Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Log Dhara Dhar Kyun Mar Rahe Hain?

Log Dhara Dhar Kyun Mar Rahe Hain?

میں یہ سوال پوچھوں کہ لوگ کیوں مر رہے ہیں تو بہت سارے یہ کہیں گے کہ ان کی موت کا وقت آ رہا تو وہ مر رہے ہیں، یہاں سدا کس نے رہنا ہے مگر اس عظیم ترین حقیقت کو بیان کرنے والوں کو اگر بدقسمتی سے کورونا ہوجائے اور خوش قسمتی سے انہیں کسی سرکاری ہسپتال میں علاج کے لئے بیڈ بھی مل جائے تو انہیں لگ پتا جائے گا کہ لوگ کیوں مر رہے ہیں۔ اگر کسی کو علم ہے کہ فلاں دوا یا فلاں ٹیکے سے کسی بھی مرض کی شدت میں کمی لانے کے لئے جادوئی اثر رکھتا ہے اور وہ سرکار نے وہ دوا یا ٹیکہ خریدنا ہی بند کر دیا ہے تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ لوگ کیوں مر رہے ہیں۔

مجھے یہ خبر سابق وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ایک وائس میسج میں دی کہ حکومت پنجا ب نے کورونا کے ان مریضوں کو، جن کے پھیپھڑے متاثر ہو رہے ہوں، لگائے جانے والے انجکشن Remdesivir کی خریداری بند کر دی ہے اور اس کی وجہ انجکشن کا مہنگا ہونا ہے۔ وہ برہم تھے کہ حکمرانوں کے پاس بی ایم ڈبلیوز خریدنے کے لئے تو پیسے ہیں مگر غریب عوام کے لئے نہیں۔ میں نے ہیلتھ رپورٹرز کی تنظیم کے صدر، نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے ڈپٹی بیوروچیف میاں نوید سے پوچھا تو انہوں نے خبر کی تصدیق کی تاہم انہوں نے صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے مجھے سیکرٹری صحت نبیل اعوان کا موقف بھی بتایا کہ اس انجکشن کی خریدار ی کورونا ایکسپرٹ ایڈوائزری گروپ کی ہدایت پر روکی گئی ہے۔ ا ب میرے پاس تین، چار بنیادی سوال تھے کہ کیا ایسا کوئی ہدایت نامہ جس میں خریداری روکے جانے کا جواز ہووہ جاری کیا گیا ہے تو ا س کا جواب نفی میں تھا۔ میں نے پی ایم اے کے سابق صدر ڈاکٹر اظہار چودھری سے پوچھا کہ اگر اس انجکشن کو نہ لگایا جائے تو اس کا کوئی متبادل بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں لاہور کے کسی بھی پلمانوجسٹ کے پاس چلا جاوں اور ریمیڈیسوئیر، کے بارے پوچھوں تو وہ بتائے گاکہ جب پھیپھڑے متاثر ہو رہے ہوں تو اس انجکشن کی افادیت ننانوے فیصد تک ہے۔ یہ انجکشن اینٹی وائرل ہے اور فوری طور پر وائرس کو کنٹرول کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگراس کا کوئی متبادل بھی ہو تواس حالت جنگ میں ایسے ہتھیار پر پابندی لگا دینا جو ننانوے فیصد کامیاب ہو اور کسی نئے کی طرف جانا کسی طورپر عقل مندی نہیں ہے۔ وہ یقین ہی نہیں کر رہے تھے کہ حکومت ایسا فیصلہ بھی کرسکتی ہے جو کورونا کے مریضوں کویقینی موت کی طرف لے جائے۔ میں نے گوگل کیا تو علم ہوا کہ ریمیڈیسوئیر امریکی ادارہ صحت ایف ڈی اے کی طرف سے کورونا کے مریضوں کو دی جانے والی پہلی منظو ر شدہ دوا ہے۔ میں نے وائے ڈی اے پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر عدیل ریاض قریشی سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ریمیڈیسوئیر لگانے سے جسم میں درد کم ہونے اور مرض کی علامات ختم ہونے لگتی ہیں مگر اب یہ انجکشن سرکاری طور پر دستیاب نہیں ہے۔ ینگ نرسز ایسوسی ایشن کی سابق ترجمان مقدس تسنیم نے بتایا کہ ایک دوسرا انجکشن کلیکسین بھی نہیں آ رہا۔

میں بہت ساروں سے بات کے بعداسی نتیجے پر پہنچا کہ حکومت نے پیسے بچانے کے لئے ریمیڈیسوئیر کی خریداری بند کی ہے اور یہ کہ اس ٹیکے کا نہ لگنا یقینی موت ہے بالکل اسی طرح جیسے پیسے بچانے کے لئے ڈاکٹر یاسمین راشد کی وزارت اس سے پہلے تین مرتبہ کینسر کے مریضوں کی دوا بند کر چکی ہے۔ ریمیڈیسوئیر کی اس وقت مارکیٹ پرائس چھ، سات ہزار روپے بیان کی جا رہی ہے اور یہ انجکشن چار سے چھ کی تعداد میں لگتے ہیں یعنی آپ کے پاس زندگی کی امید خریدنے کے لئے چالیس ہزار روپے ہونے چاہئیں ورنہ سرکار نے خریداری بند کر کے غریبوں کی موت کے پروانے پر دستخط کر دئیے ہیں۔ معاف کیجئے گا اتنا سخت دل، گروہ پیشہ ور قاتلوں میں ہی دیکھا جا سکتا ہے ورنہ صحت کے شعبے سے وابستہ لوگوں کو مسیحا سمجھا جاتا ہے مگر اس مسیحائی کا بھانڈا کرن وقار نے مر نے سے پہلے اپنی پوسٹس میں کھول دیا ہے۔ کرن وقار، اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی نوجوان شاعرہ اور معروف کالم نگار تھیں۔ ان کی والدہ کو کورونا ہوا اور ان کے سامنے دم توڑ گئیں مگر ستم یہ ہوا کہ والدہ کے بعد خود انہیں اور ان کے بھائی کو بھی کورونا ہو گیا۔ یہ اوکاڑہ کے ڈی ایچ کیو میں تھیں اور وہاں سے انہوں نے اپنی فیس بک پر لکھا کہ یہاں آکسیجن ہی دستیاب نہیں اور آج کل بچہ بچہ جانتا ہے کہ کورونا کے بگڑتے مرض میں آکسیجن کتنی ضروری ہے۔

کرن وقار کی فیس بک پروفائل سکرول ڈاون کریں تو وہ وزیراعظم عمران خان کے حق میں پوسٹس کو شیئر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، جی ہاں، وہی عمران خان جو کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا کرتے تھے کہ دریائے فرات کے کنارے پیاس سے ایک کتا بھی مرجائے تو اس کی ذمہ داری حکمران پر آتی ہے مگر ان کی ایک سپورٹر ان کے آبائی شہر لاہور سے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر بڑے شہر کے ڈی ایچ کیو میں آکسیجن کی دہائی دیتے ہوئے مر گئی اوراس کی آواز کسی کتے کی آواز جتنی بھی نہیں سنی گئی حالانکہ یہ حکمران وہ ہیں جو اپنے کتے کی آنکھوں میں آنسو دیکھ لیتے ