علم سیاسیات سے علم نجوم تک، سب ماہرین یہی کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کے اقتدار کی کہانی ختم ہوچکی ہے اور کوئی معجزہ ہی ان کی حکومت بچاسکتا ہے۔ ہماری تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھتا۔ عمران خان نے بھی وہی غلطیاں کیں جوذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف نے کی تھیں۔ عمران خان اول الذکر دونوں کی طرح اپنی مقبولیت کے خبط میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ جس جنگ کو ایوان میں لڑنا چاہئیے اس جنگ کو وہ میدان میں لڑ رہے ہیں۔
وہ سیاسی لڑائی میں جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں کو دلیل اور دباو ٔکے طور پر استعمال کرنا چاہ رہے ہیں جن کی ہماری سیاسی شطرنج میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ کافی غیر متعلقہ قسم کی چیزیں ہیں بلکہ ایسے موقعے پر حماقت ہیں جب آپ پر سلیکٹڈ سے ریجیکٹڈ کی مہر لگ چکی ہو۔ عمران خان روزانہ جلسوں اور پارلیمانی سیاست کے جوڑ توڑ کی وجہ سے بدترین تھکاوٹ اور شائد بلند فشار خون کا شکارہوچکے ہیں۔
ماہرین طب کہتے ہیں کہ بلڈ پریشر ایک خاموش قاتل ہے۔ یہ انسان کے جسم اور دماغ کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ انسان ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے اور مسلسل غلطیاں کرنے لگتا ہے۔ انہوں نے چند روز پہلے پاک فوج کے ترجمان کی پریس کانفرنس کے فوری بعد جلسہ کرتے ہوئے نیوٹرل ہونے کو جانور ہونے کا نام دیا تھا اور اب الزام لگا رہے ہیں کہ نواز شریف سپریم کورٹ کے ججوں کوساتھ ملا رہے ہیں۔
یہ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح واضح ہے کہ ان کے مشیر انہیں اسی طرح درست مشورے نہیں دے رہے جس طرح نواز شریف کے مشیروں نے انہیں اقتدار سے نکلوایا تھا اور جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر انہیں کال کوٹھڑی ہی نہیں بلکہ پھانسی کے پھندے تک لے گئے تھے۔ سوال یہ بھی ہے کہ مشیر ہی غلط ہیں اور میرے پاس اس پر باقاعدہ تحقیق شدہ نظریہ موجود ہے کہ مشیر غلط نہیں ہوسکتے جب تک خود لیڈر غلط نہ ہو۔ ہماری سیاست سے دفاتر تک ہر جگہ مسئلہ یہ ہے کہ لیڈرز جو کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کے لئے کچھ کندھے اور کچھ دلائل درکار ہوا کرتے ہیں۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو ان لوگوں کی بات سنتے جو آئین، قانون، میرٹ اور جمہوریت کی بات کرتے تھے تو پھانسی کے پھندے تک نہ پہنچتے۔ میاں نواز شریف کے ارد گرد بھی ایسے لوگوں کا کنٹرول تھا جو انہیں فوج سے لڑوانا چاہتے تھے۔ میں جانتا ہوں مگر نام نہیں لینا چاہتا مگر چوہدری نثار علی خان کو ایسے ہی لوگوں نے پارٹی سے نکلوایا تھا۔ اب عمران خان خود کو بہت بڑا فائٹر سمجھ کرمیدان میں اتر رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ محض ایک کھلاڑی ہیں۔ سیاست اور کھیل کی سائنسز الگ ہوتی ہیں۔
کوئی بھی کھیل لامحدودد وقت کے لئے نہیں ہوتا لہٰذا ایک کھلاڑی اپنے اسٹینما کا بہترین استعمال کرتے ہوئے کھیل جیت سکتا ہے۔ اپنے مخالف کو اتنے مکے مار سکتا ہے کہ وہ گر جائے۔ جب وسل بجتی ہے تو کھیل ختم ہونے کے ساتھ ہی زیادہ طاقت اور غصے والا کھلاڑی فاتح قرار دے دیا جاتا ہے۔ مگر سیاست مائنڈ کی گیم ہے اور لائف ٹائم ہے۔ اس میں کوئی بھی جیت آخری اور حتمی نہیں ہوتی۔
