مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی کارکن اور سوشل میڈیائی دانشورتسلسل کے ساتھ رائے دے رہے ہیں کہ ان کی پارٹی نے اس نازک موقعے پر حکومت قبول کر کے بڑی غلطی کی، یہ غلطی عمران خان کے حق میں جائے گی، وہ اپنا بیانیہ کامیابی سے تشکیل دے رہے ہیں اور جیسے جیسے مشکلات بڑھتی جائیں گی ویسے ویسے عوام مسلم لیگ نون کے خلاف ہوتے چلے جائیں گے۔
میں یہاں پولیٹیکل سائنس کے ایک طالب علم کے طور پر اس مغالطے کو دور کرنا چاہتا ہوں کہ علم سیاسیات میں کسی بھی سیاسی جماعت کی تشکیل کا واحد مقصد حکومت کا حصول ہوتا ہے، آپ اس میں آئین اور عوام کا تڑکا بھی لگا سکتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ محترمہ فاطمہ جناح سے لے کر آج تک وطن عزیز میں کسی کے پاس جتنی مرضی آئین اور عوام کی حمایت رہی ہو وہ اقتدار میں نہیں آسکا، سو، پاکستانی جمہوریت اپنی ترکیب میں خاص ہے۔
یہاں اصل سیاسی کامیابی مخالفین کو اقتدار سے نکالنا اور خود اقتدار میں آنا ہے مگر اعتراض وقت پر کیا جا رہا ہے کہ عمران خان اپنی مقبولیت کھو رہے اور پاکستان مشکل ترین اقتصادی وقت سے گزر رہا تھا لہٰذا مسلم لیگ نون کو اگلے انتخابات کا انتظار کرنا چاہئے تھا مگر یہ سب کہنے والے پاکستان کی جمہوریت کی بنیاد ی ضرورت کو بھول رہے ہیں۔
اگر عمرا ن خان رواں برس نومبر تک اقتدار میں رہ جاتے اور وہ سب کچھ کرجاتے جو وہ کرنا چاہ رہے تھے تو عمران خان کے مخالفین کے لئے اگلے انتخابات، پچھلے انتخابات کا ایکشن ری پلے ہی ہونا تھے۔ وہی اتحادیوں کی پری پول مینجمنٹ ہونا تھی اور وہی پوسٹ پول سپورٹ جس میں مشینوں نے صرف بلے کے حق میں ووٹ اگلنے تھے۔
نگران حکومت سے انتظامی مشینری تک پر عمران خان کا اثر ہونا تھا اور الیکشن سے پہلے آخری برس، قومی خزانے کو انتخابی مہم پر اسی طرح استعمال کیا جانا تھا جس طرح تحریک عدم اعتماد کو دیکھ بجلی پانچ روپے سستی کر دی گئی اور پٹرول کی قیمتوں کو منجمد کر دیا گیا، صرف یہی نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کے سیاسی شعبدے ہونے تھے اور وہ تمام ووٹرز جو عمران خان کے سحر سے نکلے چکے ہیں، انہیں سرکاری خزانے سے دوبارہ رام کیا جانا تھا چاہے اس کی قومی سطح پرقیمت کچھ بھی ہوتی۔
عمران خان کی اپنی لئے محبت دیکھئے، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کی حکومت نہ ہو تو بہترہے کہ پاکستان پر ایٹم بم گر جائے۔ یہی وہ سوچ تھی جو انہیں آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی کی طرف لے گئی اور موجودہ اقتصادی صورتحال پیدا ہو گئی۔
بات صرف یہی نہیں تھی کہ عمران خان نے اقتدار میں رہتے ہوئے قومی وسائل کو استعمال کرنا تھا بلکہ وہ پرعزم تھے کہ اپوزیشن رہنماؤں کی کردار کشی اور جیل بھیجنے کی مہم دوبارہ شروع کی جائے۔ کیا عمران خان کی حکومت برقرار رکھنے کے وکیل بھول گئے ہیں کہ انہوں نے شہزادا کبر کو کیوں نکالا کیونکہ شہزاد اکبر، شہبازشریف کو تیسری مرتبہ جیل بھیجنے میں ناکام ہو گئے تھے مگر عمران خان جنونی ہو رہے تھے کہ کسی نہ کسی طرح مسلم لیگ نون کے تمام رہنماؤں کو الیکشن سے پہلے دوبارہ جیل میں ڈالا جائے۔
تکلف برطرف، عمران خان کی حکومت برقرار رکھنے کے حق میں فکری ابہام پیدا کرنے والوں میں وہ گروہ بھی شامل ہے جو شہباز شریف کا پارٹی کے اندر مخالف سمجھا جاتا ہے۔ مجھے ان سب کو بتانا ہے کہ عمران خان، الیکشن سے پہلے مریم نواز کو بھی دوبارہ جیل بھجوانا چاہتے تھے چاہے اس کے لئے پرانے مقدمات کا سہارا لیا جائے یا کوئی نیا الزام لگایا جائے۔
