معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ضروری ہے اور مؤخر الذکر اس وقت تک نہیں آ سکتا جب تک آپ وفاق پر لشکرکشی کرنے والوں سے ان کا بیس کیمپ نہ چھین لیں۔ فائنل کال کے نام پر جو کچھ کیا گیا یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے وفاق اور پنجاب پرتین بار لشکر کشی کی جا چکی ہے اور ہر مرتبہ سیاسی چڑھائی کے لئے سرکاری اور ریاستی وسائل کا بے شرمی کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ روز پیپلزپارٹی کے یوم تاسیس سے خطاب کرتے ہوئے سیاسی استحکام کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا تاہم یہ بھی کہا کہ پیپلزپارٹی کسی سیاسی جماعت پر پابندی یاکسی صوبے میں گورنر راج کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ الگ بات ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اس وقت گورنر راج لگا چکی ہے جب خود وفاق میں حکمران تھی اور مسلم لیگ نون کے پاس پنجاب تھا۔ اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگر خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگایا جاتا ہے تو اس سے پی ٹی آئی مظلوم بنے گی اور اس کا سیاسی فائدہ اٹھائے گی۔
میرا یہاں سوال ہے کہ کیا اس وقت ہر جھوٹ کا سہارا لے کر پی ٹی آئی مظلوم نہیں بن رہی۔ کیا وہ وفاقی دارالحکومت پر مسلح حملہ کرنے کے باوجود لاشوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ نہیں کر رہی۔ کیا وہ بانی پی ٹی آئی کی قید پر بین الاقوامی رائے عامہ کو گمراہ نہیں کررہی۔ کیا اس سے پہلے لابنگ فرموں کے ذریعے امریکی ایوان نمائندگان کے کرائے پر دستیاب ارکان کے ذریعے پاکستان پر دبائو نہیں بڑھا رہی۔ کیا وہ سوشل میڈیا کے جھوٹے پروپیگنڈے سے لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو پاکستان کو قرض نہ دینے کے لئے انتہائی گھٹیا حربے استعمال کرنے تک کے کوئی کسر چھوڑ رہی ہے کہ اس کے ردعمل بار ے سوچا جائے، اس سے ڈرا جائے؟
بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ سیاسی استحکام کے لئے بات چیت ہو یا لاٹھی کا استعمال، تو وہ درحقیقت آپشنزکھلے رکھتے ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی آئی سیاسی بات چیت پر یقین ہی نہیں رکھتی۔ وہ صرف ان قوتوں کے ساتھ ڈائیلاگ چاہتی ہے جنہوں نے اسے تخلیق کیا مگر وہ قوتیں اس کے ساتھ بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتیں لہٰذا بلاول بھٹو کے مؤقف میں بھی صرف وہی راستہ موجود ہے جس کی میں یہاں بات کر رہا ہوں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اگر آج سے بارہ، تیرہ برس خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو حکومت قائم کرکے کھل کھیلنے کا موقع نہ دیا جاتا تو وہ ایک عفریت بھی نہ بنتی۔ میرے سمیت بہت سارے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر آج محسن نقوی اور عطا تارڑ مل کر ہر محاذ پر پی ٹی آئی کی درگت بنا سکتے ہیں تو یہ کام آج سے دس برس پہلے ہونے والے دھرنوں کابھی کیا جا سکتا تھا مگر ایک باخبر دوست کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف طاقت کے استعمال سے بڑے سیاسی رہنمانے روکا تھا اور مؤقف تھا کہ اس وقت کے فوجی جرنیل اس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ نون کے لئے پہلے ہی ایک سازش کے ذریعے ماڈل ٹاؤن کے معاملے کا سامنا کر رہی تھی اور خطرہ تھا کہ پی ٹی آئی اوراس کے منصوبہ ساز ڈی چوک سے لاشیں لے کر ایک نیا طوفان نہ برپا کردیں۔ بہرحال یہ ماضی کی باتیں ہیں اور اس مرتبہ مقتدرحلقوں کے تاریخ کی درست سمت میں ہونے کی وجہ سے فتنے اور فساد کے خلاف بڑی کامیابی ملی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا خیبرپختونخوا میں گورنر راج کے لئے آئینی اور قانونی پوزیشن مضبوط ہے تواس کا جواب ایک بڑے اور واضح ہاں میں ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور وفاق کے خلاف سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے مسلح چڑھائی، پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے قتل سمیت اقدامات سے حکومت کو جواز فراہم کر چکے ہیں کہ وہ وفاق کو برقرار رکھنے کے لئے آئینی اقدامات کرے۔
