آپ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن یعنی وائے ڈی اے کے بارے میں کچھ بھی رائے رکھ سکتے ہیں مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ وائے ڈی اے نے ڈاکٹرزکمیونٹی کے مفادات کی پاسبانی میں ہمیشہ بہترین کرداراداکیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم بطور صحافی اورمعاشرہ چاہے مخالفت کرتے رہیں، ڈاکٹرز کمیونٹی نے ہمیشہ اس کی ہر کال پر لبیک کہا ہے۔ آپ کو یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ حکومت مسلم لیگ نون کی ہو یا پی ٹی آئی کی، وائے ڈی اے نے ہمیشہ سیاست سے بالاتر ہو کر اپنی کمیونٹی کی ترجمانی کی ہے لیکن سوچئے اگر ہسپتالوں میں پروفیشن کے بجائے سیاسی جماعتوں کے وفاداروں کی تنظیمیں ہوں تو؟
یہ بات جناب عمران خان، جناب فیصل سلطان، جناب نوشیروان برکی کو سمجھانے والی ہے کہ آپ لوگوں کی آشیر باد کے ساتھ آئی ڈی ایف کا قیام ہسپتالوں میں وہی صورتحال پیدا کردے گا جو تعلیمی ادارو ں میں سیاسی جماعتوں کی بغل بچہ تنظیموں نے پیدا کر رکھی تھی اورانہیں قوم کے بچوں کے لئے تعلیم گاہوں کے بجائے قتل گاہیں بنا رکھا تھا، لگتا یہی ہے کہ جیسے اسی اورنوے کی دہائی میں تعلیمی اداروں پر مسلح سیاسی جتھوں کے قبضے ہوتے تھے اب ہسپتالوں پر ہوں گے۔ میرے لئے یہ اطلاعات پریشان کن ہیں کہ انصاف ڈاکٹرزفورم والے فیصل آبادمیں وائے ڈی اے پنجاب کے صدارتی انتخاب میں باقاعدہ ڈنڈوں اوراسلحے کے ساتھ پہنچ گئے۔ مجھے یہ بتانے میں عار نہیں کہ دوسری طرف جہاں سیکورٹی کمپنی کے پچاس اضافی گارڈز بلائے گئے تھے وہاں مخالفین بھی اطلاع ملنے پرپستولوں اور بندوقوں کے ساتھ ہی موجود تھے اور ایک موقع یہ بھی آیا کہ جنرل کونسل کے اجلاس کے باہر پستولوں کے چیمبر مار لئے گئے، ڈاکٹرمحموداحمدکے مطابق وہاں ایک ڈاکٹرکی پٹائی کر بھی دی گئی۔ ان کی قیادت مبینہ طورپر پی ٹی آئی کے چوہدری محسن رانجھا کر رہے تھے جن کی وجہ سے سرگودھا میں آئی ڈی ایف کی تنظیم سازی ہوچکی۔ سرگودہا کے بعد لاہور کے شیخ زاید ہسپتال میں بھی انصاف ڈاکٹرز فورم کے ایکٹیویسٹ موجود ہیں۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ وائے ڈی اے پنجاب کے صدارتی انتخابات غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی ہوچکے ہیں۔ وائے ڈی اے پنجاب کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب نے اپنی سوشل میڈیا وال پرلکھا، ڈاکٹر فیصل سلطان اور نوشیرواں برکی، تم نے میری کونسل میٹنگ پر حملہ کیا، تیار رہو، پنجاب میں داخل ہونے کی جرات کرو، میری کونسل میرے ساتھ کھڑی ہے، جواب دیا جائے گا،۔
