Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Hamza Shahbaz Ba Muqabla Usman Buzdar

Hamza Shahbaz Ba Muqabla Usman Buzdar

وزیراعلیٰ ولد وزیراعظم، کہنے کو یہ ایک اعزاز بھی ہے اور ایک چیلنج بھی، بارہ کروڑ آبادی کے صوبے کا چیف ایڈمنسٹریٹر ہونا اور ڈیلیور کرنا جب آپ کے سامنے آپ کے والد کا ایک مثالی طرز حکمرانی بھی موجود ہواور لوگ آپ سے توقع کر رہے ہوں کہ آپ اپنے والد سے بہتر پرفارم کریں گے مگر یوں ہو کہ اچانک مرغی کا ریٹ پونے پانچ سو روپے کلو پر پہنچ جائے تو لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔

وہ پوچھتے ہیں کہ حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بنتے ہی مرغی اتنی مہنگی کیوں ہوگئی۔ وہ ان کے مخالفین کے پروپیگنڈے کو یاد کرتے ہیں کہ حمزہ شہباز کا اپنا پولٹری کا کاروبار ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ حمزہ شہباز کا اس کاروبار کے اندر کبھی کوئی بڑا شئیر نہیں رہا مگر یہ سچ لوگو ں تک اس وقت پہنچے گا جب پہنچایا جائے گا، وہ تسمے باند ھ رہا ہو گا اور اس وقت تک جھوٹ پورے شہر کا چکر لگا کر واپس آ چکا ہو گا۔

میں نے پولٹری بزنس کے ذمے داروں سے پوچھا تو علم ہوا کہ اس وقت گندم کی کٹائی کا سیزن شروع ہو چکا ہے۔ یہ سیزن ہمیشہ سے پولٹری کے کاروبار کے لئے بھاری رہا ہے۔ فارمز کے پاس ہونے والی کٹائی نرم و نازک برائلر مرغی کی کی سانس کی بیماریاں پیدا کردیتی ہے۔ وہ مرنے لگتی ہے اور یہ معاملہ جون میں جا کر پھر سنبھلتا ہے۔

اسی طرح عید سے پہلے جب برائلر مرغی کا ریٹ کنٹرول رہا تو فارمر کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے سمجھا کہ ریٹ اوپر نہیں جائے گا لہٰذا عید پر زیادہ تر فارمز نے مرغی ریلیز کر دی۔ اب بیشتر فارمز خالی پڑے ہیں اور مرغی کی سپلائی کا ایشو بن رہا ہے۔ تیسرا ایشو یہ ہے کہ فیڈ کی وہ بوری جو دو، اڑھائی برس پہلے بائیس سو روپے کی تھی اس وقت پانچ ہزار کے قریب پہنچی ہوئی ہے۔

فارمنگ اورپروڈکشن کے ریٹس بہت بڑھ گئے ہیں تو لامحالہ اس کا اثر قیمت پر بھی آئے گا مگر یہ سب باتیں عوام کومعلوم نہیں ہیں۔ ان کو صرف اتنا علم ہے کہ وہ مرغی جو حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے سوا تین سے ساڑھے تین سو روپے کلو تھی اس کی قیمت پونے پانچ سور وپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔

یہ درست بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا طریق کار اتنی جلدی نہیں بدلا جا سکتا مگر پیاز کی قیمت راکٹ کی سپیڈ سے آسمان کی طرف جائے تو اس کا کیا جواز ہے۔ اسی کے ساتھ تباہ کن خبر ہے کہ آٹے کے نرخوں میں بھی پورے 210 روپوں کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وہ آٹا جو کنٹرول ریٹ پر 1100روپے میں 20کلو فراہم کیا جا رہا تھا اس کے نئے ریٹ 1310 روپے ہوں گے۔

یہ آٹا 55روپے کلو تھا مگر اب یہ 65 روپے سے بھی کچھ اوپر ہی میں ایک کلو ملے گا۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ وہ کم معیار کا آٹا ہے جسے بہت سارے لوگ کھانا ہی پسند نہیں کرتے۔ عام مارکیٹ میں فلور ملز والوں نے پہلے ہی پندرہ روپے کلو کا نیا تھیلا متعارف کروا رکھا ہے جسے بہتر کوالٹی کا آٹا کہا جاتا ہے۔ اس کا ریٹ 1170 روپے تھا یعنی کوئی 78 روپے کلو۔

میرا خیال ہے کہ اس کاریٹ بھی بڑھ جائے گا۔ آپ فلور ملز ایسوسی ایشن والوں سے بات کریں تووہ اسے جسٹیفائی کریں گے۔ ان کے پاس سب سے بڑا جواز سرکاری گندم کی عدم فراہمی ہے جس کی وجہ سے انہیں اوپن مارکیٹ سے مہنگی گندم خریدنی پڑ رہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ سرکاری گندم کیوں فراہم نہیں ہورہی اور کیا اس کی مینجمنٹ نہیں تھی کہ نئی گندم آنے تک پرانی چلے۔

