Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Core Commander House Se

Core Commander House Se

میں نے میاں میرپل سے فورٹریس کراس کیا تو میرے سامنے لاہور کینٹ ایسی حالت میں تھا جیسے دشمن کی کسی فوج نے حملہ کر دیا ہو۔ اس سے پیچھے میں اس جمخانہ کلب کے سامنے سے گزرا تھا جس میں بھارت کی فوج نے کم و بیش اٹھاون برس پہلے واہگہ سے بارڈر کو کراس کرتے ہوئے خاکم بدہن فتح کا جشن منانے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر ہماری بہادر مسلح افواج نے انہیں بی آر بی نہر بھی کراس نہیں کرنے دی تھی مگر اس مرتبہ دشمن اندر سے نکلا تھا۔

اس کا رخ لبرٹی چوک سے لاہور کینٹ کی طرف ہوا تھا۔ بہت سارے لوگ سوال کر رہے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ بلوائی نعرے لگاتے اور ڈنڈے لہراتے کور کمانڈر ہاوس تک پہنچ گئے اور میں جواب دیتا ہوں کہ صرف اس وجہ سے کہ فوج اور حکومت انہیں لاشیں نہیں دینا چاہتی تھی۔ انہیں انٹرنیشنل میڈیا پر دکھانے کے لئے بہت ساری لاشیں درکار تھیں۔ انہوں نے امریکا سے اسرائیل تک کی لابنگ فرمیں ہائر کر رکھی تھیں اور اگر خدانخواستہ کسی میچور رسپانس کی بجائے انہیں ہر قیمت پر روکنے کی حکمت عملی اپنا لی جاتی جو نہ غیر منطقی ہوتی اور نہ غیر فوجی تو پھرقیامت برپا ہوجاتی۔

پاک فوج کا شکریہ، اس نے وہی کیا جو ایک محب وطن اور ذمے دار فوج کو کرنا چاہئے تھا۔ ا س نے اپنے نادان اور احمق شہریوں کے سامنے وقتی مگر دانائی پر مبنی پسپائی اختیار کر لی، وہ نادان اور احمق جو ایک کلٹ کا حصہ ہیں، جو عمران خان کو پیغمبر اوراس کے ساتھیوں کو صحابہ تک قرار دینے سے باز نہیں آتے، استغفراللہ، یہ مرزے قادیانی کے بعد بڑا فتنہ ہے، اتنی ہی بڑی سازش ہے، ا گر کوئی سمجھے۔

میں نے وہاں جلی ہوئی گاڑیاں دیکھیں اور ان میں سے بہت ساری ہمارے عام شہریوں کی تھیں جو ان بلوائیوں کے گھیرے میں ا ٓ گئے تھے او رپھر سی ایس ڈی، ایک بڑا ڈپیارٹمنٹل سٹور، وہاں سے ایل سی ڈیز اورموبائل فون ہی نہیں بلکہ ادویات تک لوٹ لی گئیں۔ سڑکوں پر درختوں کی ٹوٹی ہوئی شاخیں اور پتے تھے، جلے ہوئے ٹائر تھے، پتھر ہی پتھر تھے۔

یاخدا، میں سوچ رہا تھا کہ اگر دشمن کی فوج بھی حملہ کرتی تو کیا وہ ایسا ہی کرتی۔ یہ ہرگز ہرگز کوئی سیاسی احتجاج نہیں تھا، یہ سوچی سمجھی سازش تھی۔ میرے سامنے پی ٹی آئی کے دوست آن دی ریکارڈ وضاحتیں پیش کر رہے تھے کہ وہ صرف احتجاج کرنے گئے تھے مگر آف دی ریکارڈ تسلیم کر رہے تھے کہ انہیں پھُپھی، یعنی صدر پنجاب یاسمین راشد اور چُوڑے، یعنی صدر لاہور امیتاز شیخ نے مروا دیا۔

کیا یہ سوال منطقی نہیں کہ اگر یہ حملے سوچی سمجھی سازش نہیں تھی تو پھر ملک بھر میں مظاہرین کا رخ فوجی املاک اور تنصیبات ہی کی طرف کیوں تھا یعنی یہ ایک ملک گیر سمت تھی جس کا تعین اور تیاریاں پہلے ہی کر لی گئی تھیں، یہ محض سیاسی احتجاج نہیں تھا بلکہ وہ یہ وہی کچھ تھا جس پر بھارت کا میڈیا جشن منا رہا تھا اور ایک سیاسی جماعت کے چند ہزار ٹرینڈ غنڈوں کی بجائے اس واردات کو پاکستانی عوام کے کھاتے میں ڈال رہا تھا۔

میری نظروں کے سامنے میرے بزرگوں حکیم محمد سعید اورڈاکٹر اسرار احمد کی پیشین گوئیاں گھوم رہی تھیں، یہ وہی کچھ ہو رہا تھا جو اسرائیل، امریکا اور بھارت چاہتے تھے۔

لاہور کا کور کمانڈر ہاوس صرف کور کمانڈر ہاوس نہیں ہے بلکہ یہ اصل میں جناح ہاوس ہے۔ اسے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے حکومت پاکستان کو گفٹ کیا تھا۔ میں جب اس کے اندر داخل ہوا تو آگے ملبے کے ڈھیر تھے۔ جناح ہاوس کو کھنڈر بنایا جا چکا تھا۔ یہاں پہلے لوٹ مار کی گئی اورپھر اس کے بعد آگ لگا دی گئی۔ بابائے قوم کی یادگار کو اس قوم کے شرپسندوں نے کھنڈر بنا دیا تھا۔

