اس وقت ملکی سیاسی صورتحال پنجابی فلم کیری آن جٹا، کے اختتامی ڈائیلاگ جیسی ہو رہی ہے کہ سمجھ کسی کو کچھ نہیں آ رہی مگر مزا سب کو آ رہا ہے۔ اس میں میرے جیسے عام صحافی کے ذہن میں، جس کے پاس فیصلہ ساز اداروں میں یوٹیوبرز جیسے ذرائع موجود نہیں، کچھ سوالات ذہن میں آ رہے ہیں، آپ کے پاس ان میں جتنے سوالوں کے جواب ہوں مجھے ان سے ضرور آگاہ کیجئے گا۔
پہلا سوال ہے کہ اپوزیشن حکومت گرانا چاہتی تھی۔ جب بلاول بھٹو زرداری اپنا لانگ مارچ کر رہے تھے یا پی ڈی ایم مہنگائی مارچ، یہ سب ایک ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ عمران خان استعفیٰ دے دو۔ پھر یہی ہوا کہ تحریک عدم اعتماد میں نمبر گیم کھونے کے بعد عمران خان نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے اسمبلی ہی توڑ دی۔ اب سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کا بہت بڑا مطالبہ پورا ہو گیا تو ان کے چہرے کیوں لٹکے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان ہیں جنہوں نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت ختم کر دی اوروہ بلیو ایریا میں جشن منا رہے ہیں۔ پانے والے روکیوں رہے ہیں اور کھونے والے ہنس کیوں رہے ہیں؟
دوسرا سوال ہے کہ اس نازک ترین صورتحال میں پوری قوم آواز بننے کی دعوے دار مریم نوازاور ان کے والد کہاں ہیں۔ پچھلے دو، تین دن سے ان دونوں کی خاموشی اور عدم موجودگی حیرت انگیز ہے۔ مریم نواز ٹوئیٹر پر کچھ فارورڈڈ میسجز کے ساتھ کھیل رہی ہیں اور نواز شریف ایک ٹوئیٹ کے بعد غالبا ًلمبی تان کے سو چکے ہیں۔
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ یہاں مریم نواز اور عمران خان کا مفاد ایک ہو گیا ہے کہ کسی طور پر بھی شہباز شریف کو وزیراعظم نہیں بننا چاہئے، وہ اس صورتحال پر خوش ہیں اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی راہ میں مشکلات پیدا ہونے پر درپردہ جشن منا رہے ہیں۔ کیا یہ درست ہے کہ یہ باپ، بیٹی عمران خان کو تو وزیراعظم برداشت کر سکتے ہیں مگر شہباز شریف کو نہیں؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو علم تھا کہ ایمپائر کو ساتھ ملائے بغیر بازی نہیں جیتی جا سکتی یا کم از کم ایمپائر نیوٹرل ہونا ضروری ہے، اوہو، میری مراد یہاں اسمبلیوں کے سپیکروں سے ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں (جو اب ٹوٹی ہوئی سمجھی جا رہی ہے) سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف اس وقت بھی کوئی تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کی جب وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک کو فریق بن کے لٹکاتے چلے آ رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی موجود ہے مگر یہاں چوہدری پرویز الٰہی کے خلاف تادم تحریر کوئی تحریک عدم اعتماد موجود نہیں حالانکہ وہ امیدوار بننے کے بعد ایک مرتبہ پھر نمبر گیم پوری نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کرواچکے ہیں۔ وہ پوری طرح بااختیار ہیں کہ تین اپریل کے ہنگامے پر اپوزیشن کے رانا مشہود احمد خان سمیت اٹھارہ ارکان کی رکنیت کو معطل کر دیں اور نمبر گیم کی ایسی تیسی کر دیں۔
انہوں نے اپوزیشن ارکان کے احتجاج کے دوران اسمبلی میں ایوان اور اپوزیشن چیمبر کی بھی بجلی، پانی، وائی فائی اور لفٹس تک سب بند کروا دیں۔ دلیل دی جار ہی ہے کہ اگر سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی تو عمران خان کو نمبر گیم پتا چل جاتی، یہ دلیل بودی ہے، بتائیے سپیکر کو رکھ کر اپوزیشن نے اسمبلی بچا لی، مان لیجئے، تحریک ایک ساتھ یا ایک دو دن کے وقفے سے آتی تواپوزیشن کا سپیکر منتخب ہونے کے بعد یہ سب کچھ نہ ہونے دیتا۔ سوال یہ ہے کہ نمبر گیم پوری ہونے کے باوجوداپوزیشن، سپیکروں کو کس کے کہنے پر برقرار رکھے ہوئے ہے؟
