پی ٹی آئی کی حکومت کاکمال ہے کہ یہ ہر شعبے کوجائز ناجائز کی تمیز کے بغیر کمانے بلکہ لوٹنے کاشاندارموقع دے رہی ہے جیسے پٹرول مافیا کو، میڈیسن مافیا کو، آٹامافیا کو، گھی مافیا کو اور شوگرمافیا کو۔ مجھے اس معاشی پالیسی نے بہت متاثر کیا ہے کہ اگرہر کسی کو ہی لوٹ مار کی کھلی اجازت دے دی جائے توکسی کو بھی کسی دوسرے کی لوٹ مار کی شکایت نہیں رہے گی کہ جب اسے شکایت ہو گی تو وہ اس پر شور مچانے کی بجائے خود لوٹ مار کے نئے نئے طریقے سوچنے لگے گا جس سے اس کی مال بنانے کی تخلیقی صلاحیتیں بھی فروغ پائیں گی۔ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پٹرول بارہ روپے اور ڈیزل ساڑھے نو روپے تک مہنگا کرنے کی سفارش آچکی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں کم ہی ایسی حکومتیں آئی ہیں جنہوں نے عوام کی جبلی اور فطری صلاحیتوں میں اضافے کے لئے اتنا سوچا ہو، اتنا کام کیا ہو۔ ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ جب موت سامنے نظر آ رہی ہو تو زندگی بچانے کی صلاحیتیں عروج پر ہوتی ہیں۔
میں نے پاکستان شوگرملز ایسوسی ایشن کا اشتہار دیکھا جس میں انہوں نے چینی کی قیمتیں بڑھنے کی ذمے داری حکومت پر عائد کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ کسانوں سے شوگر انڈسٹری تک کسی سے مشاورت تک کی زحمت نہیں کی گئی۔ میں نے معاملے کی تحقیق کی تو علم ہوا کہ شوگر انڈسٹری میں حکومت کی لوٹ مار کی اجازت کی سنہری پالیسی عروج پر دکھائی دیتی ہے جس میں چینی کی صنعت سے وابستہ ہر بندے کو مال بنانے کی کھلی چھٹی صاف نظر آ رہی ہے۔ چینی کی مارکیٹ میں قیمت ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ سو روپے کی طرف گامزن ہے اور کئی جگہوں پر یہ ٹارگٹ حاصل بھی کیا جا چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مال بنانے میں اس مرتبہ کسان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں جو عشروں سے گنے کی قیمت کم ہونے اور شوگر ملز کی طرف سے پیسے ادا نہ کرنے پر شورمچاتے رہے ہیں اوراس کے بعد شوگرملز ہیں جو من مانی قیمت پر سپلائی کرتی ہیں اور تیسرے نمبر پر تاجر بھی مال بنا رہے ہیں۔ میری آنکھیں حکومت کی اس دریا دلی پر نم ہیں اور دل تشکر کے جذبات سے بھرا ہوا ہے۔
بات کوترتیب سے کرتے ہیں، سب سے پہلے حکومت نے گنے کی قیمت دو سو روپے من مقرر کی ہے مگر شوگرملز کو یہ گنا اس وقت سندھ میں تین سو روپے اور جنوبی پنجاب میں پونے تین سو روپے تک مل رہا ہے اورامید کی جا رہی ہے کہ قیمت کچھ مزید بڑھ سکتی ہے۔ وہ کسان جو کہتے تھے کہ شوگرملز برسوں تک ادائیگی نہیں کرتیں اب وہ اپنی ٹرالی ایک شوگر مل کے دروازے پر لاتے ہیں اورشک ہوتا ہے کہ گنا ان لوڈ کرنے سے پہلے پیسے نہیں ملیں گے یا ریٹ پانچ روپے بھی کم ہوجائے گا تو وہ ٹرالی بھگاتے ہوئے پچیس پچاس کلومیٹر دور دوسری مل میں لے جاتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس میں دو، تین برسوں سے کسانوں کے ساتھ ساتھ مڈل مین کی دیہاڑیاں بھی لگ رہی ہیں اور حکومت خاموش تماشائی ہے۔ ویسے حکومت خیبرپختونخوا میں اس پر بھی خاموش ہے کہ جہاں گنا شوگر ملز کو دینے کی بجائے گڑ بنانے کو ترجیح دی جا رہی ہے اورپھر اس کی افغانستان سمیت دیگر ممالک کو سمگلنگ بھی جاری ہے جو عین کسان کے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں کے مفاد میں ہے جو ریٹائرمنٹ کے بعد اچھے مستقبل کا حق رکھتے ہیں۔ یہاں ایک بہت سادہ سے سوال کیا جاتا ہے کہ اگر کسان کو گنے کی قیمت ہی نہیں مل رہی تو ہر برس اس کی کاشت کا علاقہ کیوں بڑھ رہا ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ کپاس سمیت دیگر فصلیں تباہی کا شکار ہیں۔
