Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Kachay Ka Operation

Kachay Ka Operation

سچ تو یہ ہے کہ مجھے کچے کے آپریشن میں اس وقت دلچسپی محسوس ہوئی جب میں نے خبر دیکھی کہ آئی جی پنجاب عثمان انور اس آپریشن کی خود قیادت کر رہے ہیں، نہ صرف ان پر حملہ ہوا بلکہ ایک جوان بھی زخمی ہوا۔ اس آپریشن کے لئے گیارہ ہزار پولیس والے جنوبی پنجاب پہنچائے گئے ہیں۔

سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ کچہ کیا ہے اور وہاں پر ڈاکو کیوں ہیں۔ کچے کے علاقے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ وہ وسیع میدانی علاقہ ہے جہاں دریائے سندھ اپنی تیز ترین لہروں کے ساتھ بہتا ہوا پہنچتا ہے تواس کا پاٹ بہت وسیع ہوجاتا ہے، بعض جگہو ں پر پچیس کلومیٹر تک، یہاں یہ دریا چھوٹے بڑے ندی نالوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور ان کے درمیان بہت سارے جزیرے بن جاتے ہیں، کئی جزیرے کئی کلومیٹر لمبے چوڑے، علاقہ انتہائی زرخیز مگر ساتھ ہی دلدلی بھی ہوجاتا ہے۔

کچے کے آپریشن کے حوالے سے کئی طرح کے ابہام موجود ہیں سب سے پہلا یہ کہ پچھلے بیس برسوں میں کئی مرتبہ یہاں آپریشن ہوچکے۔ اس میں پانچ چھ برس پرانا چھوٹو گینگ کا آپریشن بھی شامل ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی درخواست پر پاک فوج بھی شامل ہوئی، ہیلی کاپٹر تک استعمال کئے گئے اور پھر غلام رسول عرف چھوٹو کے گینگ نے ہتھیار ڈال دئیے مگر آپریشن ہونے کے بعد علاقہ پھر نو گو ایریا بن جاتا ہے۔

پیپلزپارٹی کے ایم پی اے ممتاز چانگ جو کہ کچے کے علاقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور اپنے علاقے میں امن کے لئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھاتے رہے ہیں، برملا کہتے ہیں کہ پچھلے چار برسوں میں جہاں ہر طرف تباہی ہوئی وہاں کچے کے علاقے میں بھی دوبارہ ڈاکو راج قائم ہوگیا۔

وہ اب تک آپریشن کے حوالے سے کچھ زیادہ مطمئن نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ جن پولیس افسران کے کچے کے ڈاکووں کے ساتھ تعلقات ہیں، سب سے پہلی ضرورت انہیں ہٹانا ہے کیونکہ وہ ڈاکووں کے ساتھی ہیں، وہ کچے میں بڑی زمینیں اور جائیدادیں خرید چکے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ان سیاسی لوگوں کی فہرستیں بھی حساس اداروں کے پاس موجود ہیں جوڈاکووں کے سرپرست اور سہولت کار ہیں۔

ا ب یہ سہولت کار ایک الگ اور بڑا مسئلہ ہیں کیونکہ ڈاکو تو کچے کے علاقے میں ہوتے ہیں اور انہیں کیا علم کہ رحیم یارخان، صادق آباد، راجن پور، گھوٹکی، بہاولپور اور دیگر شہروں میں کس کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ یہ سہولت کار نہ صرف انفارمیشن دیتے ہیں بلکہ لوگوں کو ہنی ٹریپ، کے ذریعے ڈاکووں تک پہنچایا جاتا ہے جیسے لڑکے لڑکیوں کے چکر میں آجاتے ہیں اور کئی لوگ کاروبار کے لالچ میں۔ ایک اور دلچسپ سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ یہ آپریشن ہر مرتبہ گندم کی کٹائی کے موسم میں ہی کیوں ہوتا ہے۔

میں نے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیر خزانہ محسن لغاری سے پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ میں تو سنی سنائی ہی باتیں بتا سکتا ہوں کیونکہ یہ میرا علاقہ نہیں اور سنی سنائی باتیں یہ ہیں کہ ایک طر ف ڈاکو اور دوسری طرف پولیس اس زرخیز علاقے کی گندم اٹھانے کے لئے پہنچتی ہے تاہم انہوں نے احسان کیا کہ مجھے میر بلخ شیر مزاری کے صاحبزادے اور رکن قومی اسمبلی سردار ریاض مزاری سے بات کروا دی۔

سردار صاحب نے بھی آپریشن کے حوالے سے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ بے گناہ لوگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے تاہم دوسری طرف انہوں نے گندم والی کہانی کو غلط قرار دیا اور کہا کہ جب دریائے سندھ میں پانی آتا ہے تو ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے لہٰذا تب آپریشن نہیں ہوسکتا اور دوسری طرف جب کماد لگ جاتا ہے تو یہ اندرون پنجاب سے اونچا اور بڑا کماد ہوتاہے۔ اس میں کون کہاں چھپا ہوا ہے، اسے تلاش نہیں کیا جاسکتا لہٰذا آپریشن کے لئے یہی موسم اور مہینے درست ہیں۔

