میں نے سنا، کئی سینئر صحافی ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں کو دلاسے دے رہے ہیں، ایک اپنے چینل کی طرف سے جاری کی گئی ویڈیو میں کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو بہت ہی اہم پیغام مل گیا ہے، یہ اہم پیغام کیا ہے، خدا جانے مگر اس ویڈیو کے نیچے پی ٹی آئی والے خوشی سے پاگل ہو رہے تھے، پھر وزیراعظم عمران خان ان شاء اللہ کی رٹ لگائی جا رہی تھی۔
اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا عمران خان کو اس لئے نکالا گیاتھا کہ صرف دو، تین مہینوں کے بعد دوبارہ لے آیا جائے۔ اب تو کوئی یہ بات بھی نہیں کہہ رہا کہ عمران خان کی مقبولیت کو دوبارہ بڑھانے کے لئے اسے نکالا گیا تھا کیونکہ لانگ مارچ کی ایک ہی کال نے مقبولیت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اس تابوت میں آخری کیل سترہ جولائی کو ٹھوک دی جائے گی جس کے بارے خود شاہ محمود قریشی کہہ رہے ہیں کہ پنجاب کے بیس ضمنی انتخاب والے حلقوں میں سے اٹھارہ مسلم لیگ نون جیت جائے گی۔
میں پی ٹی آئی کے بارے میں شاہ محمود قریشی جتنا مایوس نہیں ہوں، میرا اندازہ بارہ اور سولہ سیٹوں کے درمیان ہے۔ نواز لیگ کو پنجاب میں اکثریت بنانے کے لئے تیرہ سے چودہ نشستیں درکار ہیں اور باقی ایک، دو کی کمی مخصوص نشستوں میں شیئر بڑھنے سے پوری ہوجائے گی۔
ہمارے سینئر صحافی حکومت کے جانے کی بنیاد مہنگائی کو بنا رہے ہیں جو بجائے خود ایک لطیفہ ہے۔ کوئی ان سے پو چھے کہ کیا عمران خان کی حکومت مہنگائی کی وجہ سے گئی تھی جو یہ حکومت اس وجہ سے جائے گی۔ عمران خان کی حکومت دماغ کے اس فتور کی وجہ سے گئی تھی جس نے انہیں ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف والی غلطیاں کرنے والا بنا دیا تھا۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو نومبر میں میرٹ پر آرمی چیف کا فیصلہ کرتے اور میرا سوال یہ ہے کہ یہ میرٹ اسی قسم کا ہوتا جس قسم کا میرٹ انہوں نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ کے وزرائے اعلیٰ بناتے ہوئے اپنایا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ عمران خان نے نومبر کی تقرری کے ذریعے اپنے اقتدار کو اگلی دومدتوں کے لئے محفوظ بنانے کا پروگرام بنا رکھا تھا مگر اب مداخلت اور سازش کا شور مچانے والے عمران خان نہیں جانتے تھے کہ ان کی اپنی یہ مداخلت اور سازش ان کے گلے پڑ جائے گی۔ سچ ہے کہ بندہ تدبیر کر رہا ہوتا ہے اور تقدیر اس پر کھڑی ہنس رہی ہوتی ہے۔
میں پورے وثوق سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے سے ٹیکسوں کے نفاذ تک کا معاملہ موجودہ حکومت اورمقتدر حلقوں کے درمیان بحث و مباحثے کے بعد طے ہوا ہے اور یہ سچ ہے کہ لندن سے آنے والی (نواز شریف اور اسحق ڈار) کی ہدایات کے بعد ایک مرتبہ تو ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا تھا۔
نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور اسحق ڈار سخت فیصلوں کی بجائے عوام میں جانے کے حق میں تھے مگر دوسری طرف آصف زرداری اور شہباز شریف نے جرأت سے کام لیا اور ا ب وہی دلیل شاہد خاقان عباسی ٹی وی پروگراموں میں دیتے ہوئے نظرآ رہے ہیں کہ اگر مسلم لیگ نون ملک بچانے کے لئے اقتدا ر میں آنے کی قربانی نہ دیتی اور ملک کوڈوبتا ہوا دیکھتی رہتی تو اسے سیاست چھوڑ دینی چاہئے تھی۔ میں بھی یہی کہتا ہوں کہ انہیں اقتدار ضرور لینا چاہئے تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ موجودہ بحران سے نکلنے کے مہنگائی کے علاوہ بھی کچھ راستے تھے، کچھ طریقے تھے، انہیں بھی آزمایا جانا چاہئے تھا۔