دوسرے نمبر پر شوگرملز ہیں جن کا کہنا ہے کہ حکومت یعنی کین کمشنر نے قبل از وقت کرشنگ شروع کروا دی یعنی نومبر کے وسط میں، وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ کچا گنا کاٹنے سے تین لاکھ میٹرک ٹن کم چینی پیدا ہو گی مگر دوسری طرف اعداد و شمار کے مطابق اس مرتبہ پہلے سے کئی لاکھ میٹرک ٹن اضافی چینی کی پیداوار متوقع ہے۔ شوگر ملز کا کہنا ہے کہ اگر گنا دو سو روپے من ہو تو وہ ستاسی سے اٹھاسی روپے ایکس مل ریٹ پر چینی پروڈیوس کرسکتے ہیں جبکہ وزارت صنعت و پیداوار کے مطابق یہ خرچ اسی روپوں سے بھی کم ہے اور یہی شوگرملزعدالت میں بہتر روپے فی کلو بیچنے کی یقین دہانی کروا کے آچکی ہیں۔ میرے سینئر اکنامک رپورٹر دوست اشرف مہتاب قہقہہ لگا کے کہتے ہیں کہ کیا حکومت نے اب تک کسی شوگرمل مالک کو ایک سو دس روپے کلو تک چینی فروخت ہونے پر گرفتار کیا، ہرگز نہیں، اس کامطلب یہ ہوا کہ حکومت شوگرملز کے ساتھ مکمل کوارڈی نیشن میں ہے اور یہ اشتہار اصل میں چینی کی قیمت تین سو پچیس روپے من گنا ہونے پر عام مارکیٹ میں ڈیڑھ سو روپے تک لے جانے کی تیاری ہے یعنی لوٹ مار کے اگلے سیشن کا آغاز ہونے والا ہے۔ حکومت نے نہ صرف سوا سو ارب کے ڈاکے پر سوال نہیں پوچھا بلکہ وہ اب بھی شوگرملز کو گنے میں موجود شکر یعنی گنے کی کوالٹی کے مطابق قیمت دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرواتی نظر نہیں آتی یعنی شوگر ملز کو بھی کمانے کی مکمل اجازت ہے۔
کسان رہنما رانامحمد ظفر طاہر سے بات ہوئی تو وہ اعداد و شمار سے ثابت کر رہے تھے کہ چینی کی پیداواری لاگت کسی صورت بھی پینسٹھ روپے کلو سے زیادہ نہیں ہے کہ شوگر ملز گنے سے صرف چینی ہی نہیں بناتیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر پراڈکٹس بھی حاصل کی جاتی ہیں۔ شوگر ملز کا گنے سے چینی بناتے ہوئے ڈالر کی قیمت کے ساتھ بھی کوئی لینادینا نہیں اور ان کے مطابق لیبر کے اخراجات یہ ملیں کسانوں سے صرف دو، تین فیصد کٹوتی سے ہی پورا کرلیتی ہیں۔ لاہور شوگر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے سابق صدرماجد ملک سنجیدہ آدمی ہیں اور سنجیدگی سے ہی کہتے ہیں کہ کنزیومر یعنی عوام کے علاوہ چینی کے کاروبارمیں سب ہی فائدے میں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان سب سے زیادہ خود حکومت فائدے میں ہے کہ اگر وہ مہنگے گنے کی فروخت سے ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ جیسے معاملات پر خاموش ہے تو ہر خاموشی کی ایک قیمت ہوتی ہے اور یہ قیمت اس بھاری جنرل سیلز ٹیکس سے بہرحال الگ ہے جو حکومت ہر کلو چینی پر عوام سے لیتی ہے۔
اس پورے منظرنامے کو سمجھنے کے بعد ماتم کرنے کی بجائے مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عوام کے ساتھ یکساں انصاف کر رہی ہے یعنی اگر آٹا، بجلی، پٹرول اور چینی وغیرہ وغیرہ مہنگے ہیں تو وہ پی ٹی آئی کو ووٹ دینے والوں کے لئے بھی اسی طرح مہنگے ہیں۔ یہ وہ حکومت ہے جس میں غریب ہی نہیں امیر بھی پریشان ہیں کہ ان کی گاڑیوں کی قیمتیں دوگنا ہو چکی ہیں۔ حکومت پوری تندہی اور انصاف کے ساتھ پوری ریاست کو ہی ایک جنگل میں بدلنے جا رہی ہے جس میں ہر کسی کو لوٹ مار کی مکمل آزادی ہو گی اور ہر کوئی میرٹ پر اپنی طاقت اور چالاکی کے ساتھ لوٹنے کااہل ہو گا اور جو نہیں لوٹے سکے گا وہ میرٹ پر ہی فنا ہوجائے گا۔ یہ آزادی تمام تر تنقید کے باوجود پنجاب پبلک سروس کمیشن سمیت باقی تمام سرکاری اداروں کو بھی دستیاب ہے۔