Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Khush Aamdeed Hafiz Naeem Ur Rehman

Khush Aamdeed Hafiz Naeem Ur Rehman

کراچی میں تابڑ توڑ سیاست کرنے، مخالفین کے چھکے چھڑا دینے والے حافظ نعیم الرحمان جماعت اسلامی پاکستان کے اگلے پانچ برس کے لئے امیر منتخب ہو گئے ہیں۔ یہ جماعت کے سوٹ بوٹ اور ٹی شرٹ پہننے والے پہلے امیر کہے جا سکتے ہیں۔ اس سے پہلے سید منور حسن کی کچھ تصاویر ٹائی لگائے دیکھی تھیں مگر میں نے اپنی آنکھوں سے انہیں بطور جنرل سیکرٹری یا امیر کبھی مغربی لباس میں نہیں دیکھا۔

جماعت اسلامی کی دو خوبیاں اسے دوسری تمام جماعتوں سے منفرد کرتی ہیں، پہلی یہ کہ اس میں دوسری تمام جماعتوں سے کہیں زیادہ جمہوریت ہے اور دوسری یہ کہ اس میں دوسری تمام جماعتوں سے زیادہ نیک اور اچھے لوگ موجود ہیں۔ میں نے جماعت کے پہلے دو امرا کے ادوار نہیں دیکھے مگر قاضی حسین احمد کی محنت، سید منور حسن کی خشیت اور سراج الحق کی شرافت کا بغور مشاہدہ کیاہے۔

حافظ نعیم الرحمان سے کچھ عرصہ پہلے برادرم سجادمیر کی رہائش گاہ پر طویل گپ شپ ہوئی تھی۔ ہم پریقین تھے کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد عام انتخابات میں بھی جماعت اسلامی سرپرائز دے گی مگر فیصلہ ایم کیو ایم کی واپسی کا ہوگیا۔ ایم کیو ایم نے حیران کن طور پر کم و بیش اتنی ہی نشستیں جیت لیں جتنی وہ الطاف بھائی کے دو ر میں جیتا کرتی تھی۔ جماعت اسلامی کو یہ نقصان کیوں ہوا، اس پر اگلے پیراگرافس میں بات کرتا ہوں مگر اس امر سے انکار نہیں کہ کراچی میں حافظ نعیم الرحمان اور گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان نے واقعی اپنی ہمت، جرات اور محنت سے عوام کے دل جیتنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

اس وقت سب سے اہم سوال یہی کیا جا رہا ہے کہ حافظ نعیم الرحمان کی امارت میں جماعت اسلامی کا مستقبل کیا ہوگا۔ میں موجودہ منظرنامے میں بطور سیاسی تجزیہ کار میں پیشین گوئی کر سکتا ہوں کہ جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے ساتھ مزید سفر، کرے گی اور مجھے یہ وضاحت دینے میں بھی کوئی عار نہیں کہ یہ اردو اور انگریزی دونوں و الا ہوگا۔ اگر ہم حافظ صاحب کے سامنے ناموں کا جائزہ لیں تو ان میں ایک نام لیاقت بلوچ کا تھا، آہ، مجلس عاملہ کے ستم ظریفوں نے عشروں سے یہ نام صرف ہارنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔

لیاقت بلوچ بہت مستقل مزاج ہیں حالانکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ میں بہت مرتبہ ہار چکا، اس مرتبہ ہارنے کے لئے کوئی نیا نام دے دو۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کاتو مجھے علم نہیں مگر پاکستان بارے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی پارٹی کی سربراہی کا الیکشن سب سے زیادہ ہارنے والوں میں لیاقت بلوچ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔

ویسے تو جماعت اسلامی کے ہارنے کا بھی انتخابی تاریخ میں کوئی مقابلہ نہیں۔ ابھی ایک واقف حال کہہ رہا تھا کہ لیاقت بلوچ اس لئے ہار گئے کہ وہ پرو نواز لیگ اور پرو اسٹیبلشمنٹ سمجھے جاتے ہیں اور میرا جواب تھا کہ اگر یہ بات درست ہے تو جماعت اسلامی اس وقت تک اقتدار میں نہیں ا ٓسکتی جب تک لیاقت بلوچ الیکشن نہیں جیتیں گے۔

جماعت اسلامی اس راز کو آشکار نہیں کرتی کہ کس امیدوار نے کتنے ووٹ لئے ہیں، کچھ بھید منور حسن نے اپنی پہلی صدارتی تقریر میں کھولے تھے مگر اس سے ہٹ کرمیں جانتا ہوں کہ جماعت کے تین چوتھائی ارکان کا دوٹوک فیصلہ ہے کہ اقتدار میں نہیں آنا۔ جہاں تک سراج لالہ کی بات ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا۔

