Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Governor Hai Aik Bhala Sa

Governor Hai Aik Bhala Sa

ملک کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر انجینئر بلیغ الرحمان سے جہاں بھی ملاقات ہوئی، چاہے وہ انجمن آرائیاں کے سربراہ میاں سعید کے ڈیرے پر ہو یا ہمارے دوست ڈاکٹر سعید الٰہی کی دعوت افطار پر، رمضان المبارک سے ہی الوداعی تقریریں کر رہے ہیں۔ معاملہ یوں ہے کہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت قرار پایا ہے کہ پنجاب کی گورنری کسی جیالے کو ملے گی۔

پیپلزپارٹی کی طرف سے جتنے بھی نام سامنے آئے جیسے جنوبی پنجاب والے احمد محمود یا لالہ موسیٰ والے کائرہ صاحب، لگتا ہے ان پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ خبریں تو یہ بھی گرم ہیں کہ پیپلز پارٹی کو آمادہ کیا جا رہا ہے کہ وہ وزارتیں بھی سنبھال لے یعنی جب اقتدار میں شراکت کی ہے تو پوری طرح کرے تاکہ دوسرے درجے کی قیادت کو بھی کچھ حصہ وصہ مل سکے۔

اب کالم کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ صدر صاحب کی توجہ فٹا فٹ جیالاگورنر لانے کی طرف دلائی جائے بلکہ ڈھکا چھپا مقصد یہ بھی ہے کہ ایک بھلا سا آدمی گورنر ہے تو اسے ہی رہنے دیں۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ بلیغ الرحمان کیسے گورنر ہیں تو میرا جٹکا جواب تھا کہ جیسے کامران ٹیسوری نہیں ہیں۔ پنجاب کے گورنر کی صورت دیکھتے ہیں ان کی شرافت کی گواہی دینے کو دل کرتا ہے اور یہ اس وقت مزید واجب ہوگئی ہے جب ان کی امامت میں نماز ادا کر لی۔

میں بات کر رہا تھا کہ گورنر پنجاب آج کل جہاں جاتے ہیں وہاں الوداعی تقریر شروع کر دیتے ہیں حالانکہ ایسی تقریریں وہ گورنر ہاؤس سے جانے کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔ وہ اتنی تفصیل سے تعلیمی اداروں میں مستحق طلبا و طالبات کے لئے کئے گئے اقدامات بتاتے ہیں کہ وہ اداروں کے ناموں کے ساتھ لکھنا شروع کر دوں تو کالم اسی میں ختم ہوجائے۔ یقین رکھیں کہ وہ بھلے آدمی ہیں تو بھلے اقدامات ہی کئے ہوں گے، ہاں، ایک ایشو ہم لوگ ان کے سامنے ضرور اٹھاتے ہیں کہ پنجاب کی جامعات کو میرٹ پر فل ٹائم وائس چانسلرز دے دیں۔

میرا مشاہدہ ہے کہ ایڈہاک ازم سے ادارے تباہ ہوتے ہیں کیونکہ کوئی بھی عارضی سربراہ ٹھوس اقدامات نہیں کرسکتا اور جب آپ کا وائس چانسلر عارضی ہوتا ہے نیچے پرووائس چانسلر سے کنٹرولر وغیرہ وغیرہ بھی عارضی ہی ہوجاتے ہیں۔ سابق حکومت یونیورسٹیاں تو بناتی رہی مگر ان کی انتظامیہ نہیں بنائی۔ خیر بنائی تو انہوں نے عمارتیں بھی نہیں تھیں کہ ہر ضلعے کے پوسٹ گریجوایٹ کالج کو یونیورسٹی بنا دیا۔

میں نے ایک مرتبہ اس دور کے وزیر تعلیم کو پوچھا تو ان کا مؤقف تھا کہ ادارے بنا دیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتے چلے جائیں گے مگر عملی صورت یہ بنی کہ ایسے اداروں کے ذریعے بچوں کے مستقبل کے سے کھیلا جانے لگا۔ بہرحال، بات ہو ر ہی ہے گورنر صاحب کی تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اس سلسلے میں آل ان آل نہیں ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک تفصیلی خط پنجاب کی حکومت کو لکھا ہے جسے انگریزی اخباروں نے تفصیل کے ساتھ شائع بھی کیا کیونکہ اردو اخبارات کے پاس جینوئن ایشوز کے مقابلے میں چٹ پٹے بیانات زیادہ ہوتے ہیں۔ جامعات کی سربراہی سے زیادہ دلچسپ شیر افضل مروت کے بیانات ہوتے ہیں۔

