Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Khush Aamdeed Bilawal Bhutto Zardari

Khush Aamdeed Bilawal Bhutto Zardari

میں پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاو ل بھٹو زرداری کوزندہ دلوں کے شہر میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ بات نہیں کہ لاہور، بلاول کے لئے کوئی اجنبی شہر ہے۔ یہ اس کی والدہ اور نانا کی مقبولیت کا گڑھ رہا ہے بلکہ پیپلزپارٹی کی بنیاد ہی اس شہر کے دانشوروں نے رکھی تھی۔ بلاول کے والد نے لاہور میں بلاول ہاوس بنایا یعنی اپنا اور اپنے بیٹے کا ایک اور گھر۔ اس شہر میں بلاول کے خاندان کے لئے جیلیں کاٹنے والوں، کوڑے کھانے والوں اورجئے بھٹو کے نعرے لگانے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے اور اب بھی ان کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ وہ جماعت جو سندھ تک محدود ہوچکی تھی یا کی جا چکی تھی وہ دوبارہ پنجاب میں قدم جمانے کی تگ و دو کر رہی ہے۔ جب میں ایسی بات کرتا ہوں تومیرے ذہن میں بہت پیچھے کہیں اکہتر کی کہی اور لکھی ہوئی تمام کہانیاں ہوتی ہیں جب عوامی لیگ صرف مشرقی پاکستان کی جماعت بن کے رہ گئی تھی اور پیپلزپارٹی مغربی پاکستان کی۔

سیاسی جماعتوں کو کبھی ایک صوبے تک محدود نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے پہلے دوریاں پھر نفرتیں اور آخر میں سانحے جنم لیتے ہیں۔ میں اس امر سے انکار نہیں کرتا کہ طاقت بھی ملکوں کو متحد رکھتی ہے جب وہ شرپسندوں کو کچلتی ہے مگر حقیقت میں قوموں کو سیاسی جماعتیں اور مشترکہ نظریات ہی اکٹھا رکھتے ہیں، سیاسی جماعتیں ایلفی، کی طرح ہوتی ہیں۔

جہاں مجھے بلاول بھٹو کو لاہور میں خوش آمدید کہنا ہے وہاں کہنا ہے کہ سندھی، بلوچی اور پختون بھی پنجابیوں جیسا دل لائیں۔ لاہوریوں کے گلی محلے میں دوسرے صوبے کا کوئی رہنے والا آجاتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں، اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں، اس سے بیگانگی اور نفرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پنجابیوں کے دل اور دسترخوان وسیع ہوتے ہیں۔ مجھے اس وقت خوشی ہوتی تھی جب میں پی ٹی آئی کو بھی ایک قومی جماعت کے طور پر دیکھتا تھا اور مجھے کراچی سے خیبر تک عمران خان کاووٹ نظر آتا تھا مگر پھر افسوس ہوا کہ خیبرپختونخوا کے سوا بہت ساری جگہوں پریہ ویسانہیں تھا جیسا نظر آتا تھا، یہ ووٹ پی ٹی آئی کو کراچی میں عطا کیا گیا تھا۔

میرے پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت اور اکثریت کے بارے میں تحفظات اپنی جگہ مگرخان کے دیوانوں کی موجودگی تمام تر مشکلات کے باوجود ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ نون سے شکوہ ہے کہ یہ پنجاب کی پارٹی بن کے رہ گئی ہے حالانکہ یہ ڈویلپمنٹ کی پارٹی ہے اور ڈویلپمنٹ پورے ملک کویکساں طور پر درکار ہوتی ہے۔ مجھے اس وقت خوشی ہوئی تھی جب شہباز شریف نے کراچی سے الیکشن لڑنے کے لئے کاغذات جمع کروائے تھے۔

نواز شریف اورمریم نواز کو بھی سندھ جانا چاہئے اوربار بار جانا چاہئے مگر وہ انتخابی مہم تک کے لئے بھی وہاں نہیں گئے، پھر شہباز شریف نے اپنے کاغذات وِدڈرا کر لئے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم ک طرف سے سپورٹ نہ ہونے کے باعث جیت کو مشکل سمجھ رہے ہوں مگر میرا خیال ہے کہ انہیں کراچی پر اتنی ہی توجہ دینی چاہئے تھی جتنی بلاول بھٹو اور اس کے ساتھ ساتھ آصف زرداری لاہور پر دے رہے ہیں۔

میں یہ نہیں کہتا کہ بلاول بھٹو زرداری لاہور کے حلقہ این اے127 سے جیت جائیں گے کیونکہ مقابلے میں بھی دو اچھے اور تگڑے امیدوار موجود ہیں۔ مسلم لیگ نون کے عطاء اللہ تارڑ اور تحریک انصاف کے ظہیر عباس کھوکھر مگر توقع ہے کہ لاہورئیے بھٹو کے نواسے او ر بینظیر کے لاڈلے کو اہمیت ضرور دیں گے۔ یہ وہ حلقہ ہو سکتا ہے جہاں ایک ٹف مقابلہ ہو اور جیت بارے کوئی بھی پیشین گوئی آسان نہ ہو۔

