یہ پنجاب یونیورسٹی کے سکول آف کمیونیکشن سٹڈیز کے زیر اہتمام رائے کے اظہار میں توازن پر بین الاقوامی سیمینار تھا، جس کا پہلا سیشن گیریژن یونیورسٹی میں ہوا، میرے خیال میں اس موضوع پر گفتگو روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ سکول آف کمیونیکیشن سٹڈیز کبھی محض ایک جرنلزم ڈپیارٹمنٹ ہوا کرتا تھا، ایک پودا، اب ماشاء اللہ یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے جس کی چارپھولوں اور پھلوں سے بھری شاخیں ہیں۔
اس شعبے کی ترقی میں پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈاکٹر نیاز احمد نے بھی بطور وائس چانسلر بھرپور دلچسپی لی۔ وقت آگے بڑھتا جا رہا ہے، جب میں اس سیمینار میں بات کر رہا تھا تو مثبت اور رجائیت پسند پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر بطور وائس چانسلر الرازی ہال میں موجود تھے، وقت کے ساتھ ساتھ ہم سب بڑے ہوتے جاتے ہیں، افراد بھی ادارے بھی۔ جیسے صحافت کی تعلیم و تدریس کی تاریخ میں سکول آف کمیونیکشن سٹڈیز کی ڈائریکٹر نوشینہ سلیم بہت بڑا اور معتبرنام بن گئی ہیں۔
سیمینار کی روح رواں سیماب بخاری تھیں، ایسے سیمیناروں میں سوشل سائنسزپر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا، یہاں بہت سارے لوگ دوجمع دو پانچ کرکے دکھاتے اور وہی تو جہ لیتے ہیں۔ دو جمع دو، چار بتلا نے والوں کو انقلابی نہیں بلکہ روایتی اورغیر دلچسپ سمجھا جاتا ہے مگر میں کیا کروں کہ دو جمع دو کوچار کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتا۔
سیمینار میں عجیب صورتحال پیدا ہوئی جب اس موقف پر بہت تالیاں بجائی گئیں کہ اداروں کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہئے اورعمران خان کے اس موقف کی ان کا نام لئے بغیر وکالت کی گئی کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں۔ میں لاہور میں رہتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کسی باقاعدہ ڈاکٹر کے بجائے بھاٹی، لوہاری میں سانڈے کے تیل سے آپ کو ستر مردوں کی طاقت دینے کا دعویٰ کرنے والے عطائی آپ کی توجہ زیادہ لیتے ہیں چاہے اس کے نتیجے میں تین دنوں میں ہی آپ کے دل گردے سب فیل ہوجائیں، آہ، مجھے افسوس ہوا کہ ہمارے اساتذہ کے تصورات بھی تضادات لئے ہوئے ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ اگر ہمارے اکیڈیمیا میں ہی تھاٹس کی کلیئرنس نہیں تو سوشل میڈیا اور تھڑوں تک کیسے ہوسکتی ہے۔
بھائی لوگو! اگر تم انقلاب پسند ہو، آئین تمہیں تمام مسائل کی وجہ لگتا ہے، تم اسے ایک قید خانہ سمجھتے ہو اور خود کو آوٹ آف باکس سوچنے سمجھنے والا، تو یہ تمہارے خیالات کی کجی اورمطالعے کی کمی ہے۔ آئین کے بغیر بادشاہت ہوسکتی ہے کوئی وفاقی، پارلیمانی جمہوریت نہیں۔ تم انقلاب کا نعرہ لگاتے ہو مگر انقلابوں نے ہمیشہ خون اورموت دی ہے، بیوائیں اور یتیم چھوڑے ہیں۔ مہذب دنیا نے اس کے مقابلے میں اصلاحات کو اپنایا ہے۔
اگر ہم پاکستان سمیت کسی بھی ریاست میں زندہ بیٹھے ہیں تو اس کی بنیاد بھی آئین ہی ہے، ہاں، یہ بھی ہوا کہ ایک اور صاحب نے داد لینے کے لئے کہا، یہی آئین اور یہی سیاستدان ستر برسوں سے ہیں تو ہمارا یہ حال کیوں ہے تواس کا جواب یہ ہے کہ اس آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے، اپنے سیاستدانوں کو گالی دینے، انہیں پھانسی دینے، جلسوں میں قتل کرنے، جیلوں میں قید کرنے اور بار بار جلاوطن کرنے کی وجہ سے، تم آئین پر عمل تو کر کے دیکھیں، مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے، بقول اقبال، خود بدلتے نہیں قرآن بدل دیتے ہیں، ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق۔
سوال تھا صحافی غیر جانبدار نہیں ہوتے، کیا مولانا ظفر علی خان، حمید نظامی اور شورش کاشمیری غیر جانبدار تھے تو میرا جواب ہے کہ نہیں تھے مگر وہ افراد تھے۔ افراد جذبات اور مفادات رکھتے ہیں سو وہ غیرجانبدار نہیں ہوسکتے مگر ادارے ہمیشہ غیر جانبدار ہوتے ہیں کیونکہ وہ جذبات نہیں اصول و ضوابط کے تحت چلتے ہیں۔ آئین، ریاستوں میں اداروں کی ذمہ داریاں اور حدود طے کرتے ہیں۔
