میں آج تک یہ فیصلہ نہیں کرپایا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب زیادہ اچھا سوچتے ہیں، زیادہ اچھا بولتے ہیں یا زیادہ اچھا عمل کرتے ہیں۔ یہ کنفیوژن اس وقت عروج پر پہنچی جب ہم سب للیانی والی نہر کے کنارے بنی اخوت یونیورسٹی میں اتوار کے روزدھوپ تاپ رہے تھے۔ ہمیں اس پرتکلف ناشتے کا انتظار تھا جس کی دعوت لاہور بھر کے سینئر صحافیوں کو دی گئی تھی مگر اس سے پہلے اس عظیم کام کو خراج تحسین پیش کرنا تھا جو اخوت پلیٹ فارم سے کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بتا رہے تھے کہ اخوت یونیورسٹی کا قیام ایک خواب لگتا تھا جس میں بغیر کسی فیس کے طالب علموں کو پڑھایا جانا تھا۔ یہاں ایک الٹ کام ہونا تھا کہ دنیا بھر میں پہلے فیس لی جاتی ہے اور پھرپڑھایا جاتا ہے مگریہاں تصور یہ تھا کہ پہلے پڑھایا جائے گا اور پھر اس کے بعدطالب علم اپنی فیس ادا کریں گے جب وہ کمانے لگیں گے۔
بنیادی طور پر یہ آئیڈیا اخوت کا ہے جو اس وقت دنیا میں بلاسود قرضوں کا سب سے بڑا نظام ہے۔ اخوت کے زیر اہتمام اب تک چالیس لاکھ پاکستانیوں کو ایک سو پچیس ارب روپوں کا بلاسود قرض فراہم کر کے حقیقی معنوں میں پاوں پر کھڑا کیا جا چکا ہے۔ مجھے یاد آیا کہ آج سے دس، گیارہ برس پہلے جب شہباز شریف اپنے دس سالہ دور کا پہلا بجٹ دے رہے تھے تو انہوں نے ہم صحافیوں کوظہرانے پر بلایا اور دو روپے کی روٹی کی سکیم کی بہت تعریف کی۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ ہوسکتا ہے کہ اس سکیم کے غریب اورمستحق افراد کے لئے بہت فوائد ہوں مگر میری نظر میں غریب کو مچھلی دینا درست عمل نہیں، غریب کومچھلی پکڑنا سکھائیے تاکہ وہ شکار کرے، خود بھی کھائے اور اپنے بچوں کو بھی کھلائے اور بازار میں بیچ کر اسے اپنا روزگار بنائے۔ میں نے اس موقعے پر اخوت کے ماڈل کی مثال دی تھی اور بعدازاں حکومت پنجاب اور اخوت قرضوں کے اس ماڈل میں پارٹنر بن گئے تھے جس نے لاکھوں گھرانوں کی تقدیر ہی بدل ڈالی۔
میں ذاتی طور پر کسی بھی انقلاب کا مخالف ہوں کیونکہ انقلاب ہمیشہ خون بہاتے ہیں اور مجھے بہتے ہوئے خون سے نفرت ہے، ، انقلاب ہمیشہ ایک طبقے کو بالادست کرتے ہیں اور دوسرے کو زیر دست اور میں کسی ایک طبقے کی بالادستی سے بھی نفرت کرتا ہوں۔ میری نظر میں اصل انقلاب اور تبدیلی یہ ہے کہ آپ کسی خاندان کو تعلیم دے دیں یا اسے روزگار دے دیں اور اخوت حقیقی معنوں میں انقلاب برپا کر رہی ہے، تبدیلی لا رہی ہے جو کسی بھی سیاستدان کی لائی ہوئی تبدیلی سے کہیں زیادہ بہتر اور متاثر کن ہے۔ اخوت مسجد میں بیٹھ کر بلاسود قرض دیتی ہے۔ اس قرض اور اس کی ننانوے فیصد سے بھی زیادہ واپسی نے ایک اور پروپیگنڈے کا گلا گھونٹا ہے کہ پاکستانی بنیادی طور پر ایک کرپٹ قوم ہیں۔ یہ شور بہت سارے لوگ اپنے مفادات کے لئے مچاتے ہیں کہ پاکستانی چور ہیں، یہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے مگر اخوت کے زیر اہتمام چالیس لاکھ افراد کو ملنے والا قرض ثابت کرتا ہے کہ پاکستانیوں کو اگر وسائل فراہم کئے جائیں تو وہ، محنت اور دیانت کی تاریخ ساز کہانیاں لکھ سکتے ہیں اور رلکھ رہے ہیں مگر کچھ کرپٹ، کام چور اور نااہل سیاستدان انہیں کرپٹ، چور اور نااہل ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ انکی اپنی کرپشن، چوری اور نااہلی پر انگلی نہ اٹھائی جا سکے۔
