ہمارے معروف ستارہ شناس جو پہلے پیشین گوئی کر رہے تھے کہ عمران خان جانے والے ہیں (اور وہ واقعی چلے گئے) ان میں سے ایک کہہ رہے ہیں کہ اب ہر دو صورتوں میں جیت عمران خان کی ہو گی۔ میں علم ستارہ شناسی پر گرفت نہیں رکھتا مگرعلم سیاسیات میرا پسندیدہ مضمون ہے۔
میں نے گذشتہ برس (جولائی میں آزاد کشمیر کے انتخابات کے بعد) پیشین گوئی کی تھی کہ اگر مسلم لیگ نون اپنی حکمت عملی بدل لے، مریم نوازکے بجائے وقتی طور پر شہباز شریف کو آگے کر دے، تو میدان مار سکتی ہے۔ میری سیاسی علم والی پیشین گوئی پوری ہوئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ شہباز شریف کی کابینہ ڈیلیور نہیں کر پا رہی۔
میں نے اس سلسلے میں عوامی سروے کیا تو چار سے میں سے تین افراد کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو وقت دینا چاہئے مگر میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ وقت ان کے ہاتھ سے تیزی سے نکل رہا ہے، جیسے مٹھی سے ریت نکلتی ہے، ابھی لوگ ان سے امیدیں لگائے ہوئے ہیں اور شائد دو، چار ماہ تک مزید لگا لیں لیکن جس رفتا ر سے مہنگائی کی جارہی ہے اس سے لگتا ہے کہ تیرہ، چودہ فیصد والا افراط زر انیس سے بیس فیصد پر جائے گا اور لوگوں کی چیخیں نکل جائیں گی۔ حکمرانوں کا خیال ہے کہ ابھی سخت فیصلے کر لئے جائیں، معیشت بچا لی جائے اورالیکشن سے پہلے ریلیف دے کر ماحول بنا لیا جائے گا۔
بات عمران خان کے حوالے سے کرنی ہے، اس کے باوجود کہ مہنگائی ہور ہی ہے عمران خان کی واپسی کا کوئی چانس فی الحال نظر نہیں آرہا۔ میں مانتا ہوں کہ عمران خان نے اپنے پچیس مئی کے لانگ مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے بہت محنت کی۔ انہوں نے ان تمام شہروں میں جلسے کر کے اپنے کارکنوں کومتحرک کیا جہاں سے اسلام آباد پر یلغار ہوسکتی تھی۔
پنجاب کا لانگ مارچ کے حوالے سے سب سے بڑا معرکہ بتی چوک لاہور پر لڑا گیا مگر وہاں تحریک انصاف کے پولیس کے مقابلے میں لڑنے والے کارکنوں کی تعداد ساڑھے تین سو کے لگ بھگ تھی۔ پنجاب کے صدرشفقت محمود سمیت کوئی سو، ڈیڑھ سو لوگ پیچھے گاڑیوں میں بھی انتظار کر رہے تھے کہ کارکن ماریں کھا کے راستہ بنائیں تو وہ آگے بڑھ کے قیادت کا حلوہ کھا اور جلوہ دکھا سکیں۔ اس معرکے میں ہیرواپنا سر پھڑوا کے حماد اظہر رہے، یاسمین راشد رہیں جنہیں سوشل میڈیا سے کھیلنا آتا ہے جیسے وہ حماد اظہر کے گھر پر فرش پر بیٹھ گئیں اور کارکنوں سے کہتی رہیں کہ ان کی فوٹو بنا لی جائے۔
میں نتیجہ اخذ کر رہا ہوں کہ عمران خان اس وقت اوپر یعنی مقتدر حلقوں سے لے کر نیچے یعنی عوام تک اپنی گیم ہار چکے ہیں۔ وہ مسلسل غلط فیصلے کر رہے ہیں جیسے انہوں نے قومی اسمبلی چھوڑ دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت نے اپنی مرضی کا اپوزیشن لیڈر لگا کے الیکشن کمیشن کے دو اہم ترین ممبران کی نامزدگیاں کر لیں اور اب یہی کام چیئرمین نیب کی تقرری پر ہوجائے گا۔
صدر مملکت ایک حد تک مزاحمت کر سکے اور انہیں آخر کار بلیغ الرحمان کو پنجاب کا گورنر بنانا پڑا اور اگر وہ نہ بھی بناتے تو اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں وہ ایک جوائنٹ سیکرٹری کے نوٹیفیکیشن پر بن جاتے، یوں پنجاب سرنڈر ہونا شروع ہو گیا ہے، آخری مورچے پر موجود چوہدری پرویز الٰہی کو بھی رام کر لیا جائے گا یا فتح۔ عمران خان سمجھ نہیں پارہے کہ سیاست میں چھوٹے چھوٹے فائدے مل کر بڑے فائدے میں بدلتے ہیں، یہ کم ہی ہوتا ہے کہ جیسا جیک پاٹ ان کا پچھلی بار لگا ویسا ہر بار لگ جائے۔ اب آپ پی ٹی آئی کے وفاداری بدلنے کے بعد نااہل ہونے والے پچیس ارکان کی طرف ہی دیکھ لیں۔ ان میں سے بیس حلقوں والے ہیں اور پانچ ریزرو سیٹوں والے۔
