شہید ذوالفقار علی بھٹو کا نواسہ، شہید بے نظیر بھٹو کا اکلوتا بیٹا اور سیاست میں گیم چینجر سمجھے جانے والے مرد حُرآصف علی زرداری کا سب سے بڑا اثاثہ آج لاہور میں ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی لاہور آتا رہا ہے مگر آج وہ سندھ سے اپنی سیاسی فوج کی قیادت کرتا ہوا اس شہر میں پہنچا ہے جہاں اس کے نانا نے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی، اسی شہر سے بھٹوز بڑی مارجن کے ساتھ منتخب ہوتے رہے ہیں۔ اس شہر نے پیپلزپارٹی کو نامی گرامی جیالے دئیے ہیں سو یہ شہر پیپلزپارٹی سے ایک طویل عرصے سے ناراض ضرور ہے مگر اجنبی نہیں ہے۔
میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں آصف علی زرداری کے اس بیٹے سے ملاقات کروں جسے اس کے باپ نے اس کے خاندان کی بڑی شہادتوں کے باوجود ایک بار بھی اسی راہ کامسافر بنا دیا ہے۔ میں ذاتی طورپر سیاستدانوں کو بہادر سمجھتا ہوں۔ یہ سیاستدان ہی ہوتے ہیں جوشکست کے بعد دوبارہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک بار پھر مقابلے کے لئے تیار۔ یہ سیاستدان ہی ہیں جو اپنے بیٹوں اوربیٹیوں کو اسی راہ کا مسافر کر دیتے ہیں جس راہ پر انہیں پہلے جیلیں، جلاوطنیاں اور پھانسیاں ملی ہوتی ہیں مگرمیرا خیال ہے کہ میری بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات نہیں ہو سکے گی کیونکہ ہم صحافت کو کاسہ لیسی اور خوشامد کا فن بناچکے۔ لیڈروں سے ملاقاتوں کے لئے وہی بلائے جاتے ہیں جو اس فن میں طاق ہوتے ہیں۔
پہلے سیاسی جماعتیں اپنے اپنے وکیل اور ترجمان رکھا کرتی تھیں مگر اب اپنے اپنے صحافی بھی رکھتی ہیں جیسے میاں نواز شریف سے ملاقات کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان سے سخت سوال تو ایک طر ف رہا سوال ہی نہ کریں، ان سے طبیعت پوچھیں، سیاسی موسم پوچھیں تو وہ خود ہی جواب میں کچھ فرمانا چاہیں تو فرما دیں گے بصورت دیگر بلیک لسٹ ہوجائیں گے۔ یہی حال پیپلزپارٹی سے جماعت اسلامی تک کا ہے کہ ان کی اپنی اپنی فہرستیں ہیں۔
ابھی حالیہ دورے میں علی بدر نے بہت سارے صحافیوں کی بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتیں کروائیں، میرا اگرچہ جہانگیر بدر کے ساتھ اچھا تعلق تھا اور ان کی لیڈر شپ کے موضوع پر تحریر کی ہوئی کتاب ان کے دستخطوں کے ساتھ آج بھی میری لائبریری میں اعزاز کے طور پر موجود ہے مگر اب لسٹیں بدل چکی ہیں۔ ہمارے پنجاب کے چودھری برادران بھی انہی کوملنا اور سننا پسند کرتے ہیں جو نسلی طور پر جٹ ہوں اور ان کے وظیفہ خوار، ان کے ملازمین نے باقاعدہ فہرستیں بنا رکھی ہیں اور مجھے علم ہواہے کہ میں ان کے تئیس ناپسندیدہ صحافیوں کی لسٹ میں بھی اوپر کے نمبروں پر ہوں۔
بات کسی اور طرف نکل گئی، بات بلاول بھٹو زرداری کی ہور ہی ہے تو لاہور میرے لئے میرے ہاتھ کی لکیروں کی طرح ہے جس کی گلیوں سے مزاج تک سب میں بہت اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ ملکی سیاست میں ہلچل مچانے کے لئے لاہور کو جگانااور ساتھ ملانا ضروری ہے۔ میں بلاول بھٹو زرداری کے لانگ مارچ کو سوشل میڈیا پر خود ان کے پیجز پر فالو کر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مارچ کے آرگنائزرز نے اچھی پلاننگ کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں دو، اڑھائی عشروں میں بڑی ناکامیو ں کے باوجود مختلف شہروں میں پیپلزپارٹی کی اچھی پاکٹس موجود ہیں اور پارٹی نے اپنے نوجوان لیڈر کے استقبال کے لئے انہی پاکٹس کو بہت خوبصورتی اور کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری سندھ سے کے بعد جنوبی پنجاب اورپھر اوکاڑہ تک اچھے استقبال کروانے میں کامیاب رہے ہیں۔ اوکاڑہ، پہلے راؤ سکندر اقبال اور پھرمیاں منظور وٹو کے ادوار میں پیپلزپارٹی کا مضبوط گڑھ رہا ہے۔ ان کی پلاننگ لاہور سے آگے بھی ٹھیک ہے کہ اس سے اگلابڑا پڑاؤ کائروں اور پھرپرویز اشرف کی طرف ہو گا۔
میں طویل عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ عمران خان کے بعد اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اس وقت مارشل لا نہیں ہے مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ دور نقاب پوش مارش لا کی ایک صورت رہا ہے۔ میں ماضی کے تمام مارشل لاؤں کے بعد دیکھتا ہوں کہ ملک میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہی آئی۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا نقاب پوش مارشل لاکے بعد بھی روایت برقرار رہتی ہے۔