بات ہور ہی تھی اخوت یونیورسٹی کی۔ جب یہ کہا جاتا تھا کہ اس کی عمارت کی تعمیر کے لئے پچاس کروڑ روپے درکار ہوں گے اور یہ پچاس کروڑ روپے کسی حکومتی مدد کے بغیر جمع کرنے ہوں گے۔ فیصلہ ہوا کہ اس عمارت کی پانچ لاکھ اینٹیں بیچی جائیں گی اورہر اینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے ہو گی۔ پھر یوں ہوا کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے اخوت سے قرض لے کر اپنے کاروبار کا آغاز کیا تھا ان میں سے کسی نے ایک اینٹ خریدی اور کسی نے دو۔ راجن پور کی بزرگ خاتون نے آدھی اینٹ خریدی کیونکہ ان کے پاس صرف پانچ سو روپے تھے اوریوں مجھے وہ حدیث مبارک یاد آ گئی کہ کسی مسجد میں ایک اینٹ بھی لگا دینا پوری مسجد کی تعمیر کا ثواب دے دیتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب بتا رہے تھے کہ یہاں وال آف فاونڈرز بن رہی ہے جس پر ان چودہ ہزار افراد کے نام لکھے جائیں گے جنہوں نے اس کی اینٹیں خریدیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ایمان، دیانت، صداقت، لیاقت ماضی کی کہانیاں نہیں ہیں اور یہ کہ بہت ساری باتوں کو ابھی ہونا ہے جو بہت اچھی باتیں ہیں۔
ناشتے سے پہلے بڑے بڑے دانشوروں کے ساتھ دھوپ سینکتے ہوئے ہم اپنے اپنے اندیشوں کے سانپوں کی پھنکاریں سن رہے تھے، کہا جا رہا تھا کہ پہلے جوباتیں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں ہوتی تھیں وہ اب پنجاب میں بھی ہونے لگی ہیں، یہ وہی باتیں جو مشرقی پاکستان میں ہوا کرتی تھیں اور ایک سیاہ دن کو وہ بنگلہ دیش بن گیا تھا۔ تقریب میں اخوت یونیورسٹی کے طالب علموں میں سے کوئی بتا رہا تھا کہ وہ چاغی سے آیا ہے، کوئی بتا رہا تھا کہ اس کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، پندرہ فیصد طالب علم ہر صوبے سے لئے گئے ہیں اور یوں للیانی کی نہر کنارے ایک چھوٹا سا پاکستان آباد کر دیا گیا ہے۔ مجھے یوں لگا کہ میں اس چڑیا کے ساتھ ساتھ محوپرواز ہوں جو بہت جلتی اور بھڑکتی آگ میں اپنی چونچ میں بھر کر لائے جانے والے پانی کے قطرے پھینک رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ آگ بجھ جائے گی۔ مجھے واقعی علم نہیں کہ آگ بجھے گی یا نہیں مگر مجھے اتنا ضرور علم ہے کہ اخوت نے اپنے حصے کا پانی آگ پر ضرور ڈال دیا ہے بلکہ ہر اس شخص نے ڈال دیا ہے جو اس کا ممدو معاون ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کلاتھ بینک کی بھی بات کر رہے تھے جس میں ہزاروں پاکستانیوں نے ان کو کپڑے دئیے اور انہوں نے مستحقین تک پہنچا دئیے۔ خواجہ سراوں کے لئے ان کے پروگرام کا تو میں ذاتی اور عینی شاہد ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ خواجہ سرا وہی ہوتے ہیں جو بھاری بھاری میک اپ کر کے محفلوں میں ناچتے ہیں اور ان پر ہزاروں روپے پھینکے جاتے ہیں۔ میک اپ سے لتھڑ کر خوبصورت بنے چہرے ہی خواجہ سر انہیں ہوتے بلکہ میں نے فاونٹین ہاوس میں ان خواجہ سراوں کو دیکھا ہے جو بوڑھے ہو چکے، جو بیماریوں کا شکار ہو چکے اور ڈاکٹر امجد ثاقب کا خواجہ سراوں کی مدد اور بحالی کا پروگرام ان کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہے، جسمانی زخموں پر بھی اور روحانی زخموں پر بھی۔ ´
یہ عین ممکن ہے کہ ہم بہت ساری نمازیں پڑھیں تو وہ نمازیں ہمارے منہ پر گندے کپڑے کی طرح لپیٹ کر مار دی جائیں مگر یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنے رب کے کسی مجبور ار محتاج بندے کی مدد کریں اور اس کا بدلہ ہمیں نہ ملے۔ ہم ایک اینٹ ہی خرید لیں، ہم اخوت کو ایک ایس ایم ایس ہی کر دیں، مجھے پورا یقین ہے کہ یہ ضائع نہیں جائے گا اور اس کا بھرپور اجر ملے گا۔ یہ جنت کا پکا اور یقینی راستہ ہے جو اللہ کی مخلوق کی مدد کے ذریعے بن رہا ہے۔ میں کروڑوں اہل ایما ن سے پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر وہ جنت میں جانا چاہتے ہیں تو یہ شارٹ کٹ ہے، یقینی ہے۔ ہم چاند پر پلاٹ نہیں خرید سکتے مگر جنت میں ضرور خرید سکتے ہیں اگر ہم اخوت کی مدد کریں۔ خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے، ہم اس کے بندے کیوں نہ بنیں جسے خدا کے بندوں سے پیار ہو´۔