صدر مملکت عارف علوی نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم شہباز شریف کو کہا ہے کہ وہ انتخابات کروائیں او ر توہین عدالت سے بچیں۔ ان کے خط کی بنیاد یہ ہے کہ حکومتی اداروں نے انتخابات کے انعقاد میں تعاون نہیں کیا جس سے انتخابات کے آئینی مدت سے التوا کی ذمے داری شہباز شریف پربطور روزیراعظم آ سکتی ہے اور وہ توہین عدالت کے مرتکب قرار پا سکتے ہیں۔
صدرعلوی کے خط میں اس نکتے کو عدلیہ کے لئے ایک گائیڈ لائن بھی کہا جاسکتا ہے ورنہ جس وقت پی ٹی آئی انتخابات کی نئی تاریخ پر سپریم کورٹ میں اس مدعے کے ساتھ گئی ہو کہ یہ اقدام آرٹیکل سکس کو لاگو کرتا ہے وہاں صدر علوی کی طرف سے توہین عدالت لگنے کی دھمکی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کو بھی ایوان وزیراعظم سے اسی طرح گھر بھیجا گیا تھا۔ اس موقعے پر نواز شریف نے یوسف رضاگیلانی کے گھر جانے کی حمایت کی تھی اور آج اس کام کے لئے عمران خان دستیاب ہیں لیکن شائد اس مرتبہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اتنی آسانی سے قبول نہیں ہوگا۔
بنیادی، سمجھنے کے لائق بات یہ ہے کہ اگرآئین یہ کہتا ہے کہ کسی بھی وزیراعلیٰ کو اپنی اسمبلی توڑنے کا اختیار ہے تو وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اسمبلیاں پانچ برس کی مدت کے لئے منتخب کی جائیں گی۔ آئین یہ بھی کہتا ہے کہ جب ایک عام سا افسر بھی ایک روپیہ بھی خرچ کرے گا تو اس کا جواز فراہم کرے گا۔ اب یہاں دووزرائے اعلیٰ سے باقاعدہ بلیک میلنگ کرکے اسمبلیاں تڑوائی گئیں اور انتخابات کا اربوں روپوں کاجو خرچ آئین میں دی گئی مدت پوری ہونے پر کیا جانا تھا وہ پہلے قومی خزانے پر ڈال دیا گیا۔
یہ پی ڈی ایم کے اتحاد اور حکومت کی ناکامی ہے کہ وہ عمران خان اور پرویز الٰہی کو کٹہرے میں نہیں لا سکا جس میں یہ دونوں صاحبان ثابت کرتے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حکومتیں اور اسمبلیاں چلنا دونوں ہی ناممکن ہوچکے تھے لہٰذا یہ خرچ ناگزیر تھا۔ ایسا نہیں تھا بلکہ سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ اسمبلیاں اس بدنیتی کے ساتھ توڑی گئی تھیں کہ دباو ڈال کے قومی اور باقی دو صوبائی اسمبلیاں بھی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل کروا لی جائیں گی کیونکہ پی ٹی آئی کے خیال میں اس وقت عمران خان مقبولیت کی انتہا پر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ جب صدر مملکت آئین کی پاسداری کے لئے خط لکھ رہے تھے تو کیا اس سے پہلے وہ خود آئین کے پاسدار رہے ہیں۔ وہ ایک ایسے صدر ہیں جنہوں نے ایک ایسے وزیراعظم کے کہنے پر اسمبلی توڑ دی تھی جس کے پاس اسمبلی میں اکثریت نہیں رہی تھی اور وہ اپنے وفادار ڈپٹی سپیکرکے ذریعے اس آئینی مدت کو پامال کر چکا تھا جس کے اندر تحریک عدم اعتماد پر گنتی ضروری تھی یعنی انہوں نے ایک انجان شخص کے کہنے پر پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کی نمائندہ اسمبلی توڑنے کا حکم جاری کرکے ریاست کی بجائے فرد سے وفاداری نبھائی اور آئین سبوتاژ کیا۔ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح طور پر اس آرٹیکل کی بات کرتا ہے جس کی وہ بات کر رہے ہیں۔
عارف علوی صاحب سے بھی سوال ہونا چاہئے کہ وہ ریاست کی بجائے اس گروہ کے مفادات کا تحفظ کیوں کر رہے ہیں جو قومی اداروں پر حملوں میں ملوث ہے۔ جو تمام اداروں پارلیمنٹ، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور فوج تک کو زیرو کر نے پر تلا ہوا ہے۔ جس کے کارکنوں نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لئے آنے والے پولیس اور رینجرز پر پٹرول بم پھینکے ہیں۔ جس نے اس ملک کو خون کی طرح ضروری ڈالرز کے حصول کے لئے آئی ایم ایف کی سپلائی لائن توڑنے کی سازش کی۔ جس نے امریکا میں تیسری لابنگ فرم ہائر کی ہے تاکہ وہ عمران خان کی زندگی کو لاحق مبینہ خطرات کی بنیاد پر پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف مہم چلاسکے۔
