اس سے پہلے تحریک انصاف کی کوئی عورت کیمرے کے سامنے چیخ رہی تھی، کہہ رہی تھی، عمران خان کے لئے ارکان اسمبلی کو ماریں، وزراکے گھروں پر حملے کریں، ان کی عورتوں کو ننگا کرکے ویڈیوز بنائیں، مجال ہے پھر کوئی عمران خان کے خلاف کچھ نہیں کر سکے گاوغیرہ وغیرہ۔
میں نے یہ بکواس سنی اور افسوس ہوا کہ کس قسم کے ذہنی مریض تیار کر دئیے گئے ہیں مگر سوچا کہ یہ ایک کارکن ہے، رات کو اپنے لیڈر کی حفاظت کے لئے گھر سے نکلی ہے تو جذبات میں آ گئی ہے مگر اس کے بعد فواد چوہدری نے ایک ٹوئیٹ کر دی جس میں انہوں نے ایک میڈیا گروپ کا نام لے کر الزام عائد کیا کہ اس کے صحافی اس وقت سپریم کورٹ کے خلاف دن رات ایک کئے ہوئے ہیں، ان کے علاوہ واٹس ایپ گروپ سے وابستہ صحافی ہیں جو جج صاحبان کے خلاف پیڈ کمپنی (شائد مطلب کمپین تھا) چلا رہے ہیں۔ اس گروپ میں شامل صحافیوں کی فہرست بنا رہے ہیں۔
مجھے اس وقت حیرت ہوتی ہے اور شرم آتی ہے جب ہم ان لوگوں کے آئینی، قانونی، سیاسی اور بنیادی حقوق کے لئے بات کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے سرکاری خزانے سے اربوں لٹاتے ہوئے پہلے ہی ہزاروں لوگ بھرتی کئے جو مخالفوں کو دن رات ماوں، بہنوں کی غلیظ گالیاں دیتے ہیں۔
میں نے بہت دفعہ سوچا کہ اظہر مشوانی کے لئے ٹوئیٹ کروں، کہوں کہ اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو اس پر مقدمہ درج کیا جائے لیکن اگر وہ لاپتا ہے تو اداروں کی ذمے داری ہے کہ ڈھونڈیں، اس کے ماں باپ اور گھروالوں سے ملائیں مگر پھر مجھے اس کی اپنے بارے میں کی گئی ٹوئیٹ یاد آ گئی اوراس کے نیچے اس کے پیڈ لوگوں کی گالیاں۔ مجھے لگا کہ ان لوگوں کی حمایت کے لئے بے غیرت ہونا ضروری ہے۔
میں پوری طرح کنوینس ہوں کہ کارکن پیسے لے کرکام کر رہے ہوں یا جذبات میں ان کے ساتھ ہوں وہ اپنی قیادت سے ہی لائن لیتے ہیں۔ نوشیرواں کی حکایت مشہور ہے، اس نے کہا، میں نے اگرچٹکی بھر نمک مفت لے لیا تو میری فوج ان کی پوری فصلیں اجاڑ دے گی۔ میرا سوال صحافتی تنظیموں سے ہے کہ کیا انہوں نے ایک سیاسی جماعت کے ترجمان رہنما کے اس بیان کا نوٹس لیا ہے کہ وہ صحافیوں کی فہرستیں بنا رہا ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد یہ فہرستیں اپنے سوشل میڈیائی اور بعض جگہوں پر زمینی سطح پر بدمعاشی کرنے والوں کے حوالے کی جائیں گی۔
ہم نے اس وقت کوئی آٹھ دس یونین آف جرنلسٹس بنا رکھی ہیں اور ان میں سے کوئی بھی صحافیوں کی حقیقی ترجمان نہیں ہے، سب پی آر گروپ ہیں، ہاں، اس ٹوئیٹ پر منہ توڑ رپلائیز کے بعد کہا کہ سوشل بائیکاٹ کریں گے۔ میرا اس پر بھی سوال ہے کہ یہ سیاسی اختلاف پر یہ سوشل بائیکاٹ کیا ہوتا ہے۔ کیا یہ لوگ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی والوں سے کی ہوئی رشتے داریاں ختم کر دیں گے؟
فواد چوہدری کی ہمارے دوست تعریفیں کرتے ہیں کہ وہ بہت سمجھدار آدمی ہے مگر، معذرت، موصوف عمران خان کو مروانے میں سب سے آگے ہیں اور میں چوہدری پرویز الٰہی کی بات سے متفق ہوں کہ اگر فواد چوہدری کو پہلے پکڑ لیا جاتا تو عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کی غلطی سے روکا اوربچایا جا سکتا تھا کیونکہ خانصاحب اپنے فیصلوں کی کمزوریاں اور خامیاں جان کے یوٹرن لینے میں دیر نہیں لگاتے۔
