یہ بات سیاست کے ادنی سے طالب علم کو بھی سمجھ آسکتی ہے کہ قومی اسمبلی سے پہلے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات قومی منظرنامے میں ایک نہ ختم ہونے والے تنازعے اور فساد کی بنیاد رکھ دیں گے اور یہ بات انہیں واقعی سمجھ بھی آ رہی ہے جو تنازع اور فساد چاہتے ہیں، ملک میں فتنہ اور اتنشار چاہتے ہیں سو وہ لگے ہوئے ہیں۔
پنجاب اور خیبرپختونخواہ تقریبا تین چوتھائی کے قریب پاکستان بناتے ہیں۔ یہ کامن سینس ہے کہ اگر ان دونوں صوبوں میں قومی اسمبلی سے پہلے انتخابات ہوجاتے ہیں تو کوئی بھی جیتے، چاہے پی ٹی آئی یا نواز لیگ، اس کے مخالف قومی اسمبلی کے انتخابات میں کبھی یہاں کی حکومتوں کو برداشت نہیں کریں گے تو سوال یہ ہے کہ تب کیا کیا جائے گا۔ کیا چند ماہ کی حکومتوں کو ختم کر دیا جائے گا یا معطل۔ آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں ہے مگر ایسی شق موجود ہے جو یہ کہتی ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز منعقد ہوں۔
بہت سارے لوگوں کویاد ہوگا کہ کچھ عشرے قبل اسی آئین کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ دن کروائے جاتے تھے مگر خاص طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج صوبائی اسمبلی کے نتائج پر اثراندا ز ہوجاتے تھے کیونکہ لوگوں کوعلم ہوجاتا تھا کہ وفاق میں کون سی حکومت بننے والی ہے۔ یہ تاثر ایک آزاد اور شفاف صوبائی انتخاب کے لئے نقصان دہ ہوتا تھا۔ عوام ہی نہیں بلکہ بیوروکریسی کی ترجیحات بھی بدل جاتی تھیں۔ جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ایک یا دو روز کی تاخیر بھی مناسب نہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی روز ہوں۔
اس نتیجے پر پہنچنا ہرگز غیر منطقی نہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ فتنے اور فساد کے لئے ہی ہو رہا ہے ورنہ پی ٹی آئی اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس کی مقبولیت کے تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں اور حکمران مہنگائی کی وجہ سے مسلسل غیر مقبول ہو رہے ہیں تو اسے اس عرصے کو انجوائے کرنا چاہئے۔ اپنی مقبولیت میں مزید اضافہ کرنے کے بعد پی ڈی ایم کو چاروں صوبوں میں شکست فاش دینی چاہیے مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ سب بیانیہ صرف اور صرف سوشل میڈیا پر ہی ہے۔
زمینی حقائق بہت مختلف ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پر ہی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے مخالفین کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں جلسے افطاریوں اور بریانیوں کے ذریعے کامیاب ہو رہے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی ایکسپوز ہوئی ہے۔ عمران خان کا ہر مسئلے کا حل ہونے کا دعویٰ ہی نہیں بلکہ صادق اور امین ہونے کا پردہ بھی بری طرح پھٹ گیا ہے۔
میں نے کہا کہ اس نتیجے پر پہنچنا ہرگز غیر منطقی نہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ فتنے اور فساد کے لئے ہی ہو رہا ہے ورنہ پی ٹی آئی کو ان دو صوبوں میں اسمبلیاں توڑنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہ تھی۔ چوہدری پرویزالٰہی اور ان کے صاحبزادے مونس الٰہی کی گواہیاں موجود ہیں کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ذریعے ارکان اسمبلی کے ووٹ استعمال کرنے کی ایک عجیب وغریب تشریح کے ذریعے پنجاب کی حکومت دوبارہ ہتھیا چکے تھے۔
حمزہ شہباز اپنے ہی دوستوں اور مہربانوں سے ناراض ہو کے ملک سے باہر جا چکے تھے۔ یہاں راوی چین ہی چین لکھتا تھا مگر انہوں نے ایک بڑا رسک لیا۔ یہ رسک اس خبردار کرنے کے باوجود لیا گیا کہ آپ زمان پارک میں جن سینکڑوں پولیس والوں کے ذریعے سیکورٹی اور پروٹوکول لے رہے ہیں وہی پولیس والے حکومت ختم ہونے کے بعد آپ کے گھر پر چڑھ دوڑیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ یہ بات نہیں کہ عمران خان نے جمع تفریق نہیں کی تھی۔