اس میں آپ نے دوست بنانے ہوتے ہیں اور دشمنوں کی تعداد کم کرنی ہوتی ہے۔ عمران خان نے اس کھیل میں غلطی یہ کی کہ دوست نہیں بنائے۔ ایک دوست بنایا تھا جو الٹا عمران خان کے لئے بوجھ بن گیا۔ عمران خان نے دشمن بنائے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی کہ میں عمران خان پر تنقید کرتا رہوں، انہیں غلط کہتا رہوں، ہاں، یہ درست ہے کہ تنقید کرنا اور غلط کہنا بھی میری جاب کا حصہ ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ میرافرض اس سے کہیں زیادہ ہے۔ میں عمران خان کو پاکستان کی سیاست کے اسرار و رموز بتانا چاہتا ہوں مگرا س سے پہلے مجھے لگ رہا ہے کہ وہ مصروفیات کی وجہ سے پانی کا استعمال کم کر رہے ہیں، وہ کوشش کریں کہ جب بھی جلسے سے خطاب کرنے لگیں یا کوئی دوسرا اہم سیاسی کام تو پانی کے ایک سے دو گلاس پی لیں۔
اس سے پہلے تھوڑی دیر کے لئے کسی آرام کرسی پر بیٹھیں۔ جوتے اتاریں، پاؤں آگے کی طرف بڑھائیں اور پورے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیں۔ وہ محسوس کریں کہ ان کے اندر سے گرم اور بدبودار مادے نکل رہے ہیں اور اس کی جگہ ٹھنڈی پرسکون لہریں داخل ہو رہی ہیں۔ اگر مصروفیات کے باوجود سر کے مساج کا وقت بھی نکل سکے تو بہت خوب مگر پندرہ منٹ سے آدھے گھنٹے کی یہ مصروفیت انہیں بہتر فیصلے اور گفتگو کرنے کے قابل کر دے گی۔
میں عمران خان سے کہنا چاہتا ہوں کہ میری ان سے نہ دوستی ہے اور نہ ہی دشمنی، میں پورے خلوص سے بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جلسے جلوس اور دھمکیاں انہیں ٹکے کافائدہ نہیں دیں گے۔ اگر ان جلوسوں نے فائدہ دینا ہوتا تو نواز شریف جی ٹی روڈ کے تاریخی مارچ کے بعدکوٹ لکھپت جیل کے بجائے دوبارہ ایوان وزیراعظم پہنچ جاتے۔ منفی انداز میں کہوں تو ہماری سیاست محلاتی سازشوں پر چلتی ہے اور مثبت انداز میں کہوں توتعلقات اور معاملہ فہمی پر۔
کوئی آپ کو شائد یہ نہیں بتا رہا کہ آپ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف سے بہت بہتر طریقے سے نکالے جا رہے ہیں۔ آپ کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے بڑی رعائت اور حمایت دی جار ہی ہے۔ آپ کو مشورہ ہے کہ اس رعائیت کا غلط فائدہ مت اٹھائیں۔ میں نے آپ کے جلسے سنے ہیں۔ جب تک آپ لاڈلے تھے تو سب آپ کی ٹانگیں کھا رہے ہیں اور مسکرا رہے تھے مگر اب آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ لاڈلے نہیں رہے۔ اپنے بچے کا چھوچھو بھی ہنس کر دھو لیا جاتا ہے اور دوسرے کے بچے کا تھوک بھی برداشت نہیں ہوتا۔
آپ جو کچھ جلسوں میں اگل رہے ہیں اس کو کنٹرول کیجئے۔ میری نظر میں امکانات موجود ہیں کہ آپ کو سیاست کرنے کا موقع ملے گا مگر اس موقعے کو اپنی بے لگام گفتگو کے ذریعے محدود مت کیجئے۔ عاشق رسول ہونے کے دعوے اور امریکا پر نکالے جانے کا الزام درست حکمت عملی ہیں، یہ نعرے غریب عوام کو گھیر گھار کے لے آتے ہیں جس کے بعد ناقص کارکردگی غیر اہم سوال بن جاتی ہے مگر سیاست کا تیسرا اثرپذیر عنصر بھی اہم ہے۔
میں جانتا ہوں کہ آپ ایمپائر کو ملا کر ہی کھیلے اور اسی میں کامیاب رہے۔ امپائر کے نیوٹرل ہوتے ہی آپ کو باؤنسر پڑنے شروع ہو گئے اور آپ ہوش وحواس کھو بیٹھے۔ پہاڑ سے گرتے ہوئے سر کو بچاتے ہیں، سرباہر نکال کر گالیاں نہیں دیتے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کے الٹے پلٹے انٹ شنٹ بیانات آپ کو ملی ہوئی رعائیت ختم کر دیں، آپ کے لئے مشکلات بڑھا دیں، آپ نے زندگی ہیرو کی طرح ناز و نخرے سے گزاری ہے، اس عمر کی جیل آپ کو بہت تنگ کرے گی، ہاں، آپ کا سپیکر غیر آئینی طریقے سے آپ کے اقتدار کے چنددن بڑھا رہا ہے اور آپ انہیں اپنی مشکلات بڑھانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
ایسا مت کریں، تھوڑا پانی پی لیں۔