آج سے ہم تاریخ اور مہینہ لکھتے ہوئے سال کی جگہ بیس کے بجائے اکیس لکھیں گے، پوچھنا یہ ہے جو مبارکبادوں کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں اور امیدوں کے انبار، اس کے سوا کیا بدلا ہے۔ کچھ اس برس کے آغاز پر نیا ہے تو وہ کورونا ہے جو گذشتہ برس یکم جنوری کو نہیں تھا مگر اس برس موجود ہے جس کی وجہ سے گذشتہ برس تمام دفاتر اور کاروباریا ادارے تک بند رہے اور تعلیمی ادارے اب تک بند ہیں مگر یہ کوئی مبارکباد دینے والی بات نہیں ہے۔ ہمارے پاس تو گذشتہ برس کے گزر جانے کی مبارکباد دینے کا حوصلہ بھی نہیں جو مجموعی طور پر تباہی ااور بربادی کا سال تھا، اموات کا سال تھا۔
جب سے موجودہ حکومت آئی ہے اقتصادی میدان میں کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی۔ ایک محفل میں پی ٹی آئی کے ایک محترم رہنما فرما رہے تھے کہ ملک کی معاشی بنیاد مضبوط ہونے لگی ہے اور دلیل یہ تھی کہ کرنٹ اکاونٹ بیلنس سرپلس جا رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے وسائل میں جینا سیکھ لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اکنامکس میں ڈگری ہولڈر ہیں تو میں نے ادب سے عرض کیا کہ وسائل میں جینا کرنٹ اکاونٹ بیلنس کے سرپلس ہونے سے نہیں ہو گا بلکہ بجٹ خسارے کے خاتمے سے ہوگا جس میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی معیشت کورونا کے دوران اتنی تباہ نہیں ہوئی جتنی یورپ، چین اور انڈیا کی ہو گئی تومیں نے اس پر بھی بصد احترام کہا کہ گوگل اس دعوے کی تائید نہیں کرتا۔ میں بددیانتی نہیں کرتا لہٰذا اعتراف کرتا ہوں کہ گذشتہ برس دو شعبوں میں بحالی ہوئی، ایک شعبہ تعمیرات کا ہے اور دوسرا ٹیکسٹائل کا ہے۔ پہلے میں بحالی کی وجہ وہ ہے جس پر اسحاق ڈار نے پابندی لگائی تھی کہ آپ کالادھن کنسٹرکشن کے شعبے میں استعمال نہیں کرسکتے مگر جناب عمران خان نے اس کی اجازت دے دی۔ دوسرے ہم نے کورونا کے دوران جب سڑکیں تک بند تھیں تو ہم نے برآمدات والے تمام کارخانے کھول دئیے نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ سے بنگلہ دیش اور انڈیا تک کے تمام آرڈرز ہماری طرف منتقل ہو گئے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا کہ جب ڈائیوو اوربلال ٹریولز سمیت تمام اچھی ٹرانسپورٹ کمپنیاں بند ہوجائیں اور مسافر لاری اڈے پر کھڑے گجر طیارے پر ٹوٹ پڑیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ گجر طیارہ ہائی کلاس ہو گیا ہے بلکہ یہ دوسروں کی بدقسمتی کا پھل کھا رہا ہے۔ کیا یہ دعا کی جائے کہ باقی دنیا ویکسین آنے کے بعد بھی پورا برس بند رہے اور ہماری دوبئی لگی رہے۔
پی ڈی ایم نے آج اپنا سربراہی اجلاس بلا رکھا ہے جس میں اہم فیصلے متوقع ہیں۔ پیپلزپارٹی کی سی ای سی سے وہ خبریں لیک کروائی جا چکی ہیں جو حکومت کے مفاد میں جاتی تھیں۔ ہمارے بہت سارے جمہوریت کے غم میں دبلے ہونے والے دوست سخت غصے میں ہیں کہ پی پی پی استعفے دیتی اور سینیٹ کے الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہوئی نظر نہیں آر ہی۔ میں ان کی خدمت میں یہی عرض کرسکتا ہوں کہ آپ پیپلزپارٹی کی پالیسی کو مسلم لیگ نون اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے تناظر میں کیوں دیکھتے ہیں۔ وہ ایک الگ جماعت ہے اور اپنی الگ پالیسی کا حق رکھتی ہے۔ ان تینوں جماعتوں کی حالت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ملک کے دوسرے بڑے صوبے میں اقتدار کی مالک ہے۔ وہ سینیٹ میں انتخابات کے بعد بھی دوسری بڑی پارٹی ہو گی جبکہ نواز لیگ اورجے یو آئی کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی اس صورتحال کو کیش کرواتے ہوئے اپنے لئے رعایتیں لے سکتی ہے اور لے رہی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے ابھی نیب کے ذریعے نواز لیگ کے رہنما خواجہ آصف کو گرفتار کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ خواجہ آصف طویل عرصے سے مریم نواز کے سوشل میڈیا گروپ کے ٹارگٹ تھے، ان پر دوسرے نہیں بلکہ نواز لیگئے ہی کریلے گوشت کی جگتیں کستے تھے۔ خواجہ صاحب نواز لیگ میں سوچ و فکر کے اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس سے شہباز شریف کا تعلق ہے یا جس سے چوہدری نثار وابستہ ہیں۔ بہت سارے لوگ سوال پوچھتے ہیں کہ شہباز شریف سے خواجہ آصف تک نواز لیگ کے سب مفاہمت پسندوں کی گرفتاری کیوں ہو رہی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت مریم نواز یا پرویز رشید کو نہیں بلکہ انہی فاختاوں کو اپنا حقیقی دشمن اور اپنے لئے حقیقی خطرہ سمجھتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ سے رابطے اور تعلقات رکھتے ہیں اور اس کے مفادات کو پورا کرنے کے سیاسی فلسفے کے پروفیسر ہیں۔ حکومت جب ان کو نیب کے ذریعے گرفتار کرتی ہے تو وہ پارٹی میں نواز شریف اور مریم نواز کا بیانیہ اور دھڑامضبوط کرتی ہے۔ عمران خان اور اس کا تھنک ٹینک چاہتا ہے کہ نواز لیگ میں شہباز شریف اور اس کے حامیوں کی سوچ کو کوئی راستہ نہ ملے تاکہ نوازلیگ اور مقتدر حلقوں میں ٹکراو کی فضا رہے لہٰذا بنیادی طور پراسٹیبلشمنٹ کے دوستوں کی گرفتاریاں نواز لیگ نہیں بلکہ مقتدر حلقوں کے آپشن محدود رکھنے کی حکمت عملی ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت کو اپنی مدت پوری کرنی چاہئے کہ اس وقت تک وہ تقریبا آدھی مدت گزار چکے۔ مجھے اس پر نوے کی دہائی یاد آجاتی ہے جب اٹھاون ٹو بی کی برکات سے کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کرتی تھی۔ اس عشرے میں ہر صدر نے سازش کی اور حکومت کو رخصت کیا اور جب صدر کے پاس سے یہ اختیار لے لیا گیا توفوج نے مارشل لا لگادیا۔ مجھے پیپلزپارٹی کی حکومت بھی یاد آ رہی ہے جس کے کریڈٹ پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ اپنے عروج پر تھیں۔ پیپلزپارٹی کے دوست جب پروگراموں میں ملتے اور افتخار چوہدری کی کارروائیوں کو ڈسکس کرتے تو ہنس کر کہتے کہ اگر ہماری حکومت اچھی نہیں ہے تو اسے ختم کر دیجئے۔ وہ جانتے تھے کہ اس کے نتیجے میں وہ سیاسی شہید ہوں گے اور اپنے ووٹر کے پاس جا کر کہہ سکیں گے کہ ان کی حکومت کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیتے اور اب پی ٹی آئی کی حکومت کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہے جب انہوں نے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ نااہلی، بدانتظامی اور سیاسی انتقام کو اپنی انتہا پر لے گئے۔ اب کی بقا اسی میں ہے کہ انہیں سیاسی شہادت عطا کی جائے تاکہ یہ اپنے مظلومیت کا رونا روسکیں اور بتا سکیں کہ ان دوبرسوں میں ہی پاکستان جنت بننے والا تھا۔
کیایہ بہتر نہیں کہ اپوزیشن جماعتیں اس وقت احتجاجی تحریک کو دوسری اور صاف شفاف انتخابات کو اپنی پہلی ترجیح رکھیں۔ اپوزیشن اپنا دماغ اور توانائیاں جن استعفوں اور جس لانگ مارچ پر کھپانے جا رہی ہے اگر وہ کامیاب بھی ہو گیا تو نئے انتخاب کے نتائج بھی وہی ہوں گے جو اس سے پہلے تھے۔ حکومت الیکٹرانک ووٹنگ متعارف کروانے جا رہی ہے جس کے بعد اپوزیشن جماعتیں جو بیلٹ پیپر پر ہونے والے دھاندلی کو ثابت کرنے کے لئے ابھی تک کوئی وائیٹ پیپر تک نہیں لا سکیں وہ کمپیوٹروں کے اندر سے دھاندلی اور نتائج تبدیل ہونے کے ثبوت کہاں سے تلاش کر سکیں گی۔ اپوزیشن کو چاہئے کہ وہ احتجاج ضرور کرے، میلہ لگائے رکھے، دباو بڑھائے رکھے مگر اس کے ساتھ ساتھ اصل توجہ انتخابی نظام پر دے کہ اگر اس کی آنکھیں گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج کے بعد بھی نہیں کھلیں تو ان کی پوری فکر اور کوشش پر اناللہ و انا الیہ راجعون ہی پڑھا جا سکتا ہے۔