Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Lahore Intiqam Lega

Lahore Intiqam Lega

میں نہیں جانتا کہ برائلر دانشور اور یوٹیوبر صحافی کس دنیا میں رہتے ہیں، کہاں سے انہیں خبریں اور تجزئیے ملتے ہیں مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ٹوئیٹر، فیس بک اور یوٹیوب کی ورچوئل ورلڈ سے ہماری رئیل ورلڈ بہت مختلف ہے۔ برائلر دانشورجان لیں کہ وہ دن ہوا ہوئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ ایک مرتبہ پھر منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ ان کے پاس ایک انڈا ہے، اس انڈے سے مرغی نکلے گی، وہ مرغی پھرانڈے دے گی اور اس سے پھر چوزے، وہ پھر پانچ برس پہلے والا مرغی خانہ بنا لیں گے مگر انہیں علم ہونا چاہئے کہ ان کے پا س موجود ایک انڈا گندا نکلا ہے اور گندے انڈوں سے مرغیاں نہیں نکلا کرتیں، صرف بدبو نکلتی ہے۔

برائلر دانشور کہتے ہیں کہ لاہور باہر نکل کر دیکھو اور لاہور کو سنٹر فارپبلک پالیسی ریسرچ نے باہر نکل کے دیکھا ہے۔ لاہوریوں کے 63 فیصد مقبولیت کے ساتھ پسندیدہ لیڈر آج بھی نواز شریف ہی ہیں اور دوسرے نمبر پر 57 فیصد مقبولیت کے ساتھ انہی کے بھائی شہباز شریف۔ پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین کی لاہور میں مقبولیت 45فیصد ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری 16فیصد لاہوریوں کے پسندیدہ ہیں۔

2018ء میں 43 فیصد لاہوریوں نے نواز لیگ جبکہ 32 فیصد نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا (یاد رہے کہ اس وقت خانصاحب کا طوطی بولتا تھا، ادارے بھی ان کے ساتھ تھے اور ان پر ناقص کارکردگی کا کوئی بھی الزام نہیں تھا) لیکن اب 46فیصد لاہورئیے نواز لیگ کو اور 29 فیصد پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں یعنی نواز لیگ نے 3فیصد ووٹر بڑھایا ہے اور پی ٹی آئی نے اتنا ہی کم کر لیا ہے اور یہ فرق ہی انتخابی نتائج میں مزید فرق ڈالے گا۔

ویسے بھی 2018ء میں بھی پی ٹی آئی نے گارڈن ٹاون، اقبال ٹاون اور ڈیفنس جیسے پوش ایریاز سے ہی سیٹیں نکالی تھیں اور تب بھی خواجہ سعد رفیق نے ڈیفنس جیسے علاقے سے قومی اسمبلی کی سیٹ عمران خان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی واپس چھین لی تھی۔ لاہوریوں نے سنٹر فار پبلک پالیسی ریسرچ کو بتایا ہے کہ ان میں سے 7فیصد ٹی ایل پی کو بھی ووٹ دیں گے۔ 80فیصد لاہوریوں کا کہنا ہے کہ ان کا فیصلہ اٹل ہے، جس کا کہہ دیا، ووٹ اسی کا ہے مگر 11فیصد کا کہنا ہے کہ وہ مزید غورو فکر کریں گے۔

لاہورئیے جتنا بھی غوروفکر کرلیں وہ اپنے شہر کے ساتھ بزدار دور میں ہونے والی زیادتیوں کو بھول نہیں سکتے۔ ان کے پھولوں سے بھرے شہر کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ لاہور کی تعمیر و ترقی کے خلاف گھٹیا اور نفرت انگیز پروپیگنڈہ کیا گیا۔ لاہور کی سڑکیں کھنڈر کر دی گئیں۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کا بیڑہ غرق کر دیا گیا۔ کرپشن کا وہ بازار گرم ہوا کہ لاہور کے ایوان وزیراعلیٰ میں ہر محکموں کے سیکرٹریوں اور ضلعوں کے ڈپٹی کمشنروں کو تو ایک طرف رہنے دیں، جیلروں اور ہیلتھ انسپکٹروں تک کے لئے بولیاں لگتی تھیں۔

ڈپٹی کمشنر کا ریٹ تین سے پانچ کروڑ تھا اور مختلف اضلاع میں ہاوسنگ سوسائیٹیوں والے کروڑوں روپے ٹی کے کو دے کر اپنا ڈپٹی کمشنر لگواتے تھے اور اربوں کی زمینوں پر قبضے کرتے تھے۔ عبدالعلیم خان اور فردوس عاشق اعوان جیسے واقفان حال سے پوچھ لیجئے یہ پیسہ فرح گوگی کے ذریعے بشریٰ بی بی تک پہنچتا تھا۔ مجھ سے مت پوچھئے، اس پورے دور میں ایم بی بی ایس کرنے والوں سے پوچھ لیجئے کہ ڈاکٹروں کی ریگولر آسامیاں تک نہیں نکالی گئیں اور ایڈہاک پر ڈاکٹر کی نوکری کا ریٹ ہی تین سے پانچ لاکھ روپے تک پہنچا دیا گیا۔