فارن فنڈنگ سے توشہ خانہ تک سب معاملات بتاتے ہیں کہ وہ جمع تفریق کرنے میں بہت ماہر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے تھوڑے سے فساد سے پورے ملک میں زیادہ بڑا فساد کھڑا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے لانگ مارچ کیا۔ اسلام آباد پر حملہ آور ہوئے۔ وہ جگہ جگہ آگ لگائی۔ آج وہ عدالتوں میں کتنے آرام سے پیش ہو رہے ہیں مگر انہی عدالتوں میں پیش ہونے کے لئے انہوں نے کارکنوں کو سیکورٹی فورسز کے سامنے کھڑا کیا، ان پر پٹرول بموں سے حملے کروائے۔ کیوں، کیونکہ مقصد واضح تھا کہ وہ فساد چاہتے تھے۔
عمران خان فساد کیوں چاہتے ہیں تو اس کا جواب بہت برس پہلے ڈاکٹر اسرار احمد اور حکیم محمد سعید دونوں دے چکے ہیں۔ ایدھی مرحوم دے چکے ہیں مگر بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تخریب میں ہی تعمیر ہے حالانکہ قرآن نے ایسے لوگوں کے بارے میں بتا دیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم توصرف اصلاح کرنے والے ہیں (بقرہ: 11)۔
اس فساد سے پید ا ہونے والی غیر یقینی صورتحال سے ڈالر مزید مہنگا ہو رہا ہے جس سے لامحالہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ ان لوگوں کے یہی شوق اور مقاصد ہیں۔ وہ بہت سادہ سے منہ بنا کے کہتے ہیں کہ اگر یہ سب کچھ نہیں کرنا تو پھر الیکشن کروا دو اور اس کا جواب یہ ہے تاکہ تمہاری سازش کامیاب ہوجائے۔ پنجاب میں ایک حکومت بن جائے، ہر تھانے دار اور ہر سیکشن افسرکو معلوم ہو کہ اگلے پانچ برس کے لئے یہی حکمران ہیں تو وہ اس کے لئے کام کرنے پر مجبور ہوجائے۔
قومی اسمبلی کے انتخابات میں دھاندلی کے لئے میدان ہموار کر دیا جائے۔ بلکہ کہنے دیجئے کہ یہ صرف انتخابات کی لڑائی نہیں ہے۔ یہ لڑائی ہمیشہ سے عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ اور کچھ طاقتوروں میں رہی ہے۔ آج سے پہلے تاثر یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کا مطلب صرف فوج ہے اور پارلیمنٹ پر جو بھی دباؤ آتا ہے وہ اسی کی طرف سے آتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں وہ ادارہ بھی کھل کے سامنے آ گیا ہے جو ہمیشہ سے وزیراعظموں کوجیلوں میں بھیجتا اور پھانسیوں پر چڑھاتا آیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو مدر آف دی آل انسٹی ٹیوشنز یعنی پارلیمنٹ پر بھی حاوی اور بالادست سمجھتا ہے مگر خود دنیا میں انصاف دینے والوں میں سب سے نیچے ہے۔ وہ ماضی میں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قوانین ہی نہیں بلکہ آئینی ترامیم کو بھی کچرے کے ڈبے میں پھینکتا چلا آیا ہے۔ کسی کو یاد ہو یا نہ ہو کہ ایک چیف جسٹس (سجاد علی شاہ) نے تیرہویں آئینی ترمیم کے ساتھ یہی کیا تھا۔ تیرہویں آئینی ترمیم اس ناجائز صدارتی اختیار کو ختم کرتی تھی جس کے تحت صدر اسمبلیاں توڑ سکتا تھا اور صدورنے اٹھاسی، نوے اور ترانوے کی اسمبلیاں توڑی بھی تھیں۔
آج تاریخ اپنے آپ کو ایک مرتبہ پھر دہرا رہی ہے۔ اس مرتبہ نواز شریف کا بھائی شہباز شریف ڈرائیونگ سیٹ پر ہے جسے اپنی بھتیجی مریم نواز کے جوش کے ساتھ ساتھ اپنے ہوش کی مدد بھی حاصل ہے۔ مسلم لیگ نون نے ہمیشہ مقتدر قوتوں کی ان سازشوں کا مقابلہ کیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ابھی کچھ دن پہلے تبصرہ کیا جا رہا تھا کہ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ماضی کا حصہ بن چکیں، ان کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں۔
مجھے اس پر ہنسی آ گئی۔ میں یہ تبصرے اور پیشین گوئیاں نوے کی دہائی سے سن رہا ہوں۔ ہر مرتبہ یہی کہا جاتا تھا کہ نواز لیگ ختم ہوگئی اور خاص طور پر پرویز مشرف کے مارشل لاء میں۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ نواز شریف اسی مارشل لاء کو شکست دے کروزیراعظم بنے۔ شہباز شریف دومرتبہ وزیراعلیٰ اور پھر وزیراعظم بنے۔ میں یہی کہوں گا کہ آپ نواز لیگ کی طاقت کو انڈر اسٹیمیٹ کر رہے ہیں، آپ جیسے بہت آئے اورچلے گئے مگر عوام کی حقیقی نمائندہ طاقتیں موجود ہیں۔ آپ چند ماہ کی طاقت کے غرور میں غلطی کر رہے ہیں۔