میں جمہوری اور سیاسی آزادیوں کا سب سے بڑا حامی ہوں مگر جب ان آزادیوں کا غلط استعمال شرو ع ہوجائے تو پھر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان کے مادر پدر استعمال کو روکے۔ دنیا میں کوئی بھی آزادی ذمے داری کے بغیر نہیں ہے سوجب سابق وزیرداخلہ خونی مارچ کی دھمکی دینے کے بعد بار بار مطالبے کے باوجود اپنی دھمکی واپس نہ لے رہا ہو، احتجاجی جماعت کے حامی صحافی اپنی ٹوئیٹس میں پولیس پر حملوں کی لائن ہی نہ دے رہے ہوں بلکہ ان کے پیروکار کارکن پولیس پر فائرنگ کر رہے ہوں جیسے ماڈل ٹاؤن لاہور میں ہوا۔
تحریک انصاف کے ورکرنے اپنے جذباتی باپ کے کہنے پر پولیس اہلکاروں پرسیدھی گولیاں چلا دیں جس کے نتیجے میں سمن آباد میں کرائے کے گھر میں رہنے والا ایک پانچ بچوں کا باپ پولیس اہلکار شہید ہوگیا، سوشل میڈیا پر فوجی حکام اور ججوں کے نام لے کر ایسی ویڈیوز جاری کی جارہی ہوں کہ انہیں حکم دیا جائے کس کو قتل کرنا ہے، قائدین کی طرف سے احتجاج کے کسی رخ، مدت اوراصول کی ضمانت نہ دی جا رہی ہو تو پھر ریاست اورعوام کسی جنونی گروہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
سچ تو یہ ہے کہ عمران خان نے نئی قائم ہونے والی حکومت کو سیاسی کے بعد عملی طور پرمفلوج کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ حکومت کے خاتمے کے بعد ایک ایسا بیانیہ اپنایا جس نے ان کی تین سال سات ماہ، بائیس دن کی ناقص ترین کارکردگی کی طرف سے توجہ ہٹا دی۔ جب لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہو، ڈالر کی قیمت مسلسل اوپر جا رہی ہو، سٹیٹ بنک شرح سود کو بڑھانے کے لئے مجبور ہو اور حکومت کے تمام اقدامات ناکام ہوتے چلے جا رہے ہوں تو ایسے میں ملک کسی شتر بے مہار احتجاج کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔
سچ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے ایک مکمل سیاسی اور پارلیمانی عمل کے ذریعے اپنی حکومت کھوئی ہے اور اب وہ اسے جتھوں کے ذریعے اسلام آباد پر حملہ کر کے دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ وہ یہ کام مسلسل ایک سو چھبیس دن پہلے بھی کر کے دیکھ چکے ہیں جب انہیں خفیہ تعاون بھی حاصل تھا۔ اس دھرنے نے بھی پاکستان میں چین کے صدر کی آمد روکی تھی اور سرمایہ کاری کے عمل کو تاخیر کا شکار کر دیا تھا۔
عمران خان کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو امریکی مداخلت کے ذریعے ختم کیا گیا مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بطور اپوزیشن لیڈر چین کے ساتھ تعلقات بگاڑ کے اور بطور حکمران سی پیک رول بیک کر کے امریکہ کا کھیل کھیلا۔ ٹرمپ کے دور میں ان کی پالیسیاں امریکی مفادات کو پور ا کرتی رہیں۔ وہ احمقانہ طور پر ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے عمل میں اس کے اتحادی بن گئے جوشائد ان کے ذاتی مفاد اور تعلق کی ضرورت تو سمجھی جا سکتی ہے مگر پاکستان کے بطور ریاست مفاد میں ہرگز نہیں تھا۔
ٹرمپ، بہت ساری وجوہات کی بنیاد پر الیکشن ہار گئے یوں عمران خان کے نئی امریکی حکومت سے فاصلے پیدا ہو گئے۔ وہ طویل عرصہ تک جوبائیڈن کے فون کے لئے منتیں ترلے کرتے رہے مگر وہ انتظار، انتظار ہی رہا جس کے جواب میں انہوں نے امریکی ایڈمنسٹریشن کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی، روس کا یوکرین پر حملے کے موقعے پر دورہ اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ وہ پاکستان کی ریاست کو پیچیدہ حالات میں پھنسا چکے تھے۔ ریاست بار بار معاشی اور خارجہ معاملات کو سدھارنے کی کوشش کر رہی تھی اور عمران خان ایک لاڈلے بچے کی طرح ہر مرتبہ معاملات خراب کر رہے تھے۔
عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہیں دوہزار چودہ جیسی حکومت اور پالیسی کا مقابلہ کرنا پڑے گا مگران سے معاملات کو سمجھنے میں مسلسل غلطی ہو رہی ہے۔ وہ بری طرح پھنس چکے ہیں کہ اگر وہ حکومت کو پھنسانے میں جلدی کرتے ہیں تو مارے جاتے ہیں اور اگر دیر کرتے ہیں تو اس میں بھی ان کا سیاسی طور پر مارا جانا لازمی ہے جب نئی حکومت معاملات کو درست سمت میں ڈال لے گی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عین اس دن لانگ مارچ رکھا جس روز پاکستان کے آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات ہو رہے ہیں۔
ان کے پاس لانگ مارچ ملتوی کرنے کے لئے بہت اچھا موقع تھا جب ان سے کشمیری مجاہد رہنما یٰسین ملک کی اہلیہ مشعال ملک بار بار اپیل کر رہی تھیں، ان کی کم سن بیٹی رضیہ سلطانہ کہہ رہی تھی کہ انکل عمران خان، آپ اپنا لانگ مارچ دو دن کے آگے کر دیں، اس روز مودی میرے والد کو قتل کرنے جا رہا ہے۔
مشعال ملک صاحبہ سے میری بات ہو ئی تو انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنے اس احتجاج اور مارچ کو کشمیر کی آزادی اوریسین ملک کی رہائی کے مطالبے سے جوڑ دیں مگر عمران خان اپنی سیاسی مقاصد سے اہم کچھ نہیں سمجھتے، ملک اور قوم کو بھی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ اس بدقسمت ملک کے وزیراعظم نہیں ہیں تو پھر اس پر ایٹم بم مار دینا بہتر ہے۔
حقیقت تویہ ہے کہ وہ انٹرنیشنل سے لے کر لوکل اسٹیبلشمنٹ تک طاقت کے کھیل کے ہر پلئیر کا اعتماد کھوچکے ہیں، وہ جتنے ہاتھ پیر ماریں گے، دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔ انہیں مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ اچھے وقت کا انتظار کریں۔
عمران خان کو اپنی حکومت کے خاتمے سے اب تک جو سب سے بڑا فائدہ رہا وہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے لندن میں موجود قائد نواز شریف کا معاملات پرکمزور، مبہم اور اختلافی نکتہ نظر تھا۔ وہ بارہ اپریل سے ہی، جس روز شہباز شریف نے حلف اٹھایا تھا، دباو ٔڈال رہے تھے کہ اسمبلیاں توڑ دی جائیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مطالبے میں وہ عمران خان کے علانیہ اتحادی نظر آتے تھے اور اسی کنفیوژن نے حکومت کو عملی طور پر جامد کر رکھا تھا۔
حکومت کے لئے نواز شریف کا رویہ صدر اور گورنر سے زیادہ مشکلات پیدا کرنے والا تھا۔ حکومت میں موجود لوگوں کو اور جماعتوں کو اس پر شکر ادا کرنا چاہئے کہ سابق صدر آصف علی زرداری، نوازشریف اور مولانا فضل الرحمان کو سمجھانے میں کامیاب ہو گئے کہ انہیں حکومت کرنی ہے، بھاگنا نہیں ہے۔ میری رائے میں مولانا فضل الرحمان بھی نواز شریف کی پراکسی وار لڑ رہے تھے کیونکہ وہ صدر مملکت بننا چاہتے ہیں اور اس کے لئے انہیں نواز شریف کی غیر مشروط مدد درکار ہے۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ملک کو بدترین اقتصادی مشکلات سے نکالنے کے لئے حکومتی اتحاد اپنی صفوں میں ابہام ختم کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے وہاں وہ عمران خان بار ے اپنی سیاسی حکمت عملی پر بھی یکسو ہو گیا ہے ورنہ اس سے پہلے حکمرانوں کی صفوں میں سے ہی لوگ عمران خان کے دباؤ میں تھے۔ لانگ مارچ کا کامیابی سے روکاجانا حکومت کے اعتماد میں اضافہ کرے گا اور شہباز شریف کو بھی یقین آئے گا کہ وہ وزیراعظم بن چکے ہیں۔
حکومت کے سامنے اصل چیلنجز معاشی ہیں ا ور انہیں سیاسی معاملات میں الجھا کران چیلنجز کو پورا کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان ایک ایسا کمبی نیشن ہے جس کی کولیکٹو وزڈم، اور صلاحیتوں کو شکست دینا کسی کے لئے ممکن نہیں ہو گا۔