میں پھر یہی کہوں گاکہ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ گندم سرکاری ہے یا غیر سرکاری، انہیں غرض بیس کلوا ٓٹے کے تھیلے کی قیمت سے ہے جو اکٹھی دو سو دس روپے بڑھا دی گئی ہے اور یہ کام حمزہ شہباز کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ہوا ہے۔

مرغی، آٹے اور پیاز ہی نہیں بلکہ گاڑیوں اور موٹڑسائیکلوں کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ایک موٹرسائیکل کمپنی جس کی معیاری سیونٹی سی سی موٹرسائیکل بہت مقبول ہے وہ قیمت کو ایک لاکھ روپوں سے بھی اوپر لے گئی ہے، ایک لاکھ دو ہزار نو سو روپے، اگر آپ اس میں رجسٹریشن اور کچھ چھوٹی موٹی آلٹریشن کروانا چاہیں توکئی ہزار روپے مزید درکار ہوں گے۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ موٹرسائیکلوں کی قیمتیں صوبائی معاملہ نہیں ہیں مگر کیا کہا جائے کہ پنجاب کے عوام کی اکثریت سواری کیلئے موٹرسائیکل ہی استعمال کرتی ہے۔ خیال کیا جار ہا تھا کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی حکومتیں قائم ہونے کے بعد مافیاوں کوتھوڑا بہت ڈر محسوس ہو گا، وہ قیمتوں میں اضافے کو روکیں گے بلکہ خیال تو یہ کیا جا رہا تھا کہ گھی اور ادویات وغیرہ کی قیمتیں کچھ کم ہوں گے، نیچے آئیں گی مگر یہ خیال محض خیال ہی رہ گئے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں حکومت پر تنقید کرنے میں جلدی کر رہا ہوں۔ ابھی تو گورنر پنجاب کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کابینہ بھی تشکیل نہیں پائی اور حمزہ شہباز کیا جن ہے کہ تمام معاملات کا خود نوٹس لے کر انہیں حل کرتا پھرے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اشیا کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔

یہ درست ہے کہ باقاعدہ کابینہ موجود نہیں مگر بہرحال نواز لیگ کے پاس ہر شعبے کے ماہرین موجود ہیں۔ انہیں آگے لانا ہو گا، رابطے کرنے ہوں گے۔ دلیل دی جاتی ہے کہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دوران حمزہ شہباز ہی ڈپٹی چیف منسٹر تھے، وہ تمام سیاسی اورانتظامی معاملات کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ میں یہی کہوں گا کہ اگر حمزہ شہباز بطور وزیراعلیٰ شروع میں اپنا امپریشن ڈالنے میں ناکام ہوگئے تو وہ پھر کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔

یہ مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ امپریشن اور اعصاب کی جنگ ہے۔ انہیں مافیاؤں کو ڈرانا ہو گا، نکیل ڈالنی ہو گی مگر دوسری طرف حمزہ شہباز کی ایسی ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں جن مختلف لوگ ان کے ہاتھ چوم رہے ہیں۔ یہ بات حیرت انگیز ہے جیسے وہ وزیراعلیٰ نہیں بلکہ پیر بنے ہوں، نجانے وہ کن کاموں میں لگ گئے ہیں۔ انہیں اپنا ہاتھ ملانے کا انداز بھی بدلنا ہوگا، یہ اوپر سے ہاتھ لا کر پنچہ ٹچ کرلینا کسی طور پر بھی ایک عوامی یا مخلصانہ مصافحہ نہیں سمجھا جاتا۔ انہیں اپنے اس امپریشن کو درست کرنا ہوگا کہ وہ سڑیل قسم کے بندے ہیں۔

یہ بھی سنا جا رہا ہے کہ ان کے ارد ایسے لوگوں کاجمگھٹا لگ گیا ہے جو خوشامد میں بہت کمال رکھتے ہیں اور سابق وزیراعلیٰ کے بھی قریب تھے، ان کا روٹ وہ لوگ بتائے جا رہے ہیں جنہوں نے مسلم لیگ نون سے باہر حمزہ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کی راہ ہموار کی ہے۔

میں نے کچھ لوگوں سے بات کی تو یہ تبصرہ بھی سننے کو ملا کہ حمزہ شہباز اور عثمان بزدار میں کوئی فرق سامنے نہیں آ رہا سو میری نظر میں یہ ساری ڈویلپمنٹس اور اطلاعات پنجاب اوراس کے عوام کے لئے کچھ اچھی نہیں ہیں۔ اگر ہمیں حمزہ شہباز کی صورت میں ایک اور عثمان بزدار مل گیا تو وزیراعلیٰ ولد وزیراعظم، ایک اعزاز اور سہولت بننے کے بجائے گلے پڑ جائے گا۔

کیپ ان مائنڈ، فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن، دیٹس آل۔