یہ ون ملین ڈالر کوئسچن ہے کہ جب پولیس منگل کی شام سے پہلے عمران خان کے گھر داخل ہوگئی تو اگلے 16 سے 20 گھنٹوں میں انہیں گرفتار کیوں نہیں کر سکی؟ شہر بھر کے کرائم رپورٹرز کا اس پر اتفاق ہے کہ جب پولیس گھر کے اندر داخل پو گئی تو گرفتاری گھنٹوں کا نہیں منٹوں کا کھیل باقی رہ گیا تھا۔
چلیں اس بات کو بھی حقیقت مان لیتے ہیں کہ اندر گلگت بلتستان پولئس کے آئی جی کی قیادت میں مسلح سپاہی موجود تھے جبکہ لاہور پولیس سانحہ ماڈل ٹاون کے خوف مبتلا تھی کہ کہیں مسلح مزاحمتی کارکنوں کی موت ان کے گلے نہ پڑ جائے۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر آپ حکومت اور پولیس کو صرف اس لئے کمزور سمجھتے ہیں کہ لاشیں نہ گریں، تو سمجھتے رہیں۔
میں عامر میر کی منطق اور جواب کو وزن سے خالی قرار نہیں دیتا مگر میرا خیال اس سے بہت مختلف ہے۔ میری بہت سارے لوگوں سے گفتگو اور واقعاتی شہادتوں کے جائزے کے بعد پختہ رائے ہے کہ پولیس عمران خان کو گرفتار کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ مجھے اعتراف کرنا ہے کہ میں نے حکومت اور پولیس کے بعض ذمے داروں سے انفارمیشن لینے کی کوشس کی تو مجھے غلط تاثر دیا گیا۔ ایک باخبر سمجھے جانے والے نے کہا کہ یہ "متھ" توڑنی ضروری ہے کہ عمران خان کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ گرفتار ہو سکتے ہیں اور بار بار ہو سکتے ہیں۔ مجھے یہ کہنا ہے کہ یہ خبردرست نہ تھی بلکہ کھیل اس سے زیادہ پیچیدہ تھا جس کی کڑیاں آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔
حقیقت یہ بن رہی ہے کہ حکومت اور پولیس عمران خان گرفتار کرنا ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ عدم پیشی پرمعطل کی گئی ضمانت صرف ایک پیشی پر دوبارہ بحال ہو جاتی۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کی پھرتیوں سے یہ عین ممکن تھا کہ یہ گرفتاری محض چند گھنٹوں کی ہوتی۔
یہ واضح ہو رہا ہے کہ جس نے یہ بھی یہ سب ڈیزائن کیا اس کا مقصد خانصاحب کو "وائلنس" کا پورا موقع فراہم کرنا تھا تاکہ مقتدر حلقوں کو بتایا جا سکے کہ عمران خان اقتدار کے لئے پاگل ہو چکا ہے، وہ ریاست کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں، وہ فوج کو پہلے ٹارگٹ کر چکا اور پولیس کے ساتھ رینجرز کا بھی فزیکل مقابلہ کرنے کے بعد وہ آخری انتہا پر جا سکتا ہے۔ دو جمع دو چار کی طرح منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ عمران خان اپنے غیرسیاسی اپروچ رکھنے والے مشیروں کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئے۔ انہوں نے ٹکٹ ہولڈروں تک کو جتھے لانے کی ہدایات جاری کر دیں۔
پولیس پر پٹرول بم تک پھینکے گئے اور سوال یہ ہے کہ عمران خان نے جو کچھ کیا اگر وہ سب گرفتاری سے بچنے کے لئے نوازشریف، آصف زرداری کرتے؟ فضل الرحمان اور فاروق ستار کرتے؟ اسفند یار ولی اور محمود خان اچکزئی کرتے تو ریاست کا جواب کیا ہوتا؟ مجھے کہنے دیجئے عمران خان اپنی جذباتیت کی وجہ سے اس شخص کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئے جو انہیں الطاف حسین بنانا چاہتا ہے اور پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم لندن۔
اس ملک کے "اہم حلقوں" نے الطاف حسین کو معاف نہیں کیا جنہوں نے وہی کچھ کیا جو کچھ عمران خان اور ان کے حامی تھوڑے بہت الفاظ بدل کے کر رہے ہیں۔ شہباز شریف کو حکومت ملنے کے باوجود نواز شریف کو ابھی تک معافی نہیں ملی جس کے جرائم عمران خان سے بہت معمولی ہیں تو عمران خان کس کھیت کی مولی ہے۔