میں نے وہاں نیوٹرلیٹی کے خلاف تالیاں بجانے والوں سے پوچھا کہ کیا لاہور پولیس کا سربراہ ایک اچھا آدمی ہے، وہ محب وطن ہے اور اداروں کی بہتری چاہتا ہے۔ جواب ملا کہ ایسا ہی ہو گا تو میرا سوال تھاکہ کیا تم اسے اجازت دوگے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی تبدیلی کے موقعے پر اپنی فورس کے ساتھ آجائے اور پروفیسر ڈاکٹرسلیم مظہرکی جگہ اپنی مرضی کے کسی بندے کو بٹھا دے کیونکہ اس کا نیوٹرل رہنا برا ہے۔ ہال نے اجازت دینے سے انکار کر دیا مگر اس کے باوجود کچھ سمجھ رہے تھے کہ فوج کو نیوٹرل نہیں ہونا چاہئے۔
میں نے اس اگلی مثال کچھ زیادہ تلخ دی، پوچھا، اگر تمہارا چوکیدار یا ہمسایہ بہت اونچا لمبا، طاقتور اور خوبصورت ہے، اس کے پاس پیسہ بھی بہت ہے اور بااثر بھی ہے۔ کیا اسے اجازت دو گے کہ تمہارے ماں باپ کے جھگڑے میں وہ نیوٹرل نہ رہے اور تمہارے باپ کو نیچے لٹا کے جوتے مارنا شروع کر دے؟
ایک ہوتی ہے زمینی حقیقت اور دوسرے ہوتے ہیں ہمارے عقائد، یہ دونوں ایک ساتھ غلط نہیں ہونے چاہئیں۔ زمینی حقیقت ہے کہ ہمارے ادارے آئینی حدود میں نہیں رہتے تو پھر حال یہی ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے۔ ہم سب وہ لوگ ہیں جو حق صرف اس کو سمجھتے ہیں جو ان کے حق میں ہو جیسے نوکری سے نکالنے کی بات ہوئی اور مقدمات درج کرنے کی بھی۔
میں نے اس کی مذمت کی اور سیمینار میں سوال کیا کہ جب طلعت حسین کو نوکری سے نکلوایا جا رہا تھا، جب مطیع اللہ جان کو بے روزگار کیا جا رہا تھا، جب ابصار عالم کو گولیاں ماری جا رہی تھیں تو یہی لوگ اسے جسٹی فائی کر رہے تھے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ کسی اینکر کو نوکری سے نکلوانا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ اداروں کے مالکان کو دباؤ ڈال کرکٹھ پتلیوں کو کئی کئی ملین تنخواہوں والی نوکریاں دلوانا۔
یہ دانشوارانہ بددیانتی ہم ہی کرسکتے ہیں کہ اگر عمران خان کوالیکٹ ایبلز اور ایم کیو ایم لا کر دئیے جائیں، بلوچستان سے ایک باپ بنا کر دیا جائے تو وہ عین درست ہے لیکن اگر مقتدر حلقے غیر جانبدار ہوکے انہی سیاسی طاقتوں کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کی اجازت دے دیں تو وہ غلط ہے۔ یہ ظلم اور زیادتی ہم جیسے کوتاہ نظر اور کوتاہ عقل ہی کر سکتے ہیں کہ اداروں سے بے شرمی کے ساتھ غیر جانبداری چھوڑنے کا مطالبہ بھی کریں اور اسے الٹی سیدھی مثالوں کے ساتھ انقلاب بھی قرار دیں۔
میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اپنے ملک کی فوج کو تبدیل نہیں کر سکتا، میں اپنے سیاستدانوں کی جگہ دوسرے کسی ملک سے سیاستدانوں کو بھی امپورٹ نہیں کرسکتا مگر اتنا ضرور کر سکتا ہوں کہ اپنے تصورات کی بنیاد درست کرلوں تاکہ میرے نظریات کی عمارت درست تعمیر ہو۔ سچ تویہ ہے کہ ماضی میں فوج سے عدلیہ تک اداروں کے غیرجانبدار نہ ہونے کی وجہ سے ہی آج یہ حالات ہیں۔
میں نکلسن روڈ پر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کے پاس بیٹھا کرتا تھا اور چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے انہیں سنا کرتا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ ایک سیاسی جماعت ناکام ہوجائے تو دوسری سیاسی جماعت آجاتی ہے اور اگر ایک فوج ناکام ہوجائے تو دوسری فوج۔ وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ ایک ملک میں ایک ہی فوج ہوتی ہے اور دوسری فوج ہمیشہ دوسرے ملک کی ہوتی ہے۔
آج ہماری فوج ہماری عشروں کی فکری اور عملی جدوجہد کے بعد غیر جانبدار ہے اور سیاستدانوں سے کہہ رہی ہے کہ اپنے اپنے زور بازو سے لڑ لو، جو جیتے وہ اقتدار میں آجائے۔ ہمارے بازو اور ہماری بندوقیں اپنی قوم سے لڑنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ دشمن کے لئے ہیں تو ہم کتنے بڑے احمق اور بے شرم ہیں کہ کہہ رہے ہیں ایسا مت کرو، غیر جانبدار مت ہو، بندے اٹھاؤ اورمجھے حکومت بنا کے دو۔