آج عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ننانوے فیصد کردار فواد چوہدری اور فواد چوہدری جیسے لوگوں کا ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ ایک وفاقی وزیر رہنے والے شخص نے کتنی آسانی سے کہہ دیا کہ وہ صحافیوں کی لسٹیں تیار کر رہا ہے۔ اپنے تئیں اس نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم بننے کی کوشش کی ہے مگر کیا اسے علم ہے کہ اب الطاف حسین کہاں ہے اور وہ اپنے لیڈر کو کہاں پہنچوا رہا ہے۔
فواد چوہدری کبھی کبھی خود کو ایم کیو ایم کا سیکٹر کمانڈر سمجھنے لگتا ہے اور میں کبھی کبھی اس خیال کو درست سمجھتا ہوں کہ موصوف اب بھی کسی ڈیوٹی پر ہیں۔ انہیں دراصل پرانی عادتیں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ پرانے دور میں بھی اپنے مہربانوں کے ساتھ مل کر ریاست کے مخالف صحافیوں کی اپنے تئیں لسٹیں بنایا کرتے اور ان پر پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے۔ فوج کو تو سمجھ آ گئی کہ ریاست کا دوست کون ہے اور دشمن کون ہے مگر موصوف کو ابھی بہت کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اپنے تئیں بڑا شکتی کپور، امریش پوری اور سلطا ن راہی بننے کی کوشش کی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف جب دو روز کے لئے ہی پکڑے گئے تو تیسرے روز ہی ٹی وی پر بیٹھ کے ملکہ جذبات بن گئے تھے، اپنے ٹسووں سے مینا کماری اور نئیر سلطانہ کو شرمانے لگے تھے۔ یہ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو صحافیوں کو گولیاں مرواتے ہیں، انہیں نوکریوں سے نکلواتے ہیں، انہیں غائب کرواتے ہیں، ان کے گھروں میں گھس کے انہیں مرواتے ہیں مگر انہیں اپوزیشن میں بھی خدا کا خوف نہیں آتا، یہ تب بھی انہیں گالیاں پڑواتے ہیں، ان کی لسٹیں بنواتے ہیں لیکن جب خودکسی لسٹ میں آ کے گرفتار ہوتے ہیں تو پھر ایسے روتے ہیں کہ چپ ہی نہیں ہوتے۔
صحافی، وہ طبقہ ہوتا ہے جس کے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہوتی ہے اوراس کی بنیاد پر وہ کوئی رائے قائم کرتا ہے۔ آپ اس کی رائے سے اتفاق بھی کر سکتے ہیں اور اختلاف بھی اور یہی جمہوریت کا حسن ہے مگر آپ اختلاف کرنے پر دھمکیاں نہیں دے سکتے۔ اپنے کتے ان پر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ ان کا پرانا طریقہ واردات ہے کہ لوگوں کو ڈراؤ، انہیں بیک فٹ پر لے جاؤ لیکن اب ایسا کرنے والے کے ساتھ وہی ہوگا جو آئینی اور جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے۔ یقینی طور پر ہمیں عدلیہ کی آزادی اور فعالیت کا انتظار ہے۔
جس روز ہماری عدلیہ نے ایسی دھمکیوں پر فوری کارروائی شروع کر دی یہ لوگ جرمانوں میں اپنے کپڑے تک بیچ کے بھاگ جائیں گے جیسے ان کا محبوب چینل کہیں پابندیاں لگوا چکا ہے او رکہیں جرمانے د ے دے کے پھاوا ہوچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر سیاسی جماعت صحافیوں کی لسٹیں تیار کرے گی اور اسے جاری کرے گی۔ فواد چوہدری اگر کسی مہذب ریاست میں سیاست کر رہا ہوتا تواس وقت تک وہ ریاستی، سیاسی اور سماجی دباو پر مستعفی اور ریٹائر ہونے کا اعلان کرچکا ہوتا مگر افسوس ہمارے ہاں ہر بدمعاشی، ہر ظلم اور ہر کرپشن سیاسی رہنما کے تاج کا ایک اور پر ہے۔
اس کے اندھے مقلد اس دھمکی پر اسے سراہ رہے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ آج سپریم کورٹ کے محافظ بننے والے یہی سب کے سب گذشتہ برس اپریل کے مہینے میں معزز عدالتوں کے بارے جو کچھ کہہ رہے تھے اس کو نقل بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میری قومی سالمیت کے ذمے دار ادارے سے درخواست ہے کہ وہ فواد چوہدری کی لسٹ بغیر کسی تاخیر کے پھاڑ دے۔