یقین جانئے پہلے تومجھے افسوس ہوا کہ مفتی منیب الرحمان جیسی سنی بریلوی شخصیت کورویت ہلال کمیٹی کی چیئرمینی سے ہٹا دیا گیا مگرمیرے سامنے یہ بھی واضح تھاکہ مفتی صاحب مسلسل متنازع ہوتے چلے جا رہے تھے۔ پہلے کچھ سیاسی(اورکچھ غیر منطقی) وجوہات کی بنا پر حکمران جماعت کے چاہنے والے مفتی منیب سے بغض رکھتے تھے اور انہیں تنقید کانشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پیجز پر مفتی منیب کی دو عشروں کی سربراہی ختم کرنے کو پارٹی اور حکومت کی بہت بڑی کامیابی کہا جا رہا ہے۔ میں رویت ہلال کمیٹی کو تمام مسالک کا ایک نمائندہ پلیٹ فارم سمجھتا ہوں مگر کچھ عرصہ قبل ایک ویڈیو کے وائرل ہونے پر شیعہ برادری کے بھی مفتی منیب پر اعتراضات شدید ہو گئے تھے۔ معتدل، ممتاز شیعہ عالم دین اور استاد علامہ محمدحسین اکبر نے اہل تشیع کی ایک الگ رویت ہلال کمیٹی تشکیل دے دی تھی جس پر میں نے انہیں فون کر کے اپنے دکھ اور افسوس کا اظہار بھی کیا تھا۔ ابھی چند روز قبل جامعہ نعیمیہ میں ڈاکٹر راغب نعیمی کی طرف سے ایک پرتکلف ڈنر میں میرے علم میں آیا کہ رویت ہلال کمیٹی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے بلکہ متعلقہ ادارے کے محض ایک ایگزیکٹو آرڈر سے اسے قائم کیا جاتا ہے۔ یہ بھی علم میں آیا کہ2012 سے 2020 تک کسی ایک بھی برس مفتی صاحب کی توسیع کا آرڈرجاری نہیں ہوامگر اس کی جوابی دلیل یہ تھی کہ ہر برس اس کی تجدید ضروری نہیں تھی۔ بہرحال میں چاہوں گاکہ مولانا عبدالخبیر آزاد کو خوش آمدید کہنے سے پہلے مفتی منیب کو پورے احترام کے ساتھ اللہ حافظ کہوں کہ انہوں نے بیس برس تک یہ اہم ترین ذمے داری ادا کی اور یہ خدمت اور مدت کم نہیں ہے دوسرے کوئی بھی عالم دین اپنے مقام اوراحترام کے لئے سرکاری عہدوں کا محتاج نہیں ہوتا۔
مولانا عبدالخبیر آزاد کو خوش آمدیدکہنے کی ایک سے زائد وجوہات ہیں اور مجھے بتانے میں حرج نہیں کہ ایک وجہ ان سے برسوں نہیں عشروں کا تعلق ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد لاہور بلکہ پاکستان کی سب سے باوقار اور تاریخی بادشاہی مسجد کے خطیب ہیں۔ مجھے ان کے والد مولانا عبدالقادر آزاد سے ملاقات اور حاضری کا شرف بھی حاصل ہے مگر اس مبارکبادکی دوسری وجہ زیادہ اہم اور طاقتور ہے کہ میری نظر میں عبدالخبیر آزادجیسی شخصیت ہی اس کمیٹی کی غیر جانبدار اور متفقہ حیثیت کو برقرار رکھ سکتی ہے۔ جیسے میں نے پہلے کہا کہ پی ٹی آئی والوں کا اعتراض بھی ختم ہوا اور وہ اس لئے اہم ہے کہ وہ حکومت والے ہیں اور دوسرے امید ہے کہ جب علامہ محمد حسین اکبر خود قومی سطح پر رویت ہلال کمیٹی کا حصہ ہوں گے تو وہ اپنی ایک الگ کمیٹی بنا کے اس کی اہمیت اور مقام کو کم نہیں کریں گے۔ میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ میری اس کمیٹی میں مولانا عبدالخبیر آزاد کے علاوہ جامعہ الحسین کے سربراہ مولانا محمد حسین اکبر، جامعہ نعیمیہ کے مہتمم ڈاکٹر راغب نعیمی اور جامعہ اشرفیہ سے بزرگ اور سرپرست مولانا فضل الرحیم سمیت دیگر سے بھی نیاز مندی ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ مولانا عبدالخبیر آزاد رویت ہلال کمیٹی کے مفتی منیب کے بعد پندرہ برس سے رکن بھی ہیں، یہ مدت اور تجربہ انہیں اس عہدے کے لئے میرٹ پر بھی سپورٹ کرتا ہے۔ میری رائے ہے کہ محترم عبدالخبیر آزاد کی اس کمیٹی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوں گے اور ان کے دائیں بائیں جب اوپر لکھے ہوئے نام ہوں گے تو اس گاڑی کی سمت درست رہے گی۔