دوسری طرف کُرم اور بنوں جیسے اضلاع کی امن و امان کی صورتحال بھی ہے۔ یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ امن و امان کے قیام کے لئے کردارادا کرتی مگر وزیراعلیٰ نے پولیس اہلکاروں تک کو وفاق پر چڑھائی کے لئے استعمال کیا حالانکہ انہیں اسلام آباد کی بجائے بنوں اور کرم میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر رکھ لیجئے کہ اگر جولائی میں ہونے والے ہنگاموں اور قتل و غارت کے بعد وزیراعلیٰ کے پیِِ پارا چنار میں کردارادا کرتے تو نومبر میں ہونے والے حملے نہ ہوتے۔
گورنر راج کے لئے تیسری اہم ترین پوزیشن، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور ان کی کابینہ کے ارکان کی طرف سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی سے ملتی ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر وفاقی حکومت تھوڑی سے محنت کرے تو توہین عدالت پرکے پی کے وزیراعلیٰ اور کابینہ عہدوں سے فارغ ہوجاتے ہیں اور سزا پاتے ہیں۔ اس کے بعد گورنر راج کا نفاذ آسان بھی ہوگا اور منطقی بھی۔
خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومتی طاقت سے ہی مسلح چڑھائیاں ممکن بنا رہی ہے اور اسی کے ذریعے سرکاری ملازمین، عوام اور افغان باشندوں کو اسلا م آباد لایاجا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کی فائنل کال سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی اس حد تک ناکام رہی کہ پارٹی کا مرکزی سیکرٹری جنرل چوبیس نومبر کولاہور جیسے شہر میں اپنی گاڑی میں اکیلا ہی گھومتا رہا، اس کے ساتھ دوسرا بندہ نہیں تھا۔
یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ پی ٹی آئی سے پنجاب کی سرکاری طاقت اور وسائل واپس لئے گئے۔ سیاسی تجزیہ کار کے طور پر مجھے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل نہیں کہ اگر خیبرپختونخوا کی بیوروکریسی اور پولیس علی امین گنڈا پور جیسے شخص کے قبضے سے نکال لی جائے تو خیبرپختونخوا سے وفاق پر اگلی چڑھائی کاخطرہ نوے سے پچانوے فیصد تک کم ہوجائے گا۔ اس پارٹی سے خیبرپختونخوا واپس لینے کے، اوپر بیان کئے گئے تین جوازوں کے علاوہ بھی، بہت سارے جواز موجود ہیں جیسے یہ کہ صوبے کے اڑتیس لاکھ ڈگری یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں اور ان میں سترہ ہزار ایم بی بی ایس ڈاکٹرز بھی موجود ہیں مگر صوبے کی حکومت انہیں روزگار کے مواقعے دینے کی بجائے تصادم اور محاذ آرائی پر وقت ضائع کر رہی ہے جو ہرگز قومی مفاد میں نہیں ہے۔
ایک طرف صوبے بھر میں تعلیمی تباہی ہے اور دوسری طرف وزیر تعلیم اساتذہ کو یہ لالچ یا دھمکی دے رہا ہے کہ وہ پروموشن اور آپ گریڈیشن کے لئے وفاقی حکومت کے خلاف دھرنوں میں شریک ہوں۔ اسی طرح سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر بتا رہے تھے کہ دو فیصد سیس لگنے سے صوبے بھر کا کاروبار تباہ ہوگیا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں تو اچھے ہسپتال بھی اسلام آباد اور پنجاب میں جا کے ملتے ہیں، ہمیں تو اس حکومت میں جانوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
بات سادہ سی ہے کہ اگر پاکستان کو ایشئن ٹائیگر بنانا ہے تو سیاسی استحکام لانا ہوگا اور اگر سیاسی استحکام لانا ہے تو فتنے اور فساد کے بیس کیمپ کو ختم کرنا ہوگا ورنہ امن، تعمیر اور ترقی محض خواب ہی رہیں گے۔