خانصاحب سے ریاست میں ریاست بن کے بڑی غلطی ہوگئی۔ انکے نام پر کاٹا زیادہ بڑا اور موٹا ہوگیا اور شائد سرخ مارکر سے بھی، اللہ خیر کرے کہ سیاست بہت پیچیدہ کھیل ہے۔ عمران خان گرفتاری سے بچنے کی بازی جیت کے بھی بہت کچھ ہار گئے ہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ صورتحال بدلنے کے لئے دس بارہ برس کا انتظار کیا کریں گے؟ ان کی کوئی اولاد بھی ان کا سیاسی علم لے کر چلنے کے لئے موجود نہیں ہے۔
ہمارے کئی دوستوں کی رائے ہے کہ عمران خان نے بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی ہے اور وہ انتخابات میں بھرپور طاقت کے ساتھ واپس آنے ہی والے ہیں۔ میرے یہاں چار نکات ہیں۔ پہلا یہ کہ کیا واقعی الیکشن 16 ستمبر سے پہلے ہونے والے ہیں تو میں کچھ کچھ یہ تھیوری "بائے" کر لیتا ہوں مگر مجھے یقین ہے کہ انتخابات 16 ستمبر کے بعد ہوں گے جو پاکستان میں دوسری طاقتور ترین نوکری کے حوالے سے اہم ترین ہے۔
میں اس بارے زیادہ نہیں جانتا مگر کچھ اشارے موجود ہیں کہ اعلی عدلیہ میں رمضان المبارک میں کچھ اہم پیش رفت ہوسکتی ہے جو طاقت کا توازن بدل دے گی، واللہ اعلم۔ موجودہ چیف جسٹس پوری کوشش کریں گے کہ 30 اپریل کو پنجاب کے انتخابات ہو جائیں مگر یہ واقعی ہوں گے، عوام سے خواص تک سب کا جواب فی الحال نفی میں ملتا ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب کی مقبولیت ابھی دعووں میں ہی ہے۔
میں نے پوری قومی تاریخ میں کسی نکالے جانے والے کو اگلے ہی انتخابات میں واپس آتے نہیں دیکھا، تیسرا نکتہ تھوڑا مختلف ہے کہ کیا عوامی مقبولیت ہی انتخابات جیتنے کا واحد پیمانہ ہے اور اگر ایسا ہوتا تو 2018 میں کم از کم پنجاب میں نوازلیگ کی حکومت کے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ چوتھا نکتہ یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی عمران خان کی قیادت میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چل سکتی ہے تو میرا جواب مکمل نفی میں ہے۔ بہت ساری تبدیلیاں متوقع ہیں۔ پرویزالہی کا پی ٹی آئی کا صدر بننا بہت اہم ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان نے کے اشارے یا حکم پر اپنی پارٹی کی صدارت چودھری پرویز الہی کو سونپی ہے؟
رہ گئی بات کہ عمران خان نے عوامی شعور کو کوئی جلا بخشی ہے تو یہ بھی ایک بیانیہ ہے جسے اسی طرح سچ ثابت کیا جا رہا ہے جیسے ان کی مقبولیت کو۔ ان کا کمال ہے کہ یہ ڈنڈے اورجوتے کھا رہے ہیں۔ انہیں آنسوگیس کے شیل مارے جا رہے ہیں۔ ان پر مقدمات بن رہے ہیں اور جیلوں کے پھیرے لگ رہے ہیں۔ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ انہیں ننگا کیا جا رہا ہے اوران سے جنسی زیادتی تک کی جا رہی ہے مگر ان تمام کیباوجود وہ کہتے ہیں کہ عمران خان مخالفین کو رلا رہا ہے۔
اب اس منطق اور ذہن رکھنے والوں کے ساتھ کیا عملی مکالمہ ہو سکتا ہے کہ اگر آپ ان تمام کو کامیابی سمجھتے ہیں توازراہ تفنن آپ کے لئے دعا ہے کہ ا?پ ہی کامیاب رہیں، آپ کو کبھی ناکامی نہ ملے۔ یہی مقبولیت ہے تو آپ ہی مقبول رہیں پی ڈی ایم کو غیر مقبول ہی رہنے دیں، ہاں، لیکن آپ مجھ سے سنجیدہ رائے لیں تو میرے مطابق عمران خان دوبارہ اس وقت اقتدار کی راہ کے مسافر بنیں گے جب وہ آئیں اور قانون کو تسلیم کریں گے۔ پارلیمانی سیاست میں واپس آئیں گے۔
میری اطلاعات کے مطابق کئی دوست انہیں یہ مشورے پہنچا رہے ہیں جیسے عدلیہ میں بہت اوپر بیٹھے ان کے کچھ دوست اور سسٹم میں ان کے سفیر کے طور پر موجود ایک شخصیت مگر یہ سہولت بھی اگست سے ستمبر تک ہی دستیاب ہے۔