میرے سامنے وہ ویڈیو تھی جس میں ایک بلوائی کہہ رہا تھا کہ وہ فوجیوں کو گنگا اور جمنا میں بہا دے گا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس نے گنگا اور جمنا کے الفاظ کیوں استعمال کئے۔ وہ راوی اور سندھ کے دریاوں کا بھی کہ سکتا تھا۔ گویا امداد اور کمک کہیں اور سے بھی تھی جہاں سے، اس سے پہلے، مال آیا تھا، جی ہاں، وہی ممنوعہ فنڈنگ جو الیکشن کمیشن میں ثابت ہوچکی۔ میں نے دیواروں پر پلستر پر ہاتھ رکھا تو وہ بڑے بڑے ٹکڑوں میں نیچے گرنے لگا۔

میں نے دیکھا کہ پنکھے اور ائیر کنڈیشنر تک پگھل کر دیواروں سے لٹک رہے تھے۔ کچن اور باتھ روم کیا، بہت پیچھے کوارٹرز تک نہیں چھوڑے گئے تھے۔ ٹرالیوں میں بھربھر کے ملبہ اٹھایا جا رہا تھا۔ اس وقت میرا دل اللہ کے خوف سے پھٹ گیا جب میں نے کور کمانڈر ہاوس کی مسجد کو جلے ہوئے دیکھا، اس کے دروازے اور شیشے ٹوٹے ہوئے تھے، پنکھوں کے پر ٹیڑھے تھے یعنی وہ اللہ کے گھر پر بھی حملہ آور ہوئے تھے اورمیں خود سے سوال کررہا تھا کہ کیا یہ حملہ آور پاکستانی تھے، کیا یہ مسلمان بھی تھے؟

تحریک انصاف والے عمران خان کی گرفتاری پر فکری مغالطے پیدا کررہے ہیں، وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ گرفتاری غلط ہوئی مگر وہ انکار نہیں کر پا رہے کہ ایک پراپرٹی ٹائیکون کوساٹھ ارب کا فائدہ پہنچا کر قومی خزانے کو ٹیکا لگایا گیا اور خود عمران خان نے اپنی اہلیہ بشری پنکی اور فرنٹ وومین فرح گوگی کے نام پر اس سے چھ ارب روپے کی زمین حاصل کر لی۔

کہتے ہیں کہ وہ وہاں ایک روحانیت کی یونیورسٹی بنا رہے ہیں اور سوال یہ ہے کہ اس طرح کی زمین پر تو مسجد بھی نہیں بن سکتی، یونیورسٹی کیسے بن سکتی ہے۔ وہ اپنے حواریوں کو مشتعل کرنے کے لئے کہتے ہیں کہ اسے غلط طریقے سے گرفتار کیا گیا تو جواب ہے کہ گرفتاری اسی طرح ہوتی ہے۔ کیا عمران خان کی گرفتاری کے لئے ریڈ کارپٹ بچھائے جاتے، وہاں پھول نچھاور کئے جاتے، کھسرے نچائے جاتے۔

کیا وہ پہلا سابق وزیراعظم ہے جو گرفتار ہوا ہے، نہیں، صورتحال یہ ہے کہ جب وہ خود وزیراعظم عہدے پر نصب کیا گیاتھا تو اس نے اپنے مخالفین کو دو، دو برس تک جیل میں رکھا تھا۔ وہ ایک ایسا وزیراعظم تھا جس کا لیڈر آف دی اپوزیشن تک دو مرتبہ گرفتار ہوااور اس کا بیٹا بھی دو برس تک جیل میں رکھا گیا۔ سابق صدر کی بہن کو چاند رات پر ہسپتال سے اٹھا کے جیل لے جایا گیا تھا یعنی اس نے تو بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کی تمام حدیں ہی پار کرلی تھیں۔

مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ عمران خان، اسٹیبلشمنٹ کا بدترین اور ناکام ترین تجربہ تھا۔ میں مسلم لیگ نون کوملک میں تعمیر و ترقی کی علامت سمجھتا ہوں مگر اس کے باوجود جب وہ ایک حد سے آگے بڑھے تو انہیں انہی صفحات پر، انہی کالموں میں، مشورے دئیے کہ وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کریں کہ ان کا بیانیہ مزاحمت نہیں بلکہ ڈیویلپمنٹ ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ وقتی ردعمل کے بعد انہوں نے ہوش سے کام لیا۔

اب میرا یہی مشورہ تحریک انصاف کے لوگوں کے لئے ہے۔ انہیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ پاک فوج اس وقت قومی داخلی سیاسی امور میں غیر جانبدار ہوچکی ہے۔ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید کا دور بھی اوور ہوچکا ہے۔ وہ اس موقعے کا فائدہ اٹھائیں اور جب جیلوں سے باہر آئیں تو بندے کے پتر بن کے سیاست کو سیاست کے میدان تک محدود رکھیں بالکل اسی طرح جیسے کرکٹ کا کھلاڑی اگر ہاکی کے میدان میں ہوگا تو ہاکیاں ہی کھائے گا، ٹخنے گھٹنے اور سر ہی پھٹوائے گا، کیا سمجھے؟