مجھے ڈاکٹروں کے سیاسی وابستگی رکھنے پر کوئی اعترا ض نہیں کہ یہ ان کا بطور شہری آئینی اور قانونی حق ہے مگر اس بنیاد پر تنظیم سازی صحت کے شعبے کے لئے ایک خطرناک بم کی طرح ہے۔ وائے ڈ ی اے کے یہی ڈاکٹرنواز لیگ کے دورمیں اپنے نسخوں پر لکھ کر دیا کرتے تھے کہ دوا کے ساتھ ساتھ علاج کے لئے بلے پر مہر لگانا ضروری ہے۔ وائے ڈی اے کے صدر حامد بٹ ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اس وقت کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق بیٹھنے تک سے انکا رکر دیتے تھے۔ اطلاعات ہیں کہ دھرنے میں ہر ہفتے اور اتوار کولاہور سے سو ڈاکٹروں کی نمائندگی کا اہتمام باقاعدہ ٹرانسپورٹ فراہم کر کے کیا جاتا تھامگر پھر پی ٹی آئی کی حکومت آ گئی اور ایم ٹی آئی بھی۔ اب حامد بٹ، ایم ٹی آئی ایشو پر، ینگ کنسٹلٹنٹس ایسوسی ایشن بنا کرپی ٹی آئی حکومت کے وائے ڈی اے سے بھی بڑے مخالف ہیں۔ ننانوے فیصد ہیلتھ پروفیشنلزکی رائے ہے کہ ایم ٹی آئی، سرکاری ہسپتالوں کوپی ٹی آئی کے فنانسروں کے حوالے کر نے کا پروگرام ہے مگر دوسری طرف نوشیرواں برکی ہیں جو اپنے اس منصوبے کو بہرحال مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گرینڈ ہیلتھ الائنس میں وائے ڈی اے ہی وہ فورس ہے جو پوری ہیلتھ کمیونٹی کو ایم ٹی آئی کی مخالفت میں دھکیل رہی ہے لہٰذا اس پر قبضہ کرنا ضروری ہے۔ بوڑھے ہوجانے والے نوشیرواں برکی ایک ایسے واقعے کے غم و غصے سے بھی باہر نہیں آ پا رہے، جب وہ امریکا سے پاکستان آ کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بورڈ کی سربراہی کر رہے تھے تو وائے ڈی اے نے ہال کولاک کر کے احتجاج شروع کر دیا تھا جس پر نوشیرواں برکی رات کے وقت عمران خان کے پاس بنی گالہ پہنچ گئے تھے اور وائے ڈی اے پختونخواہ کے صدر رضوان کنڈی کے خلاف پریس کانفرنس کروا دی تھی۔ یہاں کچھ لوگ ڈاکٹر یاسمین راشد کی بھی بات کرتے ہیں مگر وہ بزرگ خاتون ساری عمر پی ایم اے کی سیاست کرنے کے بعد بائے ڈیفالٹ وائے ڈی اے کی مخالف ہیں گویا پی ٹی آئی، نواز لیگ کے دور میں وائے ڈی اے کو استعمال کرنے کے بعد اب اپنی حکومت میں چاہتی ہے کہ یہ تنظیم تباہ ہوجائے یا اس پر قبضہ ہوجائے۔
وائے ڈی اے میں سپریم سمجھی جانے والی بائیس رکنی جنرل کونسل صوبائی صدرکا انتخاب کرتی ہے اور ان میں سے دو یونٹس آئی ڈی ایف کے ایجنڈے پر ہیں۔ ڈاکٹرز کمیونٹی پریشان ہے کہ اگر آج انصاف ڈاکٹرز فورم کوجنرل کونسل میں گھسنے دیا تو کل نواز لیگ ڈاکٹروں کی اپنی تنظیم بنا لے گی اور پیپلزپارٹی اپنی۔ پنجاب کے ڈاکٹروں میں نواز لیگ کے لئے سپورٹ بڑھتی چلی جا رہی ہے جس نے ہیلتھ پروفیشنلز کے لئے تاریخی اقدامات کئے اور ہسپتال بہترین وسائل فراہم کرتے ہوئے چلائے جبکہ اب سرکاری ہسپتالوں کی یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ وہاں آپریشن تھیٹروں میں بھی ٹانکے اور دستانے تک مریض خود خرید کر لاتے ہیں۔ گذشتہ روز ایک باپ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس نے گورنمنٹ میاں میر ہسپتال کے سامنے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھایا ہوا تھا جس کے سر سے لہو بہہ رہا تھا مگر ایمرجنسی میں ٹانکے تک لگانے کا سامان موجود نہیں تھا۔ دوسری طرف سندھ کی وائے ڈی اے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے اوراس کے اثرات پنجاب میں بھی محسوس کئے جا رہے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی ہمیشہ سرکاری ملازمین کی دوست اوران پر مہربان رہی ہے۔ اب آپ یہ سوچئے کہ کسی بھی ہسپتال میں تحریک انصاف، مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اورجماعت اسلامی کی کٹھ پتلی (ڈاکٹروں اوراس کے بعد نرسوں اور پیرامیڈکس کی) تنظیمیں ہوں گی تو وہ ہسپتال نہیں بلکہ ایک سیاسی اکھاڑہ ہو گا۔ نواز شریف کے سروسز ہسپتال میں علاج کے موقع ےر کچھ ڈاکٹروں کی نان پروفیشنل حرکتیں دیکھی جا چکیں پھر یہ سیاسی مخالفت کی بنیادپر معمول بن جائیں گی۔ ہم میں سے بہت سارے صحت کے شعبے میں یونین بازی کے ہی قائل نہیں مگر ایک ترقی پذیر معاشرے میں حقوق کے حصول کے لئے یہ ناگزیر بھی ہوجائے تو اسے پروفیشنل ہونا چاہئے نہ کہ سیاسی۔ انصاف ڈاکٹرز فورم کے عہدیدار سیف اللہ نیازی مقرر کرتے ہیں، فیس بک پر تصاویر موجود ہیں کہ وائے ڈی اے پنجاب کے انتخابات سے پہلے آئی ڈی ایف والوں کی ملاقاتیں ڈاکٹر فیصل سلطان اور دیگر سے ہوئیں، فیصل آباد کے ایک ڈیرے کی تصاویر الزام لگایاجا رہا ہے کہ اس میں ڈاکٹرز شامل ہی نہیں تھے بلکہ غیر ڈاکٹر عناصر جنرل کونسل کی میٹنگ پر اسلحہ لے کر پہنچ گئے۔
تازہ ترین اطلاعات ہیں کہ وائے ڈی اے کی قیادت پر قبضے میں ناکامی کے بعد حکمران پارٹی کچھ اداروں کی مدد سے وائے ڈی اے کی فنڈنگ اور اخراجات پر مہم چلانے والی ہے۔ وہ بہرصورت چاہتے ہیں کہ وائے ڈی اے کی وہ قیادت ختم کر دی جائے جو ایم ٹی آئی کے خلاف ہے اوراس کے لئے بھی وہی فارمولہ لگایا جا رہا ہے جو نون لیگ پر لگایا گیاہے۔ عمران خان کو بتایا جا رہا ہے کہ وائے ڈی اے، ، ایم ٹی آئی کی مخالفت نواز لیگ کے کہنے پر کر رہی ہے حالانکہ بے چاری نواز لیگ تو اس وقت اپنی جانیں اور کھالیں بچانے پر لگی ہوئی ہے اور ہر ڈاکٹر ذاتی سیاسی ہمدردیوں سے ہٹ کراپنے پروفیشن کو خالص اورغیرمتنازع دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری نہیں چاہتا، وہ پروفیشن کے تقدس کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عارنہیں کہ میڈیکل کے شعبے کو اس وقت اگر کوئی طاقت زوال اور تباہی سے بچا اور روک سکتی ہے تو وہ خود ڈاکٹرز، نرسز اور پیرا میڈکس ہیں، ایک وقت تھا کہ ان کا اتحادان کی طاقت تھا مگر اب یوں لگتا ہے کہ دشمنوں نے قلعے میں اندر کی طرف سے فصیل توڑنے کا انتظام کیا ہے۔