مجھے حیرت ہوئی جب میں نے دیکھا کہ حافظ نعیم الرحمان کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں شاندار کارکردگی دکھا کے لاہور آئے اور لیاقت بلوچ انہیں عمران خان کے پاس لے گئے جو کہ مکمل طور پر پرسونا نان گراٹا، بن چکے۔ میں نے کہا، مجھے حیرت ہوئی کہ لیاقت بلوچ نے کیسی غیر سیاسی اور غیر منطقی حرکت کی تو مجھے جماعت ہی کے ایک رازدار نے کہا، آپ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ الیکشن جیت کے حافظ نعیم لاہور آئے ہی اس لئے ہوں کہ لیاقت بلوچ انہیں عمران خان کے پاس لے جائیں۔

حافظ نعیم الرحمان کو سید منور حسن کا شاگرد کہا جاتا ہے سو حافظ صاحب کے جیتنے کے بعد اب جماعت اسلامی، پی ٹی آئی کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ہے۔ سید منور حسن کے بارے بھی ریکارڈ پر ہے کہ عمران خان نے جب جب تاریخی جلسے کئے تو تب تب سید منور حسن، عمران خان کو مبارکباد دینے کے لئے ان کی رہائش گاہ پر خود ان سے بھی پہلے پہنچ گئے، یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے ہے۔

بہرحال ہمیں کچھ حالات کا مارجن بھی دینا چاہیے، جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ اس کے پاس اینٹی نواز شریف لائن لینے کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ وہ اسے جماعت کی نئی سوچ کہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو غیر جانبدار ظاہر کر سکیں مگرنواز مخالف نئی سوچ کو بھی تیس برس سے زائد گزر گئے جس نے انہیں ٹکے کا فائدہ نہیں دیا۔ یادش بخیر، نواز شریف کا ساتھ چھوڑنے کے بعد جماعت اسلامی نے عتیق سٹیڈیم جو اب گریٹر اقبال پارک کا حصہ بن چکا، اس میں پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا تھا اورمیں وہاں میڈیا انکلوژر میں موجود تھا۔

جماعت اسلامی نے اس کے ساتھ ہی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی اپنا غصہ ظاہر کرنا شروع کیا تھا جب قاضی حسین احمد نے پہلے روزنامہ دن میں مجھے دئیے ہوئے ایک انٹرویو اور اس کے بعد فیصل مسجد کے اجتماع عام میں کور کمانڈرز کو کروڑ کمانڈرز کہہ کے پکارا تھا۔ کہا جاتاہے کہ جماعت اسلامی کے پاس آخری اسائمنٹ واجپائی کی آمد والی ہی تھی اس کے بعدواقعی پروفیسر غفور احمد کے الفاظ میں لائن کٹ گئی۔

جماعت اسلامی کی اینٹی نواز اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی نے تیس برسوں میں اسے کچھ نہیں دیا۔ وہ جس ایم ایم اے کے ذریعے اقتدار میں آئے اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بھی جے یو آئی تھی۔ میرے صادق اور امین دوستوں کی سیاسی سوچ اتنی غیر حقیقی اور غیر منطقی رہی ہے کہ نواز شریف کے لئے نعرے لگائے، ترانے بنائے مگر جب نواز شریف کے ذریعے حلقے بنانے کا وقت آ یا تو اس سے لڑ پڑے۔ یہی کام عمران خان کے ساتھ دہرایا گیا کہ جب اس کی حکومت بننے لگی تو اس سے راہیں الگ کر لیں۔ اس سے بہت پہلے بھٹو صاحب کے خلاف مہم چلائی اورجب ضیاء الحق نے وزارتیں دیں توان کے مزے اور فائدے بھی نہیں لئے، فوراً ہی چھوڑ دیں۔

میں نہیں جانتا کہ جماعت اسلامی کوہمیشہ گھاٹے کی راہ پر کوئی دوسرا لگاتا ہے یا اس کام میں وہ خود بائی ڈیفالٹ ماہر ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گرم دم جستجو کے ساتھ ساتھ گرم دم گفتگو حافظ نعیم الرحمان منصورہ شفٹ ہونے کے بعد کراچی والا جادو لاہور میں بھی جگا سکتے ہیں یا نہیں ورنہ اب تک جماعت اسلامی کے تازہ ترین سیاسی سائنسی فارمولے بارے یہی کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی میں پانی ملا کے کچھ دیر ہلائیں تو جماعت اسلامی بن جاتی ہے۔