عمران خان جانتے ہیں کہ ان کے ووٹرز ان کی کارکردگی نہیں بلکہ مخالفین سے نفرت کی بنیاد پر ان کے ساتھ ہیں اور وہ ان جذبات کو کیش کروانا چاہتے تھے۔ وہ الیکشن سے پہلے انتقامی سیاست کا ایک نیا باب شروع کرنا چاہتے تھے مگر ناکام رہے۔
کیا نواز لیگیوں کو اس پر دکھ ہے کہ ان کی قیادت کو مار نہیں پڑ رہی، کیا انہیں یہ بات مارے دے رہی ہے کہ عمران خان سڑکوں پر مارے مارے پھر رہے ہیں اور ایوان وزیراعظم میں شہباز شریف موجود ہیں، جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ نون پھنس گئی ہے، وہ سنیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اور اگر وہ اس کے باوجود عمران خان کے جانے کو غلط سمجھ رہے ہیں، اس پر دکھی ہیں تو اس آئی کیو لیول سے کیا مکالمہ ہو، بھلا شاہ دولہ کے چوہوں سے بھی مکالمہ ہوا ہے؟
میں حیران ہوں کہ سیاسی تبصرے کرنے والے ان تمام زمینی حقائق کو کیسے اور کیوں فراموش کر جاتے ہیں اور اگر آپ اصولی اور کتابی جواب سے مطمئن ہونا چاہتے ہیں تو وہ میں جناب ظفر حجازی سے بہتر الفاظ میں نہیں دے سکتا، کہتے ہیں چند حضرات کہہ رہے ہیں کہ اتنی بری معاشی صورتحال میں اقتدار کیوں سنبھالا، اب عمران خان کی لائی ہوئی معاشی تباہی کا ملبہ نون لیگ پر گرے گا۔
میری رائے میں نون لیگ نے ٹھیک کیا، یہ سیاسی فائدہ یا نقصان سوچنے کا وقت نہیں، ملک کوبحران سے نکالنے کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے، کم ہے،۔ مجھ سے پوچھیں تو اس وقت اصل سوال بھی پاکستان کا ہے۔ ا گر عمران خان اقتدار میں رہ جاتے تو وہ رہی سہی معیشت کا بھی بیڑہ غرق کر جاتے۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ ایک شخص جو اس درخت کو کاٹ رہا تھا جس پر ہم سب کے آشیانے ہیں تو ہم اس کے ہاتھ سے آری چھیننے پر اس لئے خفا ہوں کہ اسے پورا کاٹنے کیوں نہیں دیاگیا۔
یہ درخت گرتا تو اصل تباہی مچتی اور یہ شخص بے نقاب ہوتا۔ یقین کیجئے اگر وہ پاکستان کو خاکم بدہن مکمل تباہ کر کے بھی چلے جاتے تو ان کے حامیوں نے ان پر واہ واہ ہی کرنی تھی، آ پ اس طبقے کا کچھ نہیں کرسکتے جو عقل، منطق اور تدبر سے عاری ہوچکا ہو۔
عمران خان کی فوری رخصتی ملک او ر وقت کی ضرورت تھی، ناگزیر تھی، ہاں، عمران خان کے جانے کے بعد شہباز شریف سے ملک کے اندر اور باہر بہت ساری بہتری کی امیدیں رکھتا ہوں اور کہتے ہیں کہ مایوسی بھی وہیں ہوتی ہے جہاں امید ہوتی ہے سو مجھے مایوسی ہوئی کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے ایک مہینے کے بعد بھی آٹا، چینی اور چاول مہنگے ہو رہے ہیں، تجارتی خسارہ قابو نہیں آ رہا، سٹاک مارکیٹ مسلسل گر رہی ہے، ڈالر کے دو سو روپے سے اوپر جانے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، کار مینوفیکچررز سمیت کوئی مافیا شہباز شریف سے ڈرنے کے لئے تیار نہیں اور ان کی حکومت قائم ہونے کے بعد دو مرتبہ گاڑیوں کی قیمت میں اضافہ ہو چکا ہے تو پھر میرا سوال جائز ہے کہ شہبازسپیڈ کہاں ہے۔
وہ صلاحیتیں کہاں ہیں جن کا مظاہرہ وہ پنجاب میں کرتے رہے۔ میں مانتا ہوں کہ صدر مملکت اور گورنر پنجاب کے کردا ر غیرآئینی رہے، یہ بھی درست کہ عمران خان ان کے لئے سیاسی محاذ پر بیانئیے کی مشکلات پیدا کر رہے ہیں مگر انہی مشکلات کا سامنا کرنے اور انہیں نیست و نابود کرنے کا نام تو سیاست ہے، ٹیلنٹ ہے۔
میں شہباز شریف کے سٹارٹ ہونے اور سپیڈ پکڑنے کا انتظار کر رہا ہوں۔