بھی پیپلزپارٹی تھی، جی ہاں، میں عتیق سٹیڈیم کے اس اجتماع میں بھی بطورصحافی موجود تھا جہاں پاکستان اسلامک فرنٹ بن رہا تھااگرچہ یہ تجربہ ناکام رہامگر جماعت اسلامی منتخب حکومتیں گرانے میں ناکام نہیں رہی۔ میں نے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک آنسو گیس قاضی صاحب، عظیم بھائی اورمنصور جعفر کے ساتھ راولپنڈی کی مری روڈپر ہی کھائی ہے جب وہ بے نظیر حکومت گرانے پہنچے تھے اور پھر فاروق لغاری نے گرابھی دی تھی۔ مشرف دور میں پیپلزپارٹی اورنواز لیگ بھی اپوزیشن میں تھے اور متحدہ مجلس عمل بھی ایسی ہی اپوزیشن میں جیسی اب سینیٹ میں بنی ہے۔ جماعت چھوٹی، بڑی برائیوں کے ساتھ میثاق جمہوریت کے گناہ میں بھی نہیں تھی مگر یہ الگ بات کہ جماعت کے لاہور سے جتنے رہنما جب بھی جیتے وہ چھوٹی برائی کے تعاون سے ہی جیتے، ان میں محترم لیاقت بلوچ بھی تھے اور فرید احمد پراچہ بھی جو سعودی عرب سے چھوٹی برائی کی حمایت لائے تھے مگر اس کے باوجود جماعت بڑی کے ساتھ ساتھ چھوٹی برائی کو بھی ختم کرنا چاہتی تھی جس کے لئے خود امیر محترم سپریم کورٹ پہنچے اور چھوٹی برائی کے سرخیل کو گھر پہنچایا۔

کنفیوژن یہاں تک محدود نہیں کہ چھوٹی اوربڑی برائی کو کس طرح ختم کرنا ہے، ان کا مقابلہ کرنا ہے یا گلے لگا کے ان کا دم نکالنا ہے، کنفیوژن یہ بھی ہے کہ مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی ہیں یا نہیں۔ یہ کنفیوژن بھی بھٹومرحوم کے دور سے ہی ہے۔ پہلے ضیاءالحق کو ویلکم کیا، مارشل لائی وزارتیں سنبھالیں اورچندماہ بعد ہی گناہ بے لذت کو خیرباد بھی کہہ دیا۔ آئی جے آئی میں شامل ہوئے اور جس طرح شامل ہوئے اسی طرح چھوڑ بھی دیا۔ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں گرانے کے لئے تحریکیں چلائیں اور پھر قاضی حسین احمد نے ہی کروڑ کمانڈر کی قابل اعتراض اصطلاح فیصل مسجد کے اجتماع عام میں استعمال کر ڈالی جو اس سے پہلے وہ مجھے ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہہ چکے تھے مگر اخبار کے مالک نے اسے ایڈٹ کروا دیا تھا۔ یہ کنفیوژن سید منور حسن تک آئی جب ایک طرف وہ کنگز پارٹی کے وفادار ترین حلیف بھی بنے اور دوسری طرف انہیں پاک فوج کی شہادتوں تک پر شک ہو گیا، پھر پی ٹی آئی کو بھی چھوڑ دیا۔ جماعت ہر کسی کے ساتھ مشکوک ہی نہیں رہی بلکہ یہ معصوم اپنے ساتھ بھی مشکوک رہے، یقین نہیں آتا تو جناب منور حسن کی انتخاب میں شکست اور اس کے بعدان کی تقریر اٹھا کر پڑھ لیجئے کہ ووٹ اور ووٹر کہاں گئے؟