مسلم لیگ نون کے لگائے ہوئے دو گورنر تو باغی ہوگئے یعنی میاں اظہر اور سردار ذوالفقار کھوسہ مگرگمان ہے کہ بلیغ الرحمان نہیں ہوں گے۔ میاں نواز شریف کا مسئلہ ہے کہ وہ جسے عہدہ دیتے ہیں وہ عہدے سے ہٹنے کے بعد اچانک دانشور بن جاتا ہے جیسے ہمارے سابق صحافی دوست مشاہد حسین سید۔ ویسے اس میں مثالیں جاوید ہاشمی، شاہد خاقان اور چوہدری نثار وغیرہ وغیرہ کی بھی ہیں۔ اب مسئلہ کہاں ہے وہ مجھے علم نہیں۔

گورنر بلیغ الرحمان کا دور ویسے تو کمال شانتی سے گزرا مگر اس دوران ایچی سن کالج والے معاملے پر ضرور انہیں سوشل میڈیا کے پریشر کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ اسے ان کی گورنری کا واحد سکینڈل، کہہ سکتے ہیں جس میں میری تحقیق کے مطابق اصل کردار احد چیمہ کا رہا۔ اچھے خاصے مالدار آدمی ہیں، انہیں چاہئے تھا کہ وہ واجب الادا فیسیں معاف نہ کرواتے۔ وزیرا طلاعات عطا تارڑ نے بھی ان کا مقدمہ لڑا اور کہا کہ جب ان کے بچے وہاں پڑھتے ہی نہیں تھے تو فیس کہاں کی دیتے۔ یہ آدھا سچ تھا۔ یہ درست کہ بچے تین برس پہلے والدہ کی اسلام آباد ٹرانسفر کے ساتھ ہی شفٹ ہو گئے تھے مگر دوسری طرف ان کی سیٹیں روکی گئی تھیں۔

ایچی سن میں امیروں اور طاقتوروں کے بچے پڑھتے ہیں جو اکثر دوسرے ممالک بھی جاتے رہتے ہیں اور کئی مرتبہ تو برسوں کے لئے۔ ایچی سن کالج کا قاعدہ ہے کہ اگر کوئی اپنی سیٹ روکتا ہے تو اس کی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ کئی اداروں میں دس فیصد سے پچاس فیصد فیس کا طریقہ بھی موجود ہے مگر ایچی سن مکمل فیس لیتا ہے یا سیٹ چھوڑنی پڑتی ہے تاکہ کوئی دوسرا داخلہ لے اور پیسے دے۔

سچ بات تو یہ ہے کہ یہ معاملہ احد چیمہ کے اکھڑ مزاج کی وجہ سے بھی خراب ہوا اور دوسری طرف ایچی سن کالج کے پرنسپل بھی یہاں پی ٹی آئی کی سیاست کھیل گئے۔ یار دوست بتاتے ہیں کہ ایچی سن کالج اس حد تک یوتھیاپے، کے زیر اثر ہے کہ مبینہ طور پر مریم نواز نے وہاں کا وزٹ کرنا تھا مگر ایسا ری ایکشن آیا کہ خدا کی پناہ۔

میرا گورنر پنجاب سے کہنا تھا کہ آپ کے دور کا یہ واحد ایشو بھی میڈیا کی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے بنا۔ سچ تو یہ ہے کہ احد چیمہ کا کوئی کیس تھا ہی نہیں اور اگر کوئی تھا بھی تو وہ اسے پیش نہیں کر سکے۔ حد تو یہ ہے کہ بابر صاحب کا پرانا استعفیٰ بھی اسی میں استعمال ہوگیا اور نون لیگ کے حامی میڈیا کے پا س نہ تو انفارمیشن تھی اور نہ ہی اس پیچیدہ معاملے پر کھیلنے کی اہلیت کہ وہ بتاتا کہ محترم پرنسپل صاحب نے اس معاملے پر کس طرح اپنا تعصب نکالا۔ انہیں تین مرتبہ بلایا گیا مگر وہ ایک مرتبہ بھی نہیں آئے۔ یوں بھی انہوں نے استعفیٰ دے رکھا تھا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ ماضی کی طرح پھر آفر نہیں ہو رہی تو انتقام لے کر چلے گئے۔

ہمارے دوست پروفیسر نعیم مسعود کی اس پر بالکل ایک الگ رائے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبے کا گورنر، ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کا چئیرمین بھی ہوتا ہے، جب اس نے فیس معافی کر دی تو کر دی، اس کے حکم سے بغاوت گویا آئین سے بغاوت ہے۔ میں ا س حد تک تو نہیں جاتا مگر یہ ضرور ہے کہ پرنسپل صاحب نے انتظامی قواعد کو نہ صرف اس معاملے میں بالکل اپنی چھٹیوں وغیرہ پر بھی روندا اور سیاسی کھیل کا حصہ بنے۔

میں پھر کہوں گا کہ بلیغ الرحمان کے وہ معاملات نہیں رہے جو کامران ٹیسوری کے یا غلام علی کے بیان ہوسکتے ہیں۔ اس بھلے آدمی نے گورنر ہاؤس کو ہمارے پرانے دوست عمر سرفراز چیمہ کی طرح استعمال کیا اور نہ ہی جناب لطیف کھوسہ کی طرح، تفصیل رہنے دیں۔