Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Hukumat Qabze Karwa Rahi Hai?

Hukumat Qabze Karwa Rahi Hai?

میرے کان یکم اپریل کو اخبارات میں وہ سرکاری اشتہار دیکھ کر ہی کھڑے ہو گئے تھے جن میں بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی زیر قیادت پنجاب بھر میں " قبضہ مافیا "کے خلاف "بلاامتیازکریک ڈاون" جاری ہے اور اب تک ساڑھے چار سو ارب مالیت کی ایک لاکھ پچپن ہزار ایکڑاراضی قبضہ مافیا سے " واگزار" کروائی جا چکی ہے۔ چار سو سے زائد مقدمات درج اور ستانوے ملزمان بھی گرفتار ہوچکے ہیں۔ میں نے اس اشتہار کو دیکھ کر انصاف لائیرز ونگ کے سینئر نائب صدر اویس احمد ایڈووکیٹ سے رہنمائی لی کہ حکومت یہ فیصلہ کیسے کرتی ہے کہ ایک شخص جائز اور قانونی مالک ہے یا ناجائز اور غیر قانونی قابض۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ سرکاری اراضی پر محکمہ اپنا موقف تیار کرتا ہے، ڈاکومنٹس اور شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں زمین اس کی ہے اور پھر وہ محکمہ، ضلعی انتظامیہ اور پولیس ڈپیارٹمنٹ کی مدد سے، اپنی زمین پر قبضہ واپس لے لیتا ہے۔ میرا سوال یہ تھا کہ محکمہ اوقاف ہویا کوئی بھی محکمہ، وہ کسی بھی اراضی پر قبضے کے دعوے میں فریق ہو گا نہ کہ فیصلہ ساز، یہ فیصلہ ایک فریق کیسے کرسکتا ہے کہ وہ ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے فریق کو بے دخل کر دے کیونکہ سرکار کی طاقت اس کے ساتھ ہے۔

جب میں نے اس موضوع پر پروگرام کیا تب شریف فیملی کے جاتی امرا والے گھر کا کسی کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ محکمہ مال اس پر اپنی ملکیت ظاہر کر دے گا تاہم اس وقت تک نواز لیگ کے کھوکھر برادران کا معاملہ سامنے آ چکا تھا اور عدالت اس پر حکومتی کارروائی روک چکی تھی۔ عرفان تارڑ، سول معاملات کے انتہائی سینئر وکیل اور اس وقت منتخب ممبر پنجاب بار کونسل ہیں۔ میں نے ان کے سامنے سوال رکھا تو انہوں نے حکومت کے تمام دعووں کو ہی غیر قانونی قرار دے دیا۔ ان کا قانونی موقف واضح تھا کہ کسی بھی زمین پرقبضے کے تنازعے کا فیصلہ صرف اور صرف عدالتیں کر سکتی ہیں۔ میرے پاس رہنمائی کے لئے ایس پی کینٹ صاعد عزیز کی شخصیت بھی موجود تھی اور وہ کہہ رہے تھے کہ قبضہ مافیا ایک بڑی لعنت ہے اور بتا رہے تھے کہ سی سی پی او لاہور نے قبضہ مافیا کے خلاف کارروائیوں کے لئے ایک سیل بھی بنا رکھا ہے اور حکومتی سطح پر ایک نمبر بھی جاری کر رکھا ہے مگر عرفان تارڑ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی دلیل تھی کہ پولیس یہ فیصلہ نہیں کرسکتی کہ قبضہ کس کو دلوانا ہے، یہ قانونی دلائل، شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ عدالت کا ہی اختیار ہے اور یہ کہنا ہے کہ عدالتیں برس ہا برس فیصلے نہیں کرتیں اس بات کی طرف لے جاتا ہے کہ آپ عدالتیں ہی ختم کر دیں، زمینوں پر قبضوں کا متبادل نظام بنا دیں۔ جہاں تک تارکین وطن کی زمینوں پر قبضوں کا سوال ہے تو چیف جسٹس ہائی کورٹ کی ذاتی دلچسپی سے ان کے لئے خصوصی عدالتیں بھی قائم ہوچکیں لہٰذا کسی بھی تنازعے میں چاہے وہ فرد کا فردسے ہو یا فرد کا حکومتی ادارے سے ہو، فیصلہ عدالت کا ہی ہو گا۔ میرا خیال بھی یہی تھا کہ اگر معاملہ آئین، قانون اور عدالت کے ذریعے حل نہیں ہونا تو پھر کوئی بھی شخص ایک، دوکروڑ روپیہ پٹواری اور ایس ایچ او کو دے کر آسانی سے دس، بیس کروڑ کی زمین پر قبضہ کر سکتا ہے۔ ممبر پنجاب بار کونسل نے اس تمام معاملے کو (ذہن میں رکھئے کہ یہ بحث آج سے دو، اڑھائی ہفتے قبل ہو رہی تھی) سیاسی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس وقت اپوزیشن کے لوگوں سے قبضے لے کر ان کے مخالفین کو قانونی وارث قرار دیا جا رہا ہے، یہ سب سیاسی معاملات ہیں اور سرکاری ادارے استعمال ہو رہے ہیں۔ میرا سوال تھا کہ جب کبھی دوبارہ آئین اور قانون کا دور آیا یا کسی آزاد عدالت نے معاملات کا نوٹس لیا تو یہ سب معاملات ریورس ہو جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ دوسری حکومت میں آج کے قانونی مالک، ناجائز قابض قرار پائیں گے۔

