آہ، نئی بات کے گروپ ایڈیٹر عطاء الرحمان بھی وہاں چلے گئے جہاں ہم سب نے چلے جانا ہے، اس سے پہلے رؤف طاہر بھی روانہ ہو چکے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی پاکستانی چوک اچھرہ کے قریب اس قبرستان سے واپس لوٹا ہوں جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ میں نے وہاں جناب مجیب الرحمان شامی کو پہلی مرتبہ آنسووں کے ساتھ دھاڑیں مار مار کے روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کیوں نہ روتے کہ ان کا برسوں نہیں بلکہ عشروں کاتعلق تھا، بہت ساری کھٹی میٹھی یادیں تھیں۔
جناب عطاء الرحمان کو آج الیکٹرانک میڈیا کی چکا چونک والی جھوٹی زندگی اور پانی کے بلبلے جیسی عارضی صحافت کے عادی نہیں جانتے ہوں گے مگر میں انہیں اس وقت سے جانتا ہوں کہ جب وہ نوائے وقت میں کالم لکھا کرتے تھے اور پھر اس کے بعد انہوں نے چیئرمین سپیرئیر گروپ جناب چوہدری عبدالرحمن کے ساتھ سپیرئیر یونیورسٹی میں صحافت کا شعبہ قائم کیا۔ ان کاو یژن تھا کہ وہ اچھے پاکستانی اور سچے مسلمان صحافی قوم کو دینا چاہتے ہیں اور انہوں نے اس شعبے کو کامیاب کر کے دکھایا۔ اس کے بعد روزنامہ نئی بات شروع ہوا تواس نے دوسرے نئے اخبارات کے برعکس ان کی ادارت میں ایک عجیب کام کیا کہ نہ پگڑیاں اچھالیں اور نہ ہی سنسنی خیزی پھیلائی۔
مجھے عطا صاحب نے سپیرئیر یونیورسٹی بھی بلایا کہ طالبعلموں کو حقیقی صحافت پڑھاؤں اوراس کے بعد ان سے نئی بات اخبار میں بھی خصوصی تعلق قائم رہا۔ اب ان کا دفتر مین گیٹ کے بالکل ساتھ تھا جسے میں اپنا دفتر بھی کہتا اور سمجھتاہوں، میں شام کو پروگرام کرنے کے لئے دفتر پہنچتا تو ان کے ساتھ گپ شپ ہوجاتی، میں اور وہ ایک ہی سیاسی نقطہ نظر رکھتے تھے اورکچھ اختلاف کے ساتھ، سو خوب بحث ہوتی، فقرے اور نکتے دئیے اور لئے جاتے۔
جناب عطاء الرحمان کا جنازہ پاکستانی چوک اچھرہ کے ساتھ اندر گلی میں اسی گھر سے اٹھا جس گھر میں وہ پیدا ہوئے اور وہیں عمر گزار دی۔ عطاء الرحمان صاحب کا میاں نواز شریف سے خصوصی تعلق تھا۔ ابھی برادر مبین رشید مجھے جنازے میں کہہ رہے تھے کہ میں ا ن کے داماد ساجد کا نمبر شیئرکروں کہ میاں نوازشریف ان سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک دھوم ہے کہ نواز شریف اپنے حامی صحافیوں کو لفافے دیتے ہیں مگر رؤف طاہر کے بعد عطاء الرحمان دونوں ہی مڈل کلا س سے تھے اور مڈل کلاس سے ہی رخصت ہوگئے۔
رؤف بھائی تو زندگی بھر کی جدوجہد اور بیرون ملک نوکری کے بعد اپنا گھر بنانے میں کامیاب رہے مگر عطاء الرحمان صاحب نے کیا بنایا، ایک مسجد جس کا نام مسجد زہرہ حمید ہے اور وہ ماربل مارکیٹ اچھرہ کے ساتھ اندر گلی میں ہے۔ یہ اس پلاٹ پر بنائی گئی ہے جس کی مالک ان کی بہن اور بہنوئی تھے جن کی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے وصیت کی کہ ان کے گھرکے قیمتی پلاٹ پر ان کے ایصال ثواب کے لئے مسجد بنا دی جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے ایک لمبی قانونی لڑائی بھی لڑی کیونکہ کچھ قریبی لوگوں کی نظرا س قیمتی پلاٹ پر تھی اور وہ ان کی وصیت کے خلاف اسے ہتھیانا چاہتے تھے۔
عطاء الرحمان صاحب بھی کیا درویش آدمی تھے کہ زندگی بھر میں کچھ بنایا بھی تو ایک خوبصورت مسجد اوراس کے ساتھ تھوڑی سی بچی ہوئی جگہ پر قرآن اکیڈمی بنانا چاہتے تھے۔ مجھے انہوں نے تعمیر مکمل ہونے پر وہاں نماز جمعہ پڑھنے کے لئے محبت اور اصرار کے ساتھ دعوت دی۔ میں جامعہ مسجد زہرہ حمید گیا تو مولوی صاحب کی تقریر سن کرحیران رہ گیا، وہ پکے بریلوی تھے اور بریلوی مکتبہ فکر کے نظریات کا تقریر میں کھل کر اظہار بھی کر رہے تھے۔