بہرحال سینیٹ والے معاملے پر آتے ہیں، جماعت اسلامی کے دوست کہتے ہیں کہ جماعت کے ایک ووٹ کی اتنی تکلیف کیوں تو میں کہتا ہوں کہ اس گناہ بے لذت کی نہیں مگر اس موقف سے یوٹرن کی ضرور ہے جس کا شور مچاتے رہے۔ کہتے ہیں کہ مریم بھی تو گیلانی کے ساتھ تھی تو جواب ہے کہ کیا آپ مریم نواز کو آئیڈیلائز کرتے ہیں یا آپ پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی سیاسی اتحاد میں تھے کہ اس کی پابندی ضروری تھی۔ امیر العظیم جیسے منجھے سیاسی کارکن نے اسے پارلیمانی روایت قرار دیا مگر جب سینیٹ کے ارکان کاچناؤ ہو رہا تھااور جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہو رہا تھا تب یہ پارلیمانی روایت کہاں تھی۔ کہتے ہیں کہ جماعت اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے مگر کوئی آزادی مادر پدر آزاد نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ تمہیں دکھ ہے کہ اعظم نذیر تارڑ کو ووٹ کیوں نہ ملا تو مجھے ہنسی آتی ہے کہ وہ صاحب کون سی میری پھوپھو کے بیٹے تھے کہ ان کے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر نہ بننے کا دکھ ہوتا، ہاں، دکھ یہ ہے کہ جماعت نے گناہ بے لذت میں عزت سادات گنوائی کہ گیلانی کو اس ووٹ کی ضرورت ہی نہیں تھی اور وہ اس کے بغیر بھی باپ، کی مددسے اپوزیشن لیڈر بن سکتے تھے۔ کہتے ہیں کہ علت بری شے ہے مگرکسی بھی دوسر ی علت کے مقابلے میں علت المشائخ بہرحال زیادہ بری ہے۔ لفنگا سڑک پر سیٹی بجائے تو بری، مولوی بجائے تو بہت بری لگتی ہے۔ یا آپ کہہ دیجئے کہ میں آپ کو دوسروں سے بہتر، باکردار اور ایماندار نہ سمجھوں، آپ بھی وہی ہیں جو دوسرے ہیں۔

دوسروں جیسا سمجھنے سے یاد آیا کہ میں نے ٹوئیٹر پر پول دیا کہ جماعت اسلامی نے یوسف گیلانی کوووٹ کیوں دیا اوراس میں پارلیمانی روایت جیسا عجیب وغریب موقف شامل نہیں کیا۔ باپ، کے ووٹوں کے بعدوہاں دو تہائی اکثریت کا کہنا تھا کہ مقتدر حلقوں کے کہنے پر۔ سولہ فیصدکا خیال تھا کہ بلاول کی منصورہ یاترا سے مروت والامعاملہ ہوا۔ نو فیصد کے قریب لوگوں کا خیال تھا کہ گیلانی نے مشتاق احمد صاحب کا ووٹ خریدا حالانکہ ایسا نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ آٹھ فیصد کے قریب لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کام معصومیت اور حماقت میں ہو گیا۔ یہاں بھی ردعمل دوسروں جیسا ہی تھا کہ جماعت کا سوشل میڈیا سیل پہلے بھی جناب شمس الدین کی قیادت میں گالی گلوچ کروا چکا ہے اور اب بھی وہاں باکرداروں، نے لفافے کا خطاب دیا، مریم نواز کی تصویر کے ساتھ واہیات سے عکس شیئرکئے، پٹواری، گھٹیا، دلال، کمینہ، بغض، بے غیرتی، لعنتی، چیاؤںچیاوں، تنخواہ دار، جاہل جیسے تمام الفاظ استعمال کئے جو بالعموم رکن جماعت کی اہلیت نہ رکھنے والے استعمال کرتے ہیں۔ سچ ہے، کسی کا اصل دیکھنا ہو تو اس سے اختلاف کر کے دیکھو۔ میں طویل عرصے سے گومگوں میں تھاکہ جماعت کے ارکان بڑھ رہے ہیں مگر وزن کم ہو رہا ہے، اب نہیں رہا۔