Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Kashmiri Bhaiyon Ke Naam

Kashmiri Bhaiyon Ke Naam

کشمیری ہمارے بھائی ہیں بلکہ بھائیوں سے بڑھ کے ہیں کہ بھلا آج کل بھائیوں کے لئے بھی جان کون دیتا ہے مگر کشمیر کی آزادی کے لئے پنجاب کے نوجوانوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں اور اگر کسی کوشک ہو تو میرے ساتھ جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹرز منصورہ ہی نہیں حافظ سعید کے ساتھیوں کے ساتھ منڈی بہاؤالدین سے میاں چنوں تک ان سینکڑوں دیہات کا وزٹ کر لے جہاں ہر دوسرے دن غائبانہ نماز جنازہ ہوا کرتے تھے۔

ہزاروں مائوں نے اپنے بیٹے اس وعدے پر مقبوضہ کشمیر بھیجے کہ ان سے اگلی ملاقات جنت میں ہی ہوگی مگر ہمارے کشمیری بھائی اب بھی خوش نہیں ہیں۔ مجھے میرے صحافی دوست ساجد خان بتا رہے تھے کہ وہ فرخ شہباز وڑائچ کے ساتھ جب دس برس پہلے کشمیر گئے تھے تب بھی وہاں پاکستان کے خلاف نعرے لکھے ہوئے تھے۔ بھلا اے جان جہاں، کوئی اپنے چاہنے والوں سے یوں بھی کرتا ہے؟

ابھی جو کچھ ہوا پہلے اس کے اختتام کے بارے بات کر لیتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس وقت جب ہم ایک ایک روپے کے لئے ترس رہے ہیں کشمیریوں کے لئے تئیس ارب روپوں کی سب سڈی کی منظوری دے دی ہے۔ اس سے پہلے جو کچھ ہوا وہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے کافی ہے۔ مجھے لگاکہ ہم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ہانپ رہے ہیں، کانپ رہے ہیں اور جواب میں صرف دبائو ہے، بلیک میلنگ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ پنجاب میں اس وقت ایک من فائن آٹے کا ریٹ چار ہزار روپے من ہے اور یہ ابھی ایک مسئلے کی وجہ سے چھ ہزار روپے من سے نیچے آیا ہے مگر آزاد کشمیر میں اس وقت بھی آٹے کا ریٹ اکتیس سو روپے من ہوا یعنی یہاں سے آدھا۔

پیارے کشمیری بھائیو! اس وقت پنجاب کا کسان مہنگی ترین ڈی اے پی اور یوریا خریدے، بیجوں اور بجلی تک کے جان لیوا نرخ ادا کرے، جس کی زمین ٹھیکے پر ہو اسے کچھ بھی نہ ملے اور آپ کو وہی گندم آٹے کی صورت میں میرے کسان کی لاگت سے بھی کم پر آپ کے گھر فراہم کر دی جائے۔

پیارے کشمیری بھائیو! میں دیکھتا ہوں کہ تمہاری سرحد کے بہت پاس میرے ایک گاوں میں گھر میں بجلی استعمال ہو تو بجلی کایونٹ تیس، تیس روپوں میں پڑے اور کمرشل یونٹ ساٹھ سے ستر روپوں میں اور ہمارے سرحد پاکستان کے بالکل ساتھ بھمبر کے تمہارے گائوں میں بجلی کا ریٹ تین روپے یونٹ ہو اور کمرشل یونٹ دس روپے کا اور وجہ صر ف یہ ہو کہ ہم تمہارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں۔

پیارے کشمیری بھائیو! کہنے دو کہ پاکستان میں پنجاب کے سوا سب ہی رہ کر اس پر احسان کرتے ہیں جیسے ہمارے خیبرپختونخوا والے پٹھان بھائی، ہمارے سندھی بھائی اور ہمارے بلوچ بھائی۔ کیا بدقسمتی ہے کہ ہمارا منہ انہیں بھائی بھائی کہتے ہوئے نہیں تھکتا۔ ہمارے صحافی ان کے مسنگ پرسنز کے لئے اپنی ریاست سے متھا لگاتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں ہمارے بلوچ بھائی مفت پڑھتے ہیں مگر جواب میں کیا ملتا ہے شناختی کارڈ دیکھ کے ہمارے مزدوروں کی لاشیں۔

آج آپ کہتے ہو کہ منگلا ڈیم کی وجہ سے بجلی تین روپے یونٹ ملنی چاہئے جو کہ تمہارے مطابق پیداواری لاگت ہے مگر اب تو پانی سے بھی پیدا ہونے والی بجلی کی لاگت دس روپے یونٹ تک پہنچی ہوئی ہے کیونکہ اس میں صرف پیداوار کا خرچہ نہیں ہوتا بلکہ تمہارے گھروں تک اس کی ٹرانسمیشن اور سپلائی کا خرچہ بھی ہوتا ہے۔ اس میں دفاتر کے اخراجات اور ملازمین کی تنخواہوں کے علاوہ مین ٹیننس اور آپ گریڈیشن بھی ہوتی ہے۔