آپ کہیں گے کہ یہ حیرانی والی کیا بات ہوئی کہ یہاں سینکڑوں بلکہ ہزاروں مساجد بریلویوں کی ہیں۔ مجھے حیرت یہ ہوئی کہ عطا الرحمان صاحب خود دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ا چھرے میں رہتے ہوئے ان کی سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے خصوصی نیاز مندی تھی اوران کے گھر ہی پائے جاتے تھے۔ میری حیرانی پر وہ ہنسنے لگے اور کہا یہ مسجد اہل علاقہ کے لئے ہے، میری ذاتی جاگیر نہیں ہے، اہل علاقہ جس مسلک سے تعلق رکھتے ہیں امام بھی انہی کے مسلک کا ہو گا۔ اس جواب پر میں عطاء الرحمان صاحب کے دینی فہم اور بڑے ظرف کا مزید مداح ہو گیا۔ وہ ملک میں آئین اور جمہوریت کے لئے نواز شریف کی جدوجہد کو سراہتے تھے اور میں انہیں تنگ کرنے کے لئے شرارتی تنقید کرتا تھا۔
آپ عطاء الرحمان صاحب کو سمجھنا چاہتے ہیں تو اس طرح سمجھیں کہ وہ مولانا مودودی کی طرح اسلام چاہتے تھے اور نواز شریف کی طرح جمہوریت، نوازشریف انہیں اکثر مشورے کے لئے بلا بھی لیا کرتے تھے اور یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ فلاں ایشو پر کیا نکتہ نظر ہو، اس پر پوائنٹس لکھ کر فیکس کردو، ایسے بہت سارے واقعات وہ سنایا کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کی سب سے اہم شے ان سے کئے ہوئے ایک انٹرویو میں سامنے آئی کہ وہ کتنے بڑے رجائیت پسند تھے۔
وہ الیکٹرا نک میڈیا سے نہیں تھے اور ایسے لوگ عمومی طور پر الیکٹرانک میڈیا شدید تنقید کا نشانہ بناتے تھے مگر وہ جدت اور ترقی کے حامی تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ جب اخبارات کاتبوں سے کمپیوٹرائزڈ کمپوزنگ پر منتقل ہوئے توکہا گیا کہ اب کاتب کیا کریں گے، وہ بے روزگار ہوجائیں گے مگر اس ترقی نے کمپیوٹر آپریٹرز کی نوکریاں پیدا کر دیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہماری نئی نسل بہت بدتمیز اور آوارہ ہوتی جا رہی ہے، انٹرنیٹ نے بھی تباہی پھیر دی ہے تو فرمانے لگے ایسا ہرگز نہیں، یہ تو والدین کی تربیت پر ہے، ان کی اولاد تو اب بھی ان کا ایسا ہی احترام کرتی ہے جیسے وہ خود اپنے والدین کا کرتے تھے یااس سے بھی کچھ بڑھ کے۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ہم میں سے نظرئیے، ایمان اور دیانت والے رجائیت پسند تیزی سے کم ہوتے چلے جار ہے ہیں، پیسے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، اب خبر کم اور گالی زیادہ بکتی ہے مگر اس دور میں بھی جناب عطاء الرحمان اپنی ذات میں تہذیب و تمدن کاایک ادارہ تھے۔ یہاں مجھے چیئرمین نئی بات میڈیا گروپ کو بھی کریڈٹ دینا ہے کہ ان کے ساتھ جورشتہ قائم کیا تو ان کی آخری سانسو ں تک نبھایا۔
مجھے یاد ہے کہ ایک آدھ مرتبہ کچھ ایسا ہوا جو انسانی رشتوں اور تعلقات میں ہوجاتاہے مگر اس کے بعد انتہائی شاندار انداز میں تعلق، محبت اور وفا نے ہی بازی جیتی۔ ایک وقت تھا کہ نوائے وقت کو ہی تہذیب، روایات اور نظرئیے کا علمبردار سمجھا جاتا تھا مگر جناب عطاء الرحمان نے اسلام اور جمہوریت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ نئی بات، کو مہذب صحافت کا بھی قلعہ بنا دیا۔ وہ زرد صحافت کے سخت خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں ہمیشہ حقیقت، منطق اور اصول کوبنیادی اصول بنایا۔ عطاء الرحمان صاحب چلے گئے مگر وہ اپنے اصول اوراپنی رہنمائی چھوڑ گئے ہیں۔ وہ ہمیں بتا کر گئے ہیں کہ پیسے اور طاقت سے زیادہ اہم اصول اور نظریات ہیں، قوم کے لئے خدمات ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جناب عطاء الرحمان کے وطن کو اسلام اور جمہوریت کا گہوارہ بنائیں، یہاں آئین اور قانون کی بالادستی فرمائے جس کے لئے وہ زندگی بھر بہت ایمانداری اور دیانتداری کے ساتھ قلمی جہاد کرتے رہے۔ خدائے بزرگ و برتر انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام سے نوازے، آمین۔