Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Imran Khan Wapas Aa Rahe Hain?

Imran Khan Wapas Aa Rahe Hain?

یہ بہت سارے لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان دو تہائی اکثریت سے واپس آ رہے ہیں۔ یہ بہت سارے لوگ ننانوے فیصد پی ٹی آئی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ اس سے پہلے یعنی گذشتہ بر س اپریل سے نومبر تک یہ تاثر بھی دیتے رہے کہ مقتدر حلقوں نے عمران خان کو ایک بڑی گیم کے تحت ایوان وزیراعظم سے باہر نکالا ہے کیونکہ عمران خان مہنگائی اورگورننس کے مسائل کی وجہ سے غیر مقبول ہو رہے تھے اور انہیں مقبول بنا کے واپس لانے کے لئے ضروری تھا کہ وہ مہنگائی کا طوق کسی دوسرے کے گلے میں ڈالتے۔

خود وہ اینٹی امریکا اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ نعرہ لگاتے اور واپس آ کے صدارتی نظام نافذ کرکے خودایک طاقتور صدر بن جاتے مگر ان سب کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب نومبر میں عمران خان کے سہولت کاروں کو بھی مستعفی ہونا پڑا۔ یہ بہت سارے کہتے ہیں کہ تم کسی پرانے زمانے میں رہتے ہو اور اب عمران خان نے بہت کچھ تبدیل کردیا ہے اور میں کہتا ہوں، اچھا، ہوسکتا ہے، اگر بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے توتمہیں پرانے زمانے کی طرح ہی جوتے کیوں پڑ رہے ہیں؟ مان لو، کچھ نہیں بدلا، سب ویسا ہی ہے۔

جب یہ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان واپس آ رہے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ میں نے عملی صحافت کو اپنی پوری جوانی دے دی۔ میں نے آج تک جانے والے کو فوری واپس آتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کچھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔ اپنا عمل تبدیل کرنا پڑتا ہے مگر عمران خان نے اقتدار گنوانے کے بعد اپنے لئے معاملات کو خراب بلکہ بہت خراب کیا ہے۔ یہ کب ہوا ہے کہ کسی قومی سیاستدان نے اقتدار سے نکلنے کے بعد اپنی ہی فوج کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کہا ہو۔ اپنے اداروں کے خلاف امریکا میں تین تین لابنگ فرمز ہائر کی ہوں۔ مان لیجئے، جس نے بھی ایسا کیا وہ واپس نہیں آیا۔ کیا آپ کے سامنے الطاف حسین کی مثال نہیں جس کے آنکھ کے اشارے سے کراچی بند ہوجاتاتھا۔

میں یہ بھی کہتا ہوں کہ شریف خاندان کی واپسی ہوگئی مگر کیا اب تک نواز شریف کی واپسی ہوئی جنہوں نے گوجرانوالہ والی تقریر کی غلطی کی۔ جب لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان واپس آ سکتے ہیں تو میں کہتا ہوں کیوں نہیں، اگر بھٹو اور شریف خاندان واپس آ سکتے ہیں تو عمران خان کیوں نہیں مگر یہاں فرق خاندان، کا ہے۔ عمران خان کے پاس نہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر ہے اورنہ ہی نواز شریف کی بیٹی مریم ہے بلکہ وہ بدقسمت اپنی بیٹی کوبیٹی کہہ بھی نہیں سکتا۔ میں کہتا ہوں کہ واپسی ہوجاتی ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ اس واپسی میں دس بار ہ برس بھی لگ جاتے ہیں اور یہاں ایج فیکٹر بہت اہم ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ اداروں میں عمران خان کی اب بھی سپورٹ موجود ہے اور میں کہتا ہوں کہ بالکل موجودہے مگر ہوتا وہی ہے جو اوپر والا چاہتا ہے۔ یہ نیچے والے بس خواہشیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور اوپر والا کیا چاہتا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ جب پرویز مشرف آرمی چیف بنے تو انہوں نے اس خار کا فائدہ اٹھایا جو جہانگیر کرامت کو نکالنے پر ادارے میں تھی۔

میں کوئی پچیس برس یا اس سے بھی زیادہ کی بات کر رہا ہوں جس کے بعد پرویز مشرف کا مارشل لا بھی لگ گیا۔ اس کے بعد ہمارے اداروں میں نئے آنے والوں کو ایک ہی بات پڑھائی اور بتائی بلکہ سکھائی گئی کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کرپٹ ترین جماعتیں ہیں اور اس کے ساتھ ہی آج سے تیرہ، چودہ برس پہلے سے عمران خان کو دیوتا بنا کے پیش کرنے کا کام شروع ہوگیا۔ اب آپ خود سوچیں کہ وہ عدلیہ ہویا فوج جس میں باقاعدہ طور پر یہ اس وقت کے اوپر والے کی پالیسی ہو کہ نواز شریف اوربینظیر (یا اس کے بعد زرداری) بہت برے ہیں تو رنگروٹوں کے دماغ کا سافٹ وئیر کیسا ہوگا۔