پیپلزپارٹی کی پہچان نوے کی دہائی تک اینٹی اسٹیلشمنٹ رہی ہے اوراس میں پیپلزپارٹی کے نظریات ہی نہیں بلکہ کچھ حالات کا جبر بھی تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جناب آصف علی زرداری کی قیادت میں اس شناخت نے یوٹرن لیا۔ میں کبھی کسی سیاسی جماعت کے دیوار کو ٹکر مارنے اور اپنا سرپھڑوانے کا حامی نہیں رہا مگر تھوڑے کہے کو بہت جانیں تو اس میں توازن کی اشد ضرورت ہے۔ میں نے بطور صحافی دیکھا کہ پیپلزپارٹی نوے کی دہائی میں ہی پنجاب سے نکل گئی تھی جس میں منظور وٹو کی وزارت اعلیٰ کا بھی کردار رہا یا پارٹی حلقوں کے مطابق پنجاب سے نکال دی گئی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ بلاول پنجاب کو اہمیت دے رہے ہیں۔ میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو چاروں صوبوں میں دیکھنا چاہتا ہوں اور یہی واحد راستہ ہے جو پاکستان کی سالمیت برقرار رکھ سکتا ہے ورنہ ہم نے الگ الگ صوبوں کی جماعتیں اکہتر میں دیکھ لی تھیں۔ بلاول بھٹو زرداری جس طرح پنجاب میں محنت کر رہے ہیں اسی طرح نواز لیگ کو سندھ میں محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں جڑوں کے بغیر آپ وفاق میں مضبوط حکومت قائم کر ہی نہیں سکتے۔
میں زرداری دور میں نواز لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے پی ٹی آئی کی خفیہ حمایت کا فیصلہ غلط سمجھتا ہوں، اس خفیہ حمایت نے جیالوں کو پی ٹی آئی کاراستہ دکھایا کیونکہ عمران خان، زرداری صاحب سے زیادہ بڑے اینٹی نواز شریف لیڈر بن کے ابھرے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اپوزیشن اتحاد کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کی الگ شناخت پر بھی توجہ دینی ہو گی۔ مجھے یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو پیغام دینا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کے ابھی حالیہ، سابقہ دور سے بہتر گورننس دے سکتے ہیں۔ یقین کیجئے، زرداری صاحب کے دور کی مہنگائی، کرپشن اور بدامنی نے پنجابیوں کو بہت مایوسی دی تھی۔
میں ذاتی طور پر سیاسی جماعتوں میں موروثیت کا حامی نہیں ہوں اور چاہتا ہوں کہ پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ خاندانوں سے باہر نکلے۔ سیاسی جماعتیں خاندانوں کے بجائے نظریات کی اسیر ہوں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں اور سیاسی عمل کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو پھر سیاستدانوں کے بیٹے اوربیٹیاں ہی ان کے وارث بن کے نکلتے ہیں۔ ہم سیاسی جماعتوں میں اس وقت تک حقیقی جمہوریت کی امید نہیں رکھ سکتے جب تک سیاسی عمل کسی مداخلت کے بغیر ہموار اورپر امن نہ ہو لہٰذا اس وقت تک ہمیں بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف اور مونس الٰہی کو راستہ دینا ہی ہو گا کیونکہ وہ لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن جاتے ہیں۔
مجھے آج لاہور میں موجود اپنے مہمان سے کہنا ہے کہ وہ ہمت، جرأت، تدبر اور بہادری کا مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ اپنے والدہ کی طرح بہادر ہیں۔ میں اس وقت کراچی میں ہی تھا جب بی بی کی واپسی پر سازگار والا واقعہ ہوا تھا اوراس کے بعد راولپنڈی میں بی بی کو پہلے سے خبردار کیا گیا تھا کہ ان پر حملہ ہوسکتا ہے مگر انہوں نے اپنی مہم روکنے سے اور ڈرنے سے انکا رکر دیا تھا۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ بلاول بھٹو زرداری کی اسلا م آباد تک باقی سفر میں بھی حفاظت کریں۔ میں پھر کہوں گا کہ یہ سیاستدانوں کا ہی حوصلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کوا س محاذ پر جھونک دیتے ہیں۔ مجھے ان سے عدم اتفاق کرنے دیجئے کہ یہ صرف اقتدار کی ہوس ہوتی ہے، نہیں، یہ کچھ اور بھی ہے جس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے، یہ شوق بھی ہے اور جنوں بھی ہے، یہ کچھ لہو کے اندر بھی ہوتا ہے ورنہ کئی دوسروں کے بیٹے بیٹیاں بھی یہاں ہی موجود ہیں۔