وزیراعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف ایک نیا محاذ کھول لیا ہے بظاہر یہ محاذ سینیٹ میں انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی طرف سے اختیار کی گئی آئینی اور قانونی پوزیشن پر کھولا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹوں پر کوئی بار کوڈ یا سیریل نمبر لگاتے ہوئے اس امر کویقینی کیوں نہیں بنایا کہ عمران خان جب چاہتے اپنے ارکان کے ووٹ چیک کر لیتے۔ الیکشن کمیشن کا سیدھا سادا موقف تھا کہ آئین اس امر کی اجازت نہیں دیتا اور عدالت کو بھی اس سے اتفاق کرنا پڑا اور مزید تشریح یہ سامنے آئی کہ یہ خفیہ حالت دائمی نہیں ہوتی مگر جناب عمران خان کی الیکشن کمیشن سے ناراضٰی صرف سینیٹ کے اوپن بیلٹ کے حوالے سے نہیں ہے وہ اس سے پہلے ڈسکہ کے الیکشن کے حوالے سے بھی ناراضی کا اظہار کرچکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طرف سے بیس پولنگ اسٹیشنوں پر ری پولنگ کی پیش کش بہت بڑی پیش کش تھی اور الیکشن کمیشن کو پورے حلقے میں ری پول کے لئے تاریخ کا اعلان نہیں کرنا چاہئے تھالہٰذ ا حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
ہمارے بہت سار ے خوش گمان دوستوں کا اصرار تھا اور ان میں سے بعض خبر دے رہے تھے کہ پاکستان کی ایک طاقت ور شخصیت نے برطانیہ میں سابق وزیراعظم محمد نواز شریف سے رابطہ کیا ہے اور ان کی صحت پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ تسلی سے اپنا علاج کروائیں۔ کہا یہ بھی جا رہا ہے کہ اس ٹیلی فون کال کے بعدنواز شریف کے پاسپورٹ کی معطلی کا معاملہ بھی لٹک گیا ہے، حمزہ شہباز شریف کی ضمانت بھی اسی فون کال کے بعد ہوئی ہے اور اسحق ڈار کے خلاف نیب کی انکوائری بھی بند ہوئی ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں حکومتی ووٹوں سے یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے ان خبروں کومزید تقویت دی۔ خبر کا دوسرا حصہ یہ تھا کہ میاں نواز شریف کی طرف سے اس فون کال پر کسی گرم جوش ردعمل کامظاہرہ نہیں کیا گیا۔ یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ اگر یہ خبر نواز لیگ کے حلقوں نے دی ہے تو وہ اپنے اصولی موقف کو ہی اس میں شامل کریں گے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پچھلے کچھ عرصے میں نواز لیگ کونمایاں ریلیف ملا ہے۔ اسی دوران یہ خبر بھی دلوائی گئی کہ سینیٹ کے انتخابات سے صرف ایک روز قبل دو مارچ کو مریم نواز کو ایک مرتبہ پھر نیب نے طلب کر لیا ہے۔ جب میں نے نیب کی کوریج کرنے والے رپورٹروں سے اس بارے پوچھا تو انہوں نے تصدیق کی کہ اس طلبی کاباقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا مگر اس کے بعد حیرت انگیز طور پر وہ خبر غائب ہو گئی اور اب ان کے پاس کوئی اطلاع نہیں کہ مریم نواز کو نیب طلب کر رہا ہے یا نہیں۔ اس امر کے اشارے مل رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ میں دو رائے بن چکی ہیں اور یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ اس وقت سے ہے جب نواز شریف کو بیماری کے نام پر جلاوطنی کی اجازت دی گئی تھی۔ اسٹیلشمنٹ کا ایک حصہ چاہتا ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہوجائے مگر دوسرے اہم ترین حصے کا خیال ہے کہ اصلاحات کا عمل جاری رکھا جائے۔ یہ حصہ سمجھتا ہے کہ اقتصادی سطح پرمشکلات سابق ادوارکی وجہ سے ہیں اور عمران خان کی حکومت ان کا مقابلہ درست طورپرکر رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سینیٹ کے انتخابات میں حفیظ شیخ کی شکست کے بعد بہت ہی مناسب طریقے سے جناب عمران خا ن کی حکومت کو سہارا دیا گیا ہے۔ مجھے اب بھی یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور ترین حصہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ اس صورتحال کو یوں سمجھئے کہ اگر مریم نواز کو طلب نہیں کیا جارہا ہے توا س کی کمی کیپٹن صفدرکو طلب کر کے پوری کی جا رہی ہے اوراسحاق ڈار کی انکوائری بند کی گئی ہے تو شہباز شریف کی ایک نئی انکوائری شروع بھی کر دی گئی ہے۔ یہ ڈنڈے اور گاجر کا کھیل ہے اور کامیابی کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے لہٰذا میری رائے بن رہی ہے کہ لانگ مارچ دباوتو بڑھائے گامگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرواسکے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان الیکشن کمیشن کے خلاف صرف اوپر بیان کی گئی دو وجوہات پر ہوئے کہ ڈسکہ میں پورے حلقے میں ہی دوبارہ الیکشن کا اعلان کر دیا گیا یا سینیٹ کے انتخاب میں اوپن بیلٹ کی مخالفت کی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وزیراعظم کو الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کے لئے مزید مشکل فیصلے دئیے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ حکومت نے فیصل واوڈا کو قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی کروا کے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک عارضی ریلیف لیا ہے مگر ان کی دوہری شہریت کے حوالے سے حلف نامے کامعاملہ ایک مرتبہ پھر الیکشن کمیشن کے پاس آ گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی آبزرویشن ہے کہ وہ حلف نامہ بادی النظر میں درست دکھائی نہیں دیتا۔ اس امر کے خدشات موجود ہیں کہ فیصل واوڈا صادق اور امین نہ رہنے پرعوامی نمائندگی کےلئے بھی نااہل قرار پائیں اور یوں وہ سینیٹ کی رکنیت بھی نہ بچا پائیں۔ اس سے بھی بڑامعاملہ فارن فنڈنگ کیس کا ہے جس کے فیصلے کےلئے اپوزیشن جماعتیں الیکشن کمیشن کے سامنے ایک دھرنا بھی دے چکی ہیں اور یہ حقیقت میں ایک بڑا خطرہ ہے کہ الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس میں ناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف کو بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک سے فنڈز لینے پر کالعدم قرار دے دے اگر چہ اس فیصلے پر وفاقی حکومت نے ہی نوٹیفیکیشن جاری کرنا ہے جو ایک اپنی جگہ پر ایک تضا د ہو گا مگر اس فیصلے کو بھی اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔
صورتحال یہ بن رہی ہے کہ اگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ اپنے خلاف آنے سے پہلے عمران خان کامیابی کے ساتھ یہ فضا بنا لیں گے کہ الیکشن کمیشن (یا چیف الیکشن کمشنر) ان کے خلاف ہیں۔ پی ٹی آئی کا میڈیا سیل اشارے کے انتظار میں ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ان کی رشتے داریوں کے حوالے سے بھی ایک مہم شروع کرے جس کے میمز اور پوسٹس تیار ہو چکی ہیں۔ عمران خان کا اگلاموقف یہ ہو سکتا ہے کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کو سینیٹ انتخابات میں شفافیت لانے کے لئے دباو ڈالا تو ردعمل میں یہ ممکنہ فیصلے دئیے گئے۔ پی ٹی آئی کو اس امر کا بھی ادراک ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی، کرپشن اور بدانتظامی نے عوام کوان سے نالاں کر دیا ہے۔ ابھی گرمیوں میں آنے والے بجلی کے بل عوام کی رہی سہی برداشت بھی ختم کر دیں گے۔ وہ لوگ بہت کم ہیں جویہ کہتے ہیں کہ خان بجلی کا یونٹ دوسوروپے اور پٹرول کا ایک لیٹرہزار روپے کا بھی کردے تووہ تب بھی اس کا ساتھ دیں گے۔ حقیقت یہ ہے ڈاکٹر ہوں یا ٹیچر، بہت سارے طبقے اپنے کانوں کوہاتھ لگا چکے ہیں۔ آگے ضمنی انتخابات ہوں، بلدیاتی انتخابات ہوں یا اڑھائی برس کے بعد عام انتخابات، پی ٹی آئی کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار قرار دینے کے لئے ایک ٹارگٹ چاہئے اور ظاہر ہے کہ وہ ٹارگٹ بذات خود اسٹیبلشمنٹ نہیں ہوسکتی سو الیکشن کمیشن ایک سافٹ ٹارگٹ ہے، وہ یا تو پی ٹی آئی کو مطلوبہ نتائج دینے کے لئے سرنڈر کرے گا یا اس کا نتیجہ بھگتے گا۔ پی ٹی آئی ایک کائیاں جماعت ہے اور پروپیگنڈے کے تمام اصول جانتی بھی ہے اور انہیں استعمال میں بھی لاتی ہے۔ اگلا وقت الیکشن کمیشن کے لئے بہت اہم اور نازک ہے اور ابھی تک جو حکمران جماعت کی طرف سے الیکشن کمیشن کے ساتھ کیا گیا ہے وہ اصل کھیل کا صرف وارم اپ ہے۔