چودہ اضلاع کی بیس نشستوں پر جب الیکشن ہوں گے تو یہ اظہر من الشمس ہے کہ کم از کم بارہ سے پندرہ سیٹیں مسلم لیگ نواز نکال لے گی اوراس کے بعد پنجاب اسمبلی میں طاقت کا توازن مکمل طورپر حمزہ شہباز کے حق میں ہوجائے گا۔ میں نے مختلف ارکان اسمبلی سے بات کی ہے جو چار برس پہلے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کو ہرا کے آزاد منتخب ہوئے تھے اور وہ اب بھی اس الیکشن کو اپنے لئے نواز لیگ کی سیٹ پر اتناہی آسان سمجھ رہے ہیں جیسے کسی مولوی کے لئے حلوے کی پلیٹ کا حصول ہوتا ہے، جو مل ہی جاتی ہے۔
عمران خان دوبارہ اسلام آباد پر یلغار کا عندیہ دے رہے ہیں مگر ان کی پارٹی کے لوگ خود بھی نجی محفلوں میں تسلیم کر رہے ہیں کہ رانا ثناء اللہ خان کی پولیس کے استعمال کی حکمت عملی شاندار رہی۔ انہوں نے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جو میڈیا میں زیادہ شہرت نہیں رکھتے تھے مگر کارکن اکٹھے کر سکتے تھے۔ پنجاب میں نہ پنجاب کا صدر گرفتار ہوا نہ جنرل سیکرٹری، نہ لاہور کا صدر گرفتار ہوا نہ جنرل سیکرٹری، اہم ترین گرفتاریوں میں محمود الرشید اوراعجاز چوہدری کی گرفتاری رہی۔
پولیس نے پی ٹی آئی والوں کو پکڑا کم اور رگڑا زیادہ۔ پی ٹی آئی والوں نے بعد میں جو اسلام آباد میں کیا اس کے بعد حکومت کے پاس ان کو پھینٹی لگانے کے لئے مواد موجود ہے۔ عمران خا ن ایک محفوظ لانگ مارچ کے لئے سپریم کورٹ کو آوازیں دے رہے ہیں۔ سیاسی اور عوامی حلقوں میں سپریم کورٹ کا کردار زیر بحث آ رہا ہے اور میرا نہیں خیال کہ حکومت عمران خان کو فری ہینڈ دینے کے لئے کچھ زیادہ دباؤ میں آئے گی۔
میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان کے پا س ایسی سیاسی فہم و فراست ہی نہیں ہے جو آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی کولیکٹو پولیٹیکل وزڈم، اور پولیٹیکلی لیتھل الائنس، کا مقابلہ کر سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بازی ہارچکے ہیں اور تجزیہ ہے کہ اب انہیں اِن، رہنے کے لئے پنجاب سے کچھ لاشیں درکار ہیں، ان کے حالیہ بیانات اسی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
عمران خان اقتدار کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں، ان کی کامیابی اسی میں ہے کہ ان کے مخالفین آپس میں تقسیم ہوں، ان کی توجہ اور ہمدردیاں منقسم رہیں، یہ متفقہ فیصلے کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر حملے کرتے رہیں جیسے نواز لیگ اس وقت دو واضح گروپوں میں نظر آ رہی ہے۔ نواز شریف کی سپورٹ کے ساتھ اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل کے فیصلوں پر تنقید کر رہے ہیں۔
مریم نوازاور شاہد خاقان عباسی کے وزن سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو بظاہر پلڑے میں ہے مگر حقیقت میں پلڑے میں نہیں ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ عمران خان کے جانے کے پچاس دنوں میں پٹرول اور بجلی سمیت مختلف اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی ایسی تیسی کر دی ہے اور آنے والے بجٹ میں مزید ایسی تیسی ہونے کا اندیشہ ہے۔ تنخواہ دار طبقہ جو پہلے ہی سب سے زیادہ مظلوم اور کچلا ہوا ہے اس پر انکم ٹیکس کا بوجھ مزید بڑھایا جار ہا ہے یعنی اخراجات مزید بڑھ جائیں گے اور گھر آنے والی تنخواہ مزید کم ہوجائے گی۔
مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اقتدار کے قلعے کے دروازے عمران خان پر بند ہوچکے ہیں لیکن اگر یہ دروازے کوئی اندر سے کھول دے اور انہیں راستہ دے دے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکمرانوں کو محتاط رہنا ہو گا، اتحاد قائم رکھنا ہو گا اور کارکردگی کا مظاہرہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