اب میں اس دلیل کی طرف آتا ہوں جو سب سے اہم ہے۔ جیسے میں نے پہلے کہا، مولانا عبدالخبیر آزاد، مولاناعبدالقادر آزاد مرحوم کے صاحبزادے ہیں تو گویا اتحاد امت کا درس ا ن کے ڈی این اے اور گھٹی میں گھول کے پڑا ہوا ہے اور ہمیں ضرورت بھی ایسے ہی بالغ نظر اور معتدل رہنماوں کو سامنے لانے کی ہے جومسلکوں کے تاریخی اور تشریحی اختلافات سے بالاتر ہو کر کلمہ گووں کی فکری اور عملی رہنمائی کر سکیں، جو انتہاوں میں اعتدال اور تنازعات میں مشترکات کا راستہ نکال سکیں۔ میں جانتا ہوں کہ اختلاف اورفتنہ شہرت اور دولت دونوں لاتے ہیں اور اس کا مزا ہم پچھلی صدی کی آخری عشرے میں چکھ چکے ہیں جب شیعہ سنی اختلافات کو اتنی ہوا ملی کہ ملی یکجہتی کونسل بنانی پڑی اور پھر اسی کی بنیاد پر مشرف اور زرداری ادوار میں دہشت گردی کی ہولناک تاریخ لکھی گئی۔ ابھی کچھ روز قبل ہمارے مسیحی بھائیوں نے کرسمس منائی تو سوشل میڈیا پرفتوے شئیر کئے گئے کہ ہیپی کرسمس کہنا بھی گناہ ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہونا ہے۔ یہاں مجھے ابن انشا کی لکھی ہوئی اردو کی آخری کتاب یاد آجاتی ہے جس کے ایک سبق میں ا یک مولوی کی تصویر ہے اور وہ ایک گول دائرے کے اندر ڈنڈا ہاتھ میں لئے کھڑا چیخ رہا ہے کہ چل نکل دائرہ اسلام سے۔ میں نے عبدالخبیر آزاد کو دیوبندی عالم دین ہونے کے باوجود بریلویوں، اہلحدیثوں اور شیعوں میں ہی نہیں بلکہ عیسائیوں، سکھوں اور ہندووں میں بھی محبت اور احترام حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔ میں اس موقف کے کبھی ساتھ نہیں رہاکہ اسلام تلوار سے پھیلا، میں یقین رکھتا ہوں کہ اسلام اس اخلاق سے پھیلاجس کی تعلیم اور تکمیل کے لئے رحمت ا للعالمین ﷺ کامبعوث کیا گیا اور آپ تمام عالموں میں تمام مخلوقات کے لئے رحمت ہیں۔
ہماری نئی رویت ہلال کمیٹی کود وتنازعے ورثے میں ملے ہیں، ایک تنازع مفتی پوپلزئی کے ساتھ ہے جو ہر رمضان اور عید پر اپنا ایک الگ چاند چڑھا لیتے ہیں اور دوسرا جناب فواد چودھری کے ساتھ ہے جو دین کو سائنس کی میراث اورماتحت سمجھتے ہیں حالانکہ معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔ رویت میرے نبی ﷺ کی تعلیم اور سنت ہے جس کی بنیاد پر اسلامی مہینوں اورمعاملات کا تعین کیا جاتا ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد مفتی پوپلزئی کو رام کرنے کے عزم اور ارادے سے بھی سرشار دکھائی دیتے ہیں اور فواد چوہدری کے ساتھ معاملات طے کرنے میں بھی کہ ان دونوں کی آپس میں ملاقات بھی ہوچکی ہے۔ یہ دونوں بڑے چیلنج ہیں مگر ان کو حل کرنے کے لئے مولانا عبدالخبیر اپنے پس منظرمزاج اور کردار میں، مفتی منیب کے بڑے علمی رتبے کے باوجود، ایک بہتر مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی میں بریلوی، اہلحدیث، دیوبندی اورشیعہ سمیت تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے۔ یہ کمیٹی ہر مہینے لازمی اپنا اجلاس منعقد کرتی ہے جس میں تمام علما کرام اکٹھے ہوتے ہیں لہٰذا اس پلیٹ فارم کو محض چاند دیکھنے آگے سے بڑھتے ہوئے امت کے اتحاد کے عظیم مقصد کی خاطرزیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم ابھی ابتدائے عشق ہے، آج پچیس جمادی الاول ہے، دیکھتے ہیں کہ ابھی چند روز بعد ہمارے دوست اوربھائی مولانا عبدالخبیر آزاد جمادی الثانی کا چاند کیسا چڑھاتے ہیں۔ چاند تو وہ مفتی منیب کے ساتھ مل کر بھی دکھاتے رہے ہیں مگر ان کی چیئرمینی میں چڑھنے والایہ پہلا چاند ہو گا۔