چوتھا سوال یہ ہے کہ اپوزیشن والے جہاں بھی حکمت عملی تشکیل دے رہے تھے وہاں کیا کسی نے اس امر کی طرف توجہ نہیں دلائی کہ تحریک کو تکنیکی بنیادوں پر بغیر گنتی کے بھی مسترد کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں کہ سیاستدانوں کے اجلاس خوشامدیوں کے ہوتے ہیں پریکٹیکل اور پروفیشنل لوگوں کے نہیں۔ وہاں تمام پہلوؤں کاجائزہ نہیں لیا جاتا۔ اپوزیشن والے ارکان اکٹھے کر رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ کامیاب ہو گئے۔
یہ سب سوٹ بوٹ پہن کر تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈالنے کے لئے پہنچ گئے اور ان کے لئے تحریک کا پیش نہ ہونا شاکنگ رہا۔ اپوزیشن کی لیڈر شپ حکومتی چالوں کو سمجھنے میں ناکام رہی جبکہ دعوے ان کے تجربے کار ہونے کے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تحریک مسترد ہونے پر یہ ہکے بکے کیوں رہ گئے، یہ تیار کیوں نہیں تھے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کے بیک اینڈ پر معاملات درست ہیں یا وہ خراب ہوچکے ہیں۔
اگر خراب ہوچکے ہیں تو پہلے ان معاملات کو درست کریں اس کے بعد عدلیہ اور دیگر اداروں کی طرف جائیں۔ اسی سوال کا حصہ ہے کہ جب وہ اس کھیل کا آغاز کر رہے تھے تو کیا ان کے پاس کسی کی ضمانت نہیں تھی کہ انہیں بیچ میں اچانک چھوڑ نہیں دیا جائے گا، عمران خان کے منت ترلے دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر لاڈلا نہیں بنا لیا جائے گا؟
چھٹا سوال تحریک انصاف کے لوگوں سے ہے کہ وہ ماضی کی سیاست کی خرابیاں دورکرنے کے لئے آئے تھے مگر وہ ماضی کی کرپٹ سیاست کے سب سے بڑے محافظ بن گئے ہیں۔ کیا یہ سوال نہیں کیا جانا چاہئے کہ اگر تحریک انصاف نے چوہدری پرویز الٰہی اور ان کے قبیلے کے لوگوں سے ہی نیا پاکستان بنانا ہے تو پھر پرانے پاکستان میں کیا حرج ہے۔
عمران خان جس طرح ایوان وزیراعظم سے چمٹے ہوئے ہیں وہ ایک شرمناک روایت ہے۔ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ وہ تحریک انصاف کے کارکن اپنی حکومت کے خاتمے پر جشن منا رہے ہیں۔ اسی سے جڑاسوال ہے کہ عمران خان سپورٹس مین سپرٹ کیوں نہیں دکھا رہے۔ اگر وہ قومی اسمبلی میں میچ ہار گئے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ قومی اسمبلی ہی توڑ دیں۔ کیا وہ کرکٹ کے میدان میں بھی ایسا ہی کرتے رہے ہیں کہ جس گراؤنڈ میں وہ ہارنے لگتے تھے وہاں آخری گیند سے پہلے پچ ہی اکھاڑ دیتے تھے، وکٹیں ہی نکال دیتے تھے؟
ساتواں سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے ایوان کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرنا تو کیا ہمیں آئین سے تحریک عدم اعتماد ہی نکال دینی چاہئے کیونکہ آگے بھی سپیکر کسی نہ کسی پارٹی کا ہی ہو گا اور وہ اپنے پارٹی لیڈر کی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے ہمیشہ تحریک عدم اعتماد کو سازش اور ملک دشمنی ہی سمجھے گا۔ آٹھواں سوال یہ ہے کہ اگر سپیکر کی رولنگ اتنی ہی حتمی ہوتی ہے اور وہ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیا اسے آئین، قانون اور ضابطوں پر بھی فوقیت حاصل ہے۔ اگر کل وہ رولنگ دے دے کہ ملکی آئین کی جگہ پی ٹی آئی کا دستور ہی بالادست ہے اور عمران خان تاحیات وزیراعٖظم ہیں تو کیا اس رولنگ کے بعد آئین سمیٹ دیا جائے گا؟
ٍنواں سوال یہ ہے کہ کیا یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ اپوزیشن کی تمام جماعتیں، ان کی لیڈر شپ اور ارکان اسمبلی غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ابھی تک کافر اور غدار والی انتہا پسندانہ سیاست اور الزام تراشی سے باہر نہیں آئے۔ کیا ہم ایک اوربنگلہ دیش بنانے جا رہے ہیں؟ دسواں اور آخری سوال یہ ہے کہ ہم کب ایک میچور اور باشعور قوم بنیں گے۔ ہمارے ہاں آئین، قانون اور جمہوریت کب بالادست ہوں گے۔ کیا پاکستان اسی طرح ریورس گئیرمیں چلتا رہے گا؟