میں وہی ہوں جو آج سے چند روز قبل جب ہر کوئی اعتراض کر رہا تھا کہ والد وزیراعظم ہو گا اور بیٹا وزیراعلیٰ، کیا شریف فیملی کے باہر کوئی نہیں جو پنجاب کی وزارت اعلیٰ سنبھال سکے تو آپ کا مقدمہ لڑ رہا تھا۔ میں بتا رہا تھا کہ آپ کی پارٹی نے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا تھا مگر انہوں نے عمران خان کے ساتھ جانے کو اپنے لئے بہتر سمجھا سو یہ ضروری تھا کہ پنجاب سے ان کے مقابلے میں ایک مضبوط امیدوار دیا جاتا۔
میں کہہ رہا تھا کہ جدوجہد، استقامت، تجربے، قربانی اور جیل سمیت کوئی بھی میرٹ بنا لیا جائے توشائد ہی کوئی ایسا ہو جو حمزہ شہباز سے بہتر امیدوار قراردیا جا سکے مگر میں سوچ بھی سکتا نہیں تھا کہ آپ پنجاب اسمبلی کے مقدس ایوان کو پولیس کے گندے بوٹوں سے روند کر اس طرح وزیراعلیٰ بنیں گے جس طریقے سے آج تک کوئی نہیں بنا۔
میں مانتا ہوں کہ چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی قیادت میں ارکان سخت مزاحمت کررہے تھے اور یہ بھی کہ ان ارکان نے ہفتے کی صبح انہوں نے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پر حملہ کیا تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ وہ انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈال رہے تھے کیونکہ ان کے پاس نمبر پورے نہیں تھے مگر کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ پولیس کو ایوان کے اندر داخل کر دیا جاتا۔
آپ نے اپنے انتخاب کویقینی بنانے کے لئے وہ بدترین روایت قائم کر دی ہے کہ اب ایوان کے اندر ہر احتجاج پر پولیس ہی آیا کرے گی۔ ارکان اسمبلی کی تشریفوں پر اسی طرح جوتے برسایا کرے گی جس طرح وہ سڑکوں اور حوالاتوں میں عوام پر برساتی ہے۔ میں نے نہ سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہوں اور نہ ہی آپ کا جذباتی کارکن کہ آپ کی ہر غلط بات پر واہ واہ کرتا رہوں۔
میں ایک صحافی ہوں اور ارکان کی تعداد کے حوالے سے پاکستان کے سب سے بڑے جمہوری ایوان کی پریس گیلری کا دو برس سیکرٹری اور پھر دو برس تک صدر رہا ہوں۔ میں نے آج تک پنجاب اسمبلی میں ہونے والے بڑے بڑے احتجاج دیکھے ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں اس وقت کی اپوزیشن نے ایل ایف او کے اوپر جو احتجاج کیا تھا اس کا اپنی طوالت کے حوالے سے ایک ریکارڈ تھا۔ اس وقت اپوزیشن لیڈر پیپلزپارٹی کے قاسم ضیا اور ڈپٹی اپوزیشن لیڈر آپ کے رانا ثناء اللہ خان ہوا کرتے تھے۔ انہی چوہدری پرویز الٰہی صاحب نے ارکان کا ایوان میں داخلہ بند کر دیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر افضل ساہی اور پنجاب کے سیکرٹری داخلہ وہ بریگیڈئیر صاحب ہوا کرتے تھے جو پی ٹی آئی کا حصہ بن گئے۔ میں نے دیکھا تھا کہ دو، اڑھائی گھنٹوں تک اپوزیشن ارکان کی جیب کو کڑی دھوپ میں ہی کھڑا رکھا گیا تھا مگراس دور میں بھی پولیس ایوان تو کیا اسمبلی کی بلڈنگ میں بھی داخل نہیں ہوئی تھی۔
پنجاب اسمبلی کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جہاں میڈیا کیمپ ہے، یہ حصہ عمارت سے باہر ہے۔ دوسراحصہ خود عمارت ہے جس میں سپیکر اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ وزرا کو کمرے الاٹ کئے جاتے ہیں۔ تیسرا اور سب سے اہم، محفوظ اور مقدس حصہ ایوان ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ اس حصے کو بھی مقدس نہ سمجھتے ہوں کہ وہ پراکسیاں یعنی جعلی حاضریاں لگتی ہیں اور جھوٹ بول کر تنخواہیں وصول کی جاتی ہیں جواخلاقی طور پر غلط اور شرعی طور پر حرام ہے۔
بہت سارے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمارے یہ ایوان محض طاقت ور اشرافیاؤں کی کٹھ پتلیاں ہیں جہاں منتخب ارکان محض قوانین پر انگوٹھے لگانے کے لئے جاتے ہیں اور ان میں بہت سارے دھونس اور دھاندلی سے جیت کے آتے ہیں۔ بہرحال یہ ساری بحثیں اس وقت غیر ضروری ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ میں نے عشروں پر مشتمل پارلیمانی رپورٹنگ کے دوران کبھی پولیس کو اسمبلی کی عمارت کے اندر بھی نہیں دیکھا مگر اس مرتبہ بڑے بڑے بوٹ پہنے پولیس والے دندناتے ہوئے ایوان میں پہنچے اور ارکان اسمبلی کو گرفتار کر لیا، یہ کام مارشل لاؤں میں بھی نہیں ہوا۔