عمران خان نے اقتدار میں جن نااہلیوں بلکہ بے وقوفیوں کا مظاہرہ کیا تو اس کی وجہ سے مقتدر حلقوں بلکہ پاکستان کو بطور ریاست بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان کو اپنے ہی پیدا کردہ مسائل یعنی مہنگائی فائدہ دے رہے ہیں۔ میں عمران خان کی مقبولیت میں دوسری وجہ یہ بھی سمجھتا ہوں کہ اس وقت ملک کی تمام مقبول پارلیمانی قوتیں اقتدار میں اکٹھی ہیں اور اپوزیشن صرف ایک ہے اور وہ عمران خان ہے لہٰذا جسے بھی مہنگائی سمیت کسی بھی معاملے پر حکومت سے کوئی شکایت ہوگی تو وہ عمران خان ہی سے رجوع کرے گا اور تیسری وجہ ان کی بیانیے کی طاقت ہے۔ وہ عمران خان کے لئے روتی ہوئی لڑکیوں کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور بہت سارے نوجوانوں بلکہ ادھیڑ عمروں کے دل سینوں میں ہل کے رہ جاتے ہیں۔

سنجیدہ بات پر دوبارہ آتا ہوں کہ میرے مشاہدے کے مطابق اداروں میں عمران خان کی طاقتور حمایت کی صفائی کی جار ہی ہے۔ ایک اہم ترین ادارے میں اس کے سربراہ جو عمران خان کو اس کے مشکل ترین دور میں بھی فائدے پہنچاتے رہے وہاں ان کے اپنے ادارے سے ون مین شو، کے خلاف فیصلے آ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کھل کے اس ادارے کی انڈیا کے حوالے سے مثالیں دی جا رہی ہیں۔ حکمران طبقہ پہلے ستمبرکا انتظار کر رہا تھا مگر اب اس نے مزاحمت شروع کر دی ہے۔

میرے کئی دوستوں کا خیال ہے جو میں نے پہلے بھی شیئر کیا تھا کہ رمضان المبارک اہم ہوسکتاہے اگر عمران خان کے حامیوں کی طرف سے احتیاط نہ کی گئی۔ ہمارے سامنے عمران خان کی مقبولیت سوشل میڈیا کے حوالے سے رکھی جاتی ہے جبکہ اسی سوشل میڈیا پر خیبرپختونخوا کے وزیر اطلاعات نے ان پانچ ہزار ملازموں کو پکڑا ہے جن کو پچیس سے تیس ہزار تنخواہیں دی جارہی تھیں اور ہر مہینے پندرہ، سولہ کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے تھے تاکہ وہ سب پانچ، پانچ اور دس، دس اکاؤنٹ بنا کے ان تمام لوگوں کو گالیاں دے سکیں جو عمران خان سے اختلاف کرتے ہیں۔

رہ گئی بات لاہور کے جلسے کی جسے تاریخ ساز کہا جا رہا ہے۔ اگر وہ اتنا ہی تاریخ ساز ہوتا تو میرے پی ٹی آئی کے ہمدرد میڈیا انفلوئنسرز کو مکہ مدینہ ہوتے ہوئے پرانی اور فوٹوشاپڈ تصویریں شیئر نہ کرنا پڑتیں اور اللہ، نبی کے حضور ہوتے ہوئے جھوٹ بولنے کا گناہ مول نہ لینا پڑتا۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کے دوست فوٹو شاپ کرتے ہوئے بلٹ پروف کنٹینر دکھاتے تھے تومینارپاکستان غائب ہوجاتا تھا اگر تازہ ترین مینار پاکستان دکھاتے تو بلٹ پروف کنٹینر اور پھر پبلک، سلمان احمد تومینار پاکستان پر ہاکی سٹیڈیم لے آیا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ اسٹیبلشمنٹ جو چاہتی ہے وہی ہوتا ہے کہ یہ شان تو صرف خدائے بزرگ و برتر کی ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ مقتدر حلقوں کوناکام ہوتے ہوئے دیکھا ہے ایک مرتبہ تب جب ضیاء الحق اپنے گیارہ سالہ اقتدار کے بعد طیارہ حادثہ میں مر گیا تھا اوراس کے بعد جب بے نظیر بھٹو کو شہید کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ عمران خان کو زندگی دیں، وہ اپنی زندگی کے حوالے سے واویلا مچا رہے ہیں مگر ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ خدانخواستہ انہیں کچھ ہوا تو اسایمویشنل موو، کا فائدہ پی ٹی آئی اٹھائے گی۔

میرے خیال میں انہیں کسی ڈرٹی ہیری اور کسی رانا ثناء اللہ کی بجائے اپنے ارد گرد ان لوگوں سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے جو ان کی جگہ عوام کے آنسووں کی ندی میں بہتے ہوئے ایوان وزیراعظم پہنچ سکتے ہیں، ہاں، اگر وہ کچھ برس بعد واپس آنا چاہتے ہیں تواپنی قومی تاریخ سے سبق حاصل کرنا شروع کر دیں۔