میں تو یہ سوچتا ہوں کہ اگر عثمان بزدار کے بعد ایک لمبے عرصے کے لئے محسن نقوی بطور نگران وزیراعلیٰ نہ آتے، محسن سپیڈ نہ لگتی تو لاہور کی تعمیر وترقی میں لیٹ، شائد اگلے کئی عشروں تک نہ نکل سکتی۔ مجھے اپنے الفاظ دہرانے میں کوئی عار نہیں کہ اگر جمہوریت نے آدھے سے زیادہ پاکستان کو بزدار جیسی متعفن سیاسی لاش دینی ہے اور اسٹیبلشمنٹ نے محسن نقوی جیسا دیانتدارا ور ایکٹو چیف منسٹر دینا ہے تو میں ایسی جمہوریت پر لعنت بھیجتا ہوں۔

برائلر دانشور اور یوٹیوبر کہتے ہیں کہ لاہور عمران خان کے ساتھ جائے گا اور میں کہتا ہوں کہ لاہورکوگمراہ کیا گیا اوراس کے نتیجے میں ممی ڈیڈی کلاس نے اسے مسیحا سمجھ لیاجبکہ اصل لاہورئیے وہ ہیں جو پرویز مشرف کے دور میں بھی تعمیر و ترقی دینے والی قیادت کے ساتھ کھڑے رہے۔ اسی اور نوے کی دہائی چھوڑیں، 2002ئ، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے نتائج دیکھ لیں، 2013ء بارے میں پہلے ہی کہہ چکا کہ یہ کچھ کھاتے پیتے علاقوں کے ذہنوں کا فتور تھا اور بہت ساروں کے دماغوں سے یہ نکل بھی چکا۔

مجھے کہنے میں عار نہیں کہ تحریک انصاف نہ تو کوئی سیاسی تحریک ہے اورنہ ہی کسی شعور کا نام، یہ بانی پی ٹی آئی کے فینز کا کلب ہے، یہ ایک کلٹ ہے جس کاملک میں جمہوریت، ترقی اور استحکام سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اگر ہوتا تو یہ نو مئی کو کبھی اپنی ہی فوج پر حملے کرنے نہ پہنچتے۔ اس کلٹ کو جب یہ یقین ہوگا کہ عمران خان نہ انتخابات میں ہے اور نہ ہی وزیراعظم بن رہا ہے تو یہ ووٹ ڈالنے ہی آجائیں تو بڑی بات ہوگی۔

لاہور کے بارے میں یاد رکھیں کہ لاہور بہت سوچ سمجھ کے فیصلہ کرتا ہے اور یہ بھی یاد رکھیں کہ الیکشن کی سائنس سوشل میڈیا کی سائنس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ انتخابات کی سائنس میں تین باتیں بہت اہم ہوتی ہیں، پہلی، کیا پولیٹیکل پارٹی اقتدار میں آ رہی ہے، دوسری، کیا امیدوار ایسا ہے کہ حلقے کی نمائندگی کر سکے، تیسری، انتخابی مہم کیسی ہے سو اگر پی ٹی آئی نے ٹوئیٹر پر انتخابات کروانے ہیں تو شائد وہاں وہ ایک ایک ٹرول کے پچاس پچاس فیک اکاؤنٹس ہی نہیں بلکہ بوٹس کے ذریعے جیت جائے مگر حقیقی دنیا میں اس وقت مسلم لیگ نون کے ساتھ پی ٹی آئی کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔

انتخابات میں کسی بھی پارٹی کی تنظیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کہ وہ کتنے لوگوں کو پولنگ سٹیشن تک لے کر آتی ہے۔ مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ لاہور سے باہر پی ٹی آئی کے لئے صورتحال اس سے بھی خراب ہے جہاں انتخابات میں بہت سارے دوسرے فیکٹرز بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ کہا جار ہا ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت ساروں نے کاغذات جمع کروا دئیے ہیں مگر یہ بات بھی تنظیمی کمزوری کی نشاندہی ہے اوراسی کمزوری کی بنیاد پر اس خطرے کی بھی کہ پی ٹی آئی کے بہت سارے آزاد امیدوار بن سکتے ہیں۔

جاتے جاتے، ایک اور بات سنتے جائیے کہ یہ بھی سوشل میڈیا پر ہی ہے کہ عوام اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں۔ میں نے نوے کی دہائی سے عملی صحافت کرتے ہوئے اسی کو آتے ہوئے دیکھا ہے جس کے بارے کہہ دیا گیا کہ وہ آ رہا ہے اور اس وقت ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ نواز شریف آ رہا ہے۔