پی ٹی آئی اور اسکے محترم صدرمملکت بضد ہیں کہ انتخابات نوے روز سے آگے نہیں جا سکتے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے حق میں وہ سپریم کورٹ کا وہی فیصلہ پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں تیس اپریل اور اٹھائیس مئی کی تاریخیں ابتدائی طور پر طے ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں تاریخیں نوے روز کے اندر آتی ہیں اور جواب ہے نہیں۔ اگر یہ تاریخیں پہلے ہی ڈیڑھ مہینہ تک کی تاخیر کے ساتھ ہیں تو پھر یہ تاخیر ڈیڑھ کی بجائے تین یا چھ ماہ ہوجائے، کیا فرق پڑتاہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جناب صدر مملکت نے یہ کیسے سوچ لیا کہ اس ملک کی پرانی سیاسی جماعتیں اس مقام اور اس وقت پرسیاسی اورانتخابی میچ کھیلیں گی جس کا فیصلہ عمران خان کریں گے۔
عمران خان جب آئین کی با ت کرتے ہیں توحیران کرتے ہیں۔ کیا اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جلسہ اور مقبولیت، احتجاج اور دھرنے، مخالفین کو نااہل کروانا اور جیلوں میں بند کروانا، الیکٹ ایبلز توڑنا اور آر ٹی ایس بند کروانا، آزاد جیتنے والوں کو اغوا کرکے بنی گالہ پہنچانا اور مخالفوں کی عورتوں تک کو جیلوں میں پہنچانا کیا آئین کے مطابق تھا، بالکل نہیں تھا۔ بات انتخابات اور سیاست کی، کی جائے تو اس وقت خود خانصاحب کے حامی کھلے عام تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے اسمبلیاں توڑ کے حماقت کی، پرویز الٰہی کے مشورے درست تھے۔
پی ڈی ایم اس لئے اسمبلیاں بحال کروانے کے لئے عدالت نہیں گئی کہ وہ ان کی حکومتیں بحال کروانے کیوں جاتی؟ اسے متعصب پی ٹی آئی کی جگہ نیوٹرل نگران حکومتیں مل رہی تھیں۔ عمران خان کو ہم جیسے لوگ مشورے دیتے رہے کہ یہ مت کرو، آئین اور پارلیمانی جمہوریت کے دائرے میں رہو مگر انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ عقل اور منطق کی کوئی بات نہیں سننی۔
آئین خود راہ دیتا ہے کہ جو کام مقررہ مدت میں نہ ہوسکے اس کے اس مدت کے بعد ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے سو اگر وزارت خزانہ نے اس بجٹ میں الیکشن کے لئے اربوں روپے نہیں رکھے تو وہ کہاں سے لائے، اگلے بجٹ میں رکھے جائیں گے۔ نکتہ یہ بھی ہے کہ جب عدلیہ خود آر اوز نہیں دے رہی تو وہ دوسرے اداروں کو کیسے کہہ سکتی ہے کہ وہ لازمی طور پر اپنا عملہ دیں جیسے کہ فوج۔ فوج کہہ رہی ہے کہ وہ سیکورٹی آپریشنز میں مصروف ہے۔ آئینی سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا قومی اسمبلی اوردو صوبائی اسمبلیوں میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں پرالیکشن ہوں گے اور دو صوبوں میں پرانی مردم شماری پر، کیوں؟ جبکہ اس وقت مردم شماری بھی ہورہی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ پوری کوشش کرے گی کہ حکومت کو الیکشن کروانے پر مجبور کرے مگر ایک ٹائم لائن سیٹ ہو چکی ہے۔ جس طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں گذشتہ برس کی دس اپریل اور انتیس نومبر کی تاریخیں اہم تھیں اسی طرح اس برس 6 ستمبر اور پھر16 ستمبر کی تاریخیں اہم ہیں۔ ان میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں گی۔
پی ٹی آئی سسٹم کے اندر موجود طاقت کے دو مراکز سے محروم ہوجائے گی اور اس طرح اس اکتوبر میں اس رجیم چینج آپریشن کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا جو اکتوبر دو ہزار گیار ہ میں ایک جلسے سے شروع ہوا تھا۔ عام انتخابات اکتوبر یا اکتوبر کے بعد ہی ہوں گے اوربارہ برس سے چلنے والا بہت کچھ بدل جائے گا۔