مفتی محمد حسین نعیمی کی قائم کردہ دینی علوم کی درسگاہ جامعہ نعیمیہ کو دوسرے اداروں پر ایک فوقیت حاصل ہے کہ اس کی پہلی ترجیحات اسلام اور پاکستان ہیں ورنہ ہمارے بہت سارے ادارے اور شخصیات اس شعر کا عکس ہیں، عجیب تیری سیاست عجیب تیرا نظام، یزید سے بھی مراسم اور حسین کو بھی سلام، جی ہاں، ہم نے دہشت گردی کی بڑی لہر میں دیکھا کہ بہت ساروں کا عشق قاتل سے بھی تھااور وہ مقتول سے ہمدردی کے دعوے بھی کرتے تھے۔
بہت اچھے اور بہت نیک لوگ تھے مگر وہ فوج کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہادتوں کو مشکوک بھی بناتے تھے اور دہشت گردی میں مرنے والوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے ٹسوے بھی بہاتے تھے مگر ایسے میں ایک ایسا ادارہ تھا جس کے بانی کے بہادر اور نیک بیٹے نے رسول اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا۔
میرے آقا، میرے سرکار ﷺ نے فرمایا تھا، خدا کی قسم! وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند لاکے رکھد یں اور یہ چاہیں کہ میں خدا کا حکم ا س کی مخلوق کو نہ پہنچاوں، میں ہرگز اس کے لئے آمادہ نہیں ہوں یہاں تک کہ خدا کا سچا دین لوگوں میں پھیل جائے یا کم از کم میں اس جدوجہد میں اپنی جان دے دوں، اللہ اللہ، مفتی محمد حسین نعیمی کے درویش اور مست ملنگ صاحبزادے علامہ سرفراز حسین نعیمی نے اپنی جامعہ میں تمام علمائے کرام کو اکٹھا کیا اور اس دہشت گردی کے خلاف اس وقت فتویٰ دیا جب ہر دوسرے، چوتھے روز کسی نہ کسی بڑے واقعے میں پاکستان کے اداروں کے لوگوں یا گلیوں بازاروں میں عوام کو بم دھماکوں کے ذریعے مارا جا رہا تھا۔
ان کا دیا ہوا فتویٰ اور اعلان واضح اور دوٹوک تھا کہ اسلامی ریاست کے اندر جہاد کے نام پر فساد برپا نہیں کیا جا سکتا۔ کسی جنگ میں شامل نہ ہونے والے بے گناہ اور غیر مسلح شخص کو ہلاک نہیں کیاجا سکتا۔ عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو نشانہ نہیں بنا یا جا سکتا۔ یہ وہ پیغام تھا جو رحمت للعالمین کا پیغام تھا۔ یہ وہ پیغام تھا جو فاتح مکہ کا پیغام تھا۔ علامہ سرفراز حسین نعیمی نے یہ پیغام بغیر کسی اگر، مگر کے پہنچا دیا اور پھر وہی ہوا جس کا ذکر دنیا کی سب سے سچی خبریں دینے والے ہادی برحق نے کیا تھا۔ علامہ سرفراز نعیمی کو جامعہ نعیمیہ میں ہی بم دھماکہ کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔
میں جب جامعہ نعیمیہ کے 70ویں سالانہ جلسہ دستار فضیلت، 28 ویں سالانہ مفتی محمد حسین نعیمی سیمینار اور 14 ویں سالانہ شہید پاکستان سیمینار میں شرکت کر رہا تھا تو میرے ایک طرف علامہ سرفراز نعیمی شہید کا مزار تھا اوراس تک جاتی ہوئی نظر میں پہلے روسٹروم پر علامہ راغب نعیمی تھے جو جامعہ نعیمیہ کے تین بنیادی اصول بیان کر رہے تھے، اول یہ کہ جامعہ نعیمیہ کو ریاست کے اندر ریاست کا تصور قبول نہیں ہے جس سے فساد پیدا ہوتا ہے، دوم یہ کہ جامعہ نعیمیہ ایسے کسی مسلح گروہ کے ساتھ نہیں ہے جو چاہے کسی بہت ہی پرکشش نعرے کے ساتھ بدامنی پھیلا رہا ہو، سوم یہ کہ جامعہ نعیمیہ امن قائم کرنے کے لئے پاکستان کی مسلح افواج سمیت تمام ریاستی اداروں کے ساتھ ہے۔
مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ ایسا واضح اور دوٹوک پیغام وہی دے سکتا ہے جو اسلام اور پاکستان کا حقیقی فرزند ہو اور اپنی نظریاتی ولدیت میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ رکھتا ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے بہت سارے اداروں (اور دینی سیاسی جماعتوں ) کی ترجیحات میں ان کا وطن ان کے بہت سارے ذاتی، گروہی اور (معذرت کے ساتھ) مالی مفادات کی قطار میں بہت پیچھے ہے۔ کسی کی ایک ملک اور اس کی قیادت کے ساتھ وفاداری ہے تو کسی کی کسی دوسرے ملک اوراس کی قیادت کے ساتھ۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ طویل عرصہ ان اداروں کو ان ملکوں کی طرف سے بھاری مالی امداد بھی ملتی رہی ہے جس سے ہمارے پیدل چلنے والے مولوی حضرات کے نیچے پراڈو ئیں اور لینڈکروزریں آ گئی ہیں۔ میں دینی اداروں کے خصوصی آڈٹ اور مالی معاملات میں سختیوں کا کبھی حامی نہیں رہا مگر وہاں کیا کیا جائے جہاں تہہ خانوں میں اسلحہ خانے بنے ہوں اور لاہور جیسے شہر میں بھی بعض علاقے، علاقہ غیر۔ مجھے یادآیا کہ جب شہید پاکستان علامہ سرفراز نعیمی حیات تھے تو ایک روز میرے پروگرام میں تشریف لاتے ہوئے انہیں کافی تاخیر ہوگئی۔
میں نے وجہ پوچھی تو پتا چلا کہ اپنی پرانی موٹرسائیکل پر آ رہے تھے اور وہ راستے میں خراب ہوگئی تھی۔ مجھے گواہی دینے میں عار نہیں کہ ڈاکٹر راغب نعیمی اپنے والد اور دادا کی روایات کے نقیب ہیں۔ میں نے انہیں قائل کیا کہ آپ بہت سارے وہ کام خود کرتے ہیں جو ایک پندرہ بیس ہزار روپے ماہانہ پر ملازم کر سکتا ہے۔ آپ کا وقت اور آپکی توجہ زیادہ قیمتی ہیں۔ آپ انہیں ڈرائیونگ یا اس جیسے دوسرے کاموں میں صرف کر کے دراصل جامعہ نعیمیہ کا اور اپنے شاگردوں کا علمی اور عملی نقصان کرتے ہیں۔
مجھے ویسے بھی اپنے بریلوی بھائی اس سے پیارے لگتے تھے کہ یہ متشدد نہیں تھے۔ مجھے دعوت اسلامی کو بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس کے ساتھی ایک دوسرے کو میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو کہہ کے پکارتے ہیں۔ یہ سب واقعی بہت میٹھے میٹھے ہوتے تھے۔ حلوہ کھانے والے۔ پھر یوں کہ کسی نے ان کے حلوے میں بھی زہر ملا دیا۔
میں ذکر کر رہا تھا کہ لاہور جیسے شہر میں محرم الحرام کے دوران جب اہل تشیع بھائی نواسہ رسول کی مظلومانہ شہادت پر ماتمی جلوس نکالا کرتے تھے تویہی میٹھے میٹھے اسلامی بھائی کرشن نگر اور سنت نگر کی گلیوں میں دود ھ اور شربت کی سبیلیں لگایا کرتے تھے مگر پھر وہ رواداری ہوا ہوگئی۔ اب تو بریلویوں کی ایک جماعت بھی خاصی غصہ آور ہے۔
میں جامعہ نعیمیہ میں جب بات کر رہا تھا تومجھے احساس تھا کہ یہاں کے اساتذہ کرام تو ایک طرف رہے میں تو اپنے دینی علم میں ان شاگردوں سے بھی بہت، بہت پیچھے ہوں جو آج درس نظامی مکمل کر نے سند لے رہے ہیں مگر میرا مشاہدے اور تجربے کا میدان ان سے مختلف ہے۔
جامعہ نعیمیہ دوسرے اداروں سے اس لئے بھی مختلف ہے کہ بہت سارے بڑے بڑے ناموں سے تہجد کے وقت جاگ جاگ کے اپنے قلم سے بہت ساری ناقابل فراموش تحریریں رقم کی ہوں گی، علم وفکر کی گتھیاں سلجھائی ہوں گی، بیسیویں جلدیں مرتب کی ہوں گی مگر جامعہ نعیمیہ کے علامہ سرفراز حسین نعیمی نے اپنے وارثوں اور طالب علموں کے لئے جو نصاب مرتب کیا ہے وہ کسی قلم کی سیاہی سے نہیں بلکہ اپنے لہو کی روشنائی سے کیا ہے۔
یہ نصاب امن کے اس پیغام کا ہے جو آج سے ساڑھے چودہ سو برس پہلے رحمت اللعالمین لے کر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ جامعہ نعیمیہ کو تاقیامت رشد و ہدایت کا سرچشمہ بنائے رکھیں، یہا ں سے محبت کے سوتے پھوٹتے رہیں، یہ امن کامرکزاور گہوارہ بنا رہے۔