میں جانتا ہوں کہ آپ کی پارٹی کے پیڈ اور ان پیڈ ٹرولز سوا ل کر رہے ہیں کہ اس کے سواکون سا راستہ تھا۔ اس کے سوا وہی راستہ تھا جس پر چل کر آج تک آپ سرخرو تھے، یہ جبر کے مقابلے میں صبر کا راستہ تھا حالانکہ آپ کے انتخاب کی دوسری فالٹ لائن یہ ہے کہ آپ اپنے انتخاب کے لئے لوٹوں پر بھروسہ کر رہے ہیں اور یہ اگر آئین، قانون، ضوابط اور سیاسی اخلاقیات کی بات کی جائے تو ان لوگوں کو وفاداری تبدیل کرنے سے پہلے مستعفی ہونا چاہیے اور نیا مینڈیٹ لے کر ایوان میں آنا چاہئے۔
میں یہاں چوہدری پرویز الٰہی کا مقدمہ نہیں لڑ رہا جو اس پوری جنگ میں اپنے خاندان کی بہت ساری روایات ہار گئے ہیں۔ وہ بڑے دل اور بڑے ظرف والے مشہور تھے مگر انہوں نے اس لڑائی میں بہت بہت چھوٹی چھوٹی حرکتیں کی ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی جانتے تھے کہ ان کے پاس اکثریت کا اعتماد نہیں ہے مگروہ انتخاب روکنے کے لئے چھوٹی اور نیچی حرکتیں کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ صرف لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی عدالت میں شکست ہوئی بلکہ بعد ازاں جب وہ اس کے خلاف اپیل میں گئے تو وہاں بھی ہزیمت اٹھانی پڑی۔
یقین کیجئے ڈپٹی سپیکر پر حملے تک پی ٹی آئی صریح خسارے میں تھی مگر آپ کے ساتھ مل جانے والے ڈپٹی سپیکر نے اس کے بعدسب کچھ بدل دیا۔ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ چوہدری پرویز الٰہی کا بازو نہیں ٹوٹا اور سوال کر رہے ہیں کہ اگر ٹوٹا ہے تو وہ اسے ہلا کیسے رہے ہیں۔ یہ بات درست لگتی ہے کہ فریکچر نہیں ہوا مگر یہ بات بھی درست ہے کہ ان کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے گویا جو کام پی ٹی آئی نے ڈپٹی سپیکر کے ساتھ کیا تھا وہی کام آپ کے ارکان نے پرویز الٰہی کے ساتھ کر دیا۔
یہ وہی پرویز الٰہی ہے جس نے آپ کو پرویزمشرف کے دور میں بہت ریلیکس رکھا اور یہی وہ پرویز الٰہی ہے جو آپ کو اور خواجہ سلمان رفیق سمیت دیگر کو جیل کے دنوں میں پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی بلوا کر موجیں کروایا کرتا تھا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کے حامی آپ کو مبارکبادیں دے رہے ہیں کہ آپ نے کمال کر دیا، مخالفین کو ایسا ہی جواب دینا چاہئے تھا۔
پولیس کے ذریعے ان کے دماغ درست کر دئیے گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان باتوں سے خوش ہو رہے ہیں تو نہ آپ نے پرویز مشرف کے مارشل لا سے کچھ سیکھا ہے اور نہ ہی عمران خان کی جنونی حکومت کی انتقامی کارروائیوں سے۔
کیا برا ہوتا اگر ہفتے کا دن بھی اسی طرح گزر جاتا تھا۔ وقت کا پہیہ اپنا چکر کاٹ چکا ہے۔ اس وقت عدالتیں آپ کے لئے رات بارہ بجے بھی کھل رہی ہیں اور مخالفین کی رٹیں دھڑا دھڑ مسترد ہو رہی ہیں۔ یہ تو دیوار پر لکھا ہوا تھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ آپ ہی بنیں گے مگر کیا حرج تھا کہ آپ سولہ اپریل کو نہ بنتے، اٹھارہ بیس یا بائیس اپریل کو بن جاتے مگر پنجاب کی پارلیمانی تاریخ کا سیاہ ترین باب اپنے انتخاب کا عنوان نہ بناتے۔
میری یہ تحریر سوشل میڈیا کے لونڈے لپاڈوں کے لئے نہیں ہے مگر وہ ضرور غور کریں جو پارلیمانی جمہوریت کا مقدمہ لڑتے رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ میں پنجاب کے ایک بڑے سیاسی کارکن کو وزیراعلیٰ بننے پر مبارکباد دوں گا اور امید ظاہر کروں گا کہ بہت جلد آپ کسی دوسری پارٹی کے لوٹوں کے بغیر پنجاب میں اپنا اقتدار قائم کریں گے۔
میں امید ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ آپ اپنے والد کی طرح صوبے میں تعمیر و ترقی کے نقیب ثابت ہوں گے مگر مبارکباد کے الفاظ پولیس کے بڑے بڑے بوٹوں تلے کچلے جا رہے ہیں، کراہ رہے ہیں، دم توڑ رہے ہیں۔