تم تین روپے دو یا چھ روپے، اس پر بھی ہم باقی پیسے دیتے ہیں جو پنجاب میں رہتے ہیں۔ ویسے یہ بھی بتادو کہ منگلا ڈیم کس کے خرچے پر بنا ہے۔ اس کے قرض اور سود کا ایک ایک روپیہ کس نے ادا کیا ہے۔ نیلم جہلم پراجیکٹ کے پیسے تو شائد ابھی تک ہمارے بلوں سے وصول کئے جا رہے ہیں اور مالک سب کے تم ہو، کمال ہے، تکلف برطرف، ٹیکس دینے کی بات ہو یا بجلی کا بل دینے کی بات تو یہ سب پنجاب ہی دیتا ہے۔ ہم وہ باپ بنے ہوئے ہیں جو پورے گھر کا خرچہ بھی اٹھا رہے ہیں اور داڑھی بھی نوچوا رہے ہیں۔

میرے پیارے کشمیری بھائیو! میری بات کا برا نہ منانا مگر تم اسی بنیاد پر یہ سب کچھ کر رہے ہوکیونکہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے مگر حقائق یہ ہیں کہ نریندر مودی نے عمران خان کے سیاہ دور میں دیدہ دلیری کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کواپنا اٹوٹ انگ بنالیا ہے، اپنے آئین کا حصہ۔ ہمارے خواب اپنی جگہ پر مگر دنیا کوئی بھی غیر جانبدار تبصرہ کرنے والا مسئلہ کشمیر کے پرا من حل کی امید چند فیصد بھی نہیں رکھتا اور جہاں تک پرتشدد یا جنگی حل ہے تو وہ بھی ممکن نہیں ہے۔ پاکستان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ بھارت سے اپنا کشمیر واپس لے اور نہ ہی بھارت ہمارے کشمیر سے ایک انچ زمین لے سکتا ہے۔

مجھے انتہائی ادب اورپیشگی معذرت کے ساتھ کہنے دو کہ قربانیاں تو بھارتی مقبوضہ کشمیر والے دے رہے ہیں جبکہ تم ان قربانیوں کی بنیاد پر ہمیں بلیک میل کر رہے ہو۔ ہم سے تین روپے یونٹ بجلی اور دو ہزار کا ایک من آٹا لے رہے ہو۔ یہ سب کب تک چلتا رہے گا۔ ہمیں اب مسئلہ کشمیر کسی بھی پسندیدہ یا ناپسندیدہ حل کی طرف جانا پڑے گا کیونکہ ایک اور تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کشمیری، فلسطینیوں کی طرح مزاحمت بھی برقرار نہیں رکھ سکے۔ مجھے اس وقت بہت افسوس ہوا جب میں نے حریت کانفرنس کے رہنماؤں کے بچوں کے وہاں کے اخبارات میں اشتہارات دیکھے جن میں وہ خود کو حریت کانفرنس کے نظرئیے سے الگ اور انڈین یونین کا وفادار قرار دے رہے تھے۔

پیارے کشمیری بھائیو! جب ہم ایک جگہ رہتے ہیں توآپس میں اختلافات بھی ہوجاتے ہیں اور ناراضیاں بھی مگر سیانے کہتے ہیں کہ چھری اوربندوق کے زخم تو بھر جاتے ہیں مگر لفظوں کے گھاو روحوں پر لگتے ہیں۔ اس مرتبہ جو کچھ کہا گیا اور جو کچھ سنا گیا وہ بہت ہی افسوسناک تھا۔ ہمارے درمیان وہ عناصر بہت متحرک ہیں جنہوں نے نو مئی برپا کیا اور بھارت میں جشن کا سماں پیدا کیا۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ آٹے اور بجلی کے معاملے میں بھی وہی کچھ کیا گیا۔

میں جانتا ہوں کہ پنجاب اس وقت گونگا ہے۔ اس کے پاس نہ قیادت ہے اور نہ ہی زبان۔ بھلا جو پنجاب بلوچستان سے مسلسل اپنے غریب محنت کشوں کی لاشیں وصول کرنے کے بعد بھی چیں، چوں، چاں تک نہ کرے وہ تمہیں کیا کہہ لے گا لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب یہ دھندا زیادہ عرصہ نہیں چلے گا۔ ہم سب کو ایک گھر میں رہتے ہوئے آپسی تعلقات باہمی برابری کے اصول پر طے کرنا ہوں گے۔ تمہیں تین روپے کا بجلی یونٹ اور ہزا رروپے میں بیس کلو کا آٹے کا تھیلا مبارک۔ جو پاکستانی تمہارے لئے اپنا لہو اور اپنے بیٹے تک پیش کرتے رہے وہ اس سے کیا انکار کریں گے، خوش رہو اور انجوائے کرو!