ہمارا قومی مسئلہ یہ ہے کہ ٹیکس وصول کرنے والے ادارے ہم سے ٹیکس لینا نہیں چاہتے اور ہم بطور عوام ٹیکس دینا نہیں چاہتے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جیسے ہی ٹیکس کی شرح بڑھتی ہے اس کے نتیجے میں کاروبار معطل ہوجاتے ہیں اور بڑھے ہوئے ٹیکس کی چوری اسی طرح بڑھ جاتی ہے جس طرح میں نے بجلی کی قیمتیں بڑھنے پر واپڈا کی سی بی اے یونین کے گرڈ اسٹیشن سرکل چیئرمین جاوید اقبال سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا مسئلہ اب یہ ہوگا کہ بجلی کی چوری بڑھ جائے گی۔
اب دو کام ہوں گے، پہلا ہاوسنگ سیکٹر میں یوں ہوگاکہ لوگ سرمایہ کاری چھوڑ دیں گے، پلاٹوں کی خرید وفروخت بند ہوجائے گی اوراس کے نتیجے میں جائیدادوں کی قیمتیں ضرور کچھ کم ہوں گی مگر اس کے ساتھ ہی رئیل اسٹیٹ سے جڑی ہوئی پچاس سے زائد مختلف چھوٹی بڑی صنعتوں کے مزدوروں میں بے روزگاری کا طوفان آجائے گا۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو روکنا چاہیے لیکن اسے آپ روک دیں گے توگویا ملک میں چلتی ہوئی واحد انڈسٹری کو روک دیں گے، اس سوچ اور عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی۔
میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ہمارے نوے فیصد کاروباری لوگ ٹیکس دینا چاہتے ہیں مگر جب ٹیکس کی شرح زیادہ ہوتی ہے جیسے پروفیشنل لوگوں پر ٹیکس بیس ہزار سے پچاس ہزار کر دیا گیا اور ٹیکس وصول کرنے والے ادارے ہی ان سے دس، بیس ہزار رشوت لے کر انہیں تیس، چالیس ہزار کی بچت کی راہ دکھاتے ہیں اور یوں ٹیکس میں اضافے کامقصد فوت ہوجاتا ہے، یہ اضافہ صرف کرپشن میں اضافہ کرتا ہے۔
ایسا ایک تجربہ اسحق ڈار بطور وزیرخزانہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے رئیل اسٹیٹ والوں کے بازو مروڑے تو سرمایہ اڑ کر دوبئی چلا گیا۔ ڈی ایچ اے کے جس ٹرانسفر آفس میں روزانہ ڈیڑھ سو فائلیں ٹرانسفر ہوتی تھیں اور اس سے مرکز سے پنجاب تک کو ٹیکس ملتا تھا وہ تعداد دس سے پندرہ پر آ گئی۔ حکومت کا ریونیو بھی کم ہوا اور لوگوں کا روزگار بھی ختم ہوا۔
مہنگائی اور ٹیکسوں کی بھرمار کے حوالے سے یہ ایک الارمنگ سیچویشن ہے اور میں نے کئی لوگوں سے رابطہ کیا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ کسی کے پاس کوئی ٹھوس اطلاع نہیں۔ مختلف لوگوں کے پاس ایک ٹائم فریم ہے جس کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ جولائی تک جتنے بھی ٹیکس لگانے ہیں وہ لگا دئیے جائیں گے، اگست سے جنوری تک کے چھ ماہ خزانہ بھرنے اور معیشت کے پاؤں پر کھڑے ہونے کا انتظار کیا جائے گا۔
جنوری میں سے اگلے برس اگست تک ڈالر کی قیمت کم ہونے سمیت دیگر انڈیکیٹر مثبت ہونے پر عوام کو ریلیف دیا جائے گا، پٹرول اور بجلی کی قیمت کم کی جائے گی مگر اس پورے ٹائم فریم کی بنیاد یہ ہے کہ ڈالر پونے دو سو کی رینج میں آجائے گا مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر لوگوں نے کرپٹ بیوروکریسی اور بے پناہ ٹیکسوں کے باعث رئیل اسٹیٹ سمیت دیگر کاروباروں سے پیسہ نکال کر دوبئی یا ترکی میں پارک کر دیا یا ڈالر یا سونے میں ہی سرمایہ کار کر دی تو پھر کیا ہو گا۔ یقینی طور پر حکومت آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے ایک جواء کھیلنے جا رہی ہے اور اس کے پاس یہ داؤ لگانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ عمران خان آئی ایم ایف سے دھوکا کر نے کے علاوہ چین، ترکی اور سعودی عرب تک کو ناراض کر کے جا چکے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ مقتدر حلقوں کے پاس کوئی آپشن نہیں مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اب کم از کم عمران خان اپنی نااہلی اورانا کے باعث کوئی آپشن نہیں ہیں۔ اس وقت ہمارے پاس ایک قومی حکومت موجود ہے اور اگر یہ ناکام ہوئی تو پھر ڈائریکٹ مارشل لا ہی رہ جاتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ڈائریکٹ مارشل لا کیا کر لے گا؟