عطاء اللہ تارڑ اپنی پارٹی اور لیڈر شپ کے ساتھ ایک کمٹڈ سیاسی ایکٹیویسٹ ہیں اور انہیں اس حلقے کا فائدہ یہ ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی یہاں مسلم لیگ نون ہی جیتتی چلی آئی ہے۔ پیپلزپارٹی کو فائدہ یہ ہے کہ پرویز ملک کے انتقال کے بعد جب یہاں ضمنی انتخابات ہوئے تھے تو محترمہ شائستہ پرویز ملک نے یہ سیٹ جیت لی تھی تاہم پیپلزپارٹی لاہور کے صدر اسلم گل نے یہاں سے چونتیس ہزار ووٹ لئے تھے۔ پی ٹی آئی کے دوست کہتے ہیں کہ جب جمشید اقبال چیمہ الیکشن سے آؤٹ ہوئے تھے تو اینٹی نواز ووٹرکے پاس کوئی دوسری چوائس ہی نہیں تھی۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو فائدہ یہ ہے کہ اس کا انتخابی نشان چاہے چلا گیا مگر بہت سارے دوسرے حلقوں کی طرح اسے یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا امیدوار کون ہے، ظہیر عباس کھوکھر کو سب جانتے ہیں۔

ایک اور بات، لاہور میں بیٹھے ہوئے یا نواز لیگ سے ہمدردی رکھنے والے بہت سارے دوست بلاول بھٹو زرداری کی سخت زبان اور تیز الفاظ کا شکوہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ بلاول کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں جانا چاہئے کہ بعد میں انہیں ان ہی کے بیانات دکھا کے شرمندہ کیا جاتا رہے مگر میرے خیال میں بلاول کو دو باتوں کا مارجن ضرور دینا چاہئے کہ یہ الیکشن مہم ہے اور اس میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر لفظی وار ہی کرتی ہیں۔

مجھے نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی وہ باتیں یاد آجاتی ہیں جو ہم ان کے ڈیرے پر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے سناکرتے تھے کہ سیاسی جماعتیں کسی ملک کی فوج نہیں ہوتیں، وہ ٹینک، توپیں اور بندوقیں نہیں رکھتیں، وہ لفظوں اور دلیلوں سے ہی لڑتی ہیں۔ جب پی ٹی آئی کے بہت ہی زہریلی باتیں کرنے والے چیئرمین اڈیالہ جیل میں ہیں تو ان کی عدم موجودگی میں بلاول نے بہرحال انتخابی ماحول گرمادیا ہے۔ بلاول کو دوسرا مارجن اس کی چھوٹی عمر کا دینا چاہئے، وہ سب سے نوجوان سیاستدان ہے۔

نوجوانی میں خون کی گرمی بھی ہوتی ہے۔ کچھ بڑے بڑے خواب بھی ہوتے ہیں اور کچھ اپنے سے بڑوں سے بڑے حوصلے بھی۔ نوجوان چالیس کراس کرنے تک بلکہ پچا س تک پہنچتے پہنچتے خود کو وہی دیومالائی گائے سمجھتے ہیں جس پر دنیا ٹکی ہوتی ہے اور جب وہ سینگ ہلاتی ہے تو دنیا اس سے زلزلے آتے ہیں، ہاں، یہ جذبات پچاس کے بعد کچھ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ سو اگر بلاول خود کو یوتھ کے نمائندے کے طور پیش کررہے ہیں تو ایسی باتیں بھی ہوں گی جو نوجوان کرتے ہیں ا ور بزرگوں کو ناپسند ہوتی ہیں جیسے ان کے والد نے ہی ان کے بارے انٹرویو میں کچھ نہ کہتے ہوئے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔

بلاول آج لاہور میں منہاج یونیورسٹی کے قریب ٹاون شپ کرکٹ گراونڈ میں گرجیں اور برسیں گے۔ وہ لاہوری سیاستدا ن یعنی نواز شریف کو پہلے ہی آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں مگر ان کے مقابلے میں بھی نواز شریف کے شیر، شعلہ بیان عطاء اللہ تارڑ موجود ہیں جو اُدھار رکھنے کے عادی نہیں۔ آپ مجھ سے پوچھیں تومجھے لاہور کیا پنجاب کا سب سے دلچسپ اور اہم انتخابی اکھاڑہ یہی لگ رہا ہے جس کی رونق کاکریڈٹ سندھ کے بیٹے بلاول کی یہاں آمد کوجاتا ہے۔