میری وکلا، پولیس اور دیگر لوگوں سے طویل بحث کے بعدپختہ رائے ہے کہ اس وقت حکومت قبضے ختم نہیں کروا ر ہی بلکہ نئے قبضے کروا رہی ہے اور اس میں دو طرح کے مفادات ہیں، ایک یہ کہ شریف فیملی یا کھوکھر برادران کی طرح اپوزیشن ٹارگٹ ہو، انہیں گندا اور خوار کیا جائے یا عمران خان کے بہنوئی احد ڈار کی طرح حکومتی شخصیات کو فائدہ پہنچایا جائے۔ وزیراعظم کے بہنوئی کے پی آئی اے سوسائٹی میں پلاٹ والے معاملے پر میں تمام فریقوں کے ساتھ بات کر چکا اور یہ بات ثابت ہوچکی کہ رجسٹرار کواپریٹو نے گذشتہ برس فروری میں حکومتی ایما پر اپنا عہدہ بچانے کے لئے اس پلاٹ پر وزیراعظم کے بہنوئی کا قبضہ کروایا تھا اور وزیراعظم کے بہنوئی کے ساتھی یوسف کا بھی، جو ایک پھڈے والا پلاٹ خریدنے کے بعدقتل ہو گیا۔ اس وقت معاملات یہ ہیں کہ حکومتی لوگ سرکاری وسائل سے کسی بھی پلاٹ پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ نواز لیگ والوں کا قبضہ ہے یا نواز لیگ والوں کی مدد سے قبضہ ہے اور وہاں پولیس بندوقیں لے کر مخالفین کو قبضہ دلوانے پہنچ جاتی ہے حالانکہ قانون یہ کہتا ہے کہ پولیس کسی کو قبضہ نہیں دلوا سکتی، ہاں، اگر کسی جگہ بزور طاقت قبضہ ہو رہا ہو، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی جارہی ہو تو وہاں پہنچ کر اسے روک سکتی ہے مگر اس وقت تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں سرکاری پارٹی کے ٹاوٹ متحرک ہیں، وہ جگہیں ڈھونڈ رہے ہیں جہاں پر قبضہ کروایا جا سکتا ہے اور پھر اس کے بعد ان کی، ضلعی انتظامیہ کی، پولیس کی کروڑوں روپوں کی دیہاڑیاں لگ رہی ہیں مگر کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔

شریف فیملی کے جاتی امرا والے گھر کا معاملہ بھی اسی حکومتی قبضہ گروپ سکینڈل کا تسلسل ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر محکمہ مال کی زمین آج سے تیس، پینتیس برس پہلے غیر قانونی طور پر دی گئی تھی تو محکمہ تین عشرے کیوں سویا رہا۔ د وسرے ہم مان لیتے ہیں کہ اب پاکستان کی تاریخ کی ایماندار ترین حکومت قائم ہوئی ہے جو کسی مارشل لا میں بھی نہیں ہوئی تو سوال یہ ہے کہ کیا متنازع زمین کی ملکیت تبدیل کر نے کے لئے مالکہ بیگم شمیم اختر یا ان کے وارثوں کو کوئی نوٹس جاری کئے گئے۔ زمینوں کے معاملات میں یکطرفہ فیصلے عام روائت بن چکے اور اسی طریق کار پر حکومتی لوگوں کی سرپرستی میں پولیس کی مدد سے لوگوں کی جائیدادوں پر قبضوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے اور آپ نے اگر ابھی تک اپنے کسی مخالف کی زمین پرڈی سی، اے سی کو لمبا لٹا کے، پٹواری کو حصہ دار بنا کے اور پولیس کو لے جا کر قبضہ نہیں کیا تو مجھے آپ کی سستی اورکاہلی پر حیرت ہے، جلدی کیجئے صاحب جلدی، آدھا وقت گزر چکا۔