شہزادہ سلطان، پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی (آپریشنز) ہیں اور وہ کچے کے آپریشن کے دوران کئی دن وہاں رہ کے تمام چیزیں قریب سے دیکھ کے آئے ہیں۔ وہ سیاسی سوالوں کے جواب دینے سے تو معذرت کرتے ہیں جیسے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ پکے کے علاقے میں تو ایک گھر تک پورا زور لگا کے نہیں پہنچ سکے تو آپ کچے کے علاقے میں ڈاکووں تک کیسے پہنچیں گے۔ سو ہمارا اتفاق ہوا کہ وہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیں گے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان ہزاروں افسروں اور جوانوں کی حوصلہ شکنی نہیں کرنی چاہئے جو رمضان کے مہینے کے باوجود صرف اور صرف امن کے قیام کے لئے وہاں پہنچے ہوئے ہیں۔

وہ گندم والی کہانی کومحض کہانی ہی قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اطلاعات کی تصدیق کرنی چاہئے۔ وہ اس موقف کو غلط قرار دیتے ہیں کہ ان بارہ دنوں میں کوئی بڑا ڈاکو گرفتار نہیں ہوا یا کسی مشہور گروہ کے بندے مارے نہیں گئے تاہم وہ کہتے ہیں کہ ابھی آپریشن کا ابتدائی مرحلہ ہے اور وہ اس کے اختتام کے حوالے سے بھی کوئی تاریخ نہیں دے سکتے۔ اس مطالبے پر کہ اس آپریشن کوفوج کرے، ان کا کہنا ہے کہ انہیں فوج سمیت تمام قومی اور حساس اداروں کی مکمل معاونت حاصل ہے تاہم پنجاب پولیس اس آپریشن کوکرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔

پنجاب کے آئی جی آپریشنز دلچسپ شخصیت ہیں، شاعرانہ اور فلسفیانہ مزاج رکھتے ہیں، وہ ایک بیان کر رہے تھے کہ چور اور پولیس دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں ہیں اور یہ تاریخ کا ریکارڈ ہے کہ ہمیشہ چور ہی ہارتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چور اور پولیس دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں اور اگر پولیس چوروں کے پیچھے جنگلوں اور بیابانوں تک نہ جائے تو چور قصبوں اور شہروں تک آ جاتے ہیں لہٰذا یہ ضروری ہے کہ پولیس کچے کا آپریشن کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچے کا علاقہ چاروں صوبوں کے سنگم پر ہے اور یہ صرف ڈاکووں کی آماجگاہ نہیں ہے بلکہ یہ مذہبی دہشت گردوں، ملک دشمنوں اور علیحدگی پسندوں کا مرکز بھی بن چکا ہے۔

انٹیلی جنس انفارمیشنزہیں کہ دہشت گردی کے مذہبی اور صوبائی گروہوں کے میسج یہاں سے جنریٹ ہوتے ہیں لہٰذا اب یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کچے کے علاقے کو نظر انداز کیا جائے لہٰذا اب یہ آپریشن صرف ڈاکووں کے خلاف نہیں ہے جنہوں نے اغوا برائے تاوان سے قتل تک کی وارداتوں سے علاقے میں ادھم مچا رکھا ہے بلکہ یہ پورے ملک کی سلامتی اور قوم کے تحفظ کے لئے ضروری ہے۔ میں آن دی ریکارڈ ان تنظیموں کے نام نہیں لیتے مگر ان کے بارے سب جانتے ہیں جنہوں نے ہمارے اسی ہزار لوگوں کا لہو پیا ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ ہم سب پولیس کے ان افسروں اور جوانوں کو سلیوٹ کریں جو ہمیں امن دینے کے لئے ڈاکووں سے برسرپیکار ہیں۔ ان کو اپنی غیر مشروط حمایت اور محبت کی طاقت دیں مگر اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ امن و امان صرف پولیس کی ذمے داری نہیں ہے، یہ پوری ریاست، پورے معاشرے اور تمام عوام کی ذمے داری ہے۔ پولیس تو گولیاں چلا کے اور ڈاکو پکڑ کے واپس آ جائے گی مگر ضروری یہ ہے کہ وہ ڈاکو بچے نہ دیں اور اس کے لئے زیادہ ضروری ہے کہ کچے کے علاقے کو کچا نہ رہنے دیا جائے۔

وہاں پکی سڑکیں بنائی جائیں، سکول اور ہسپتال بنائے جائیں۔ روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ ان لوگوں کے بچوں کو تعلیم یافتہ اور مہذب بناکے ایک اچھے مستقبل کا خواب دیا جائے تاکہ وہ آج مارے جانے والے ڈاکووں کی جگہ کل نہ لیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ محسن نقوی اس سلسلے میں انقلابی احکامات اور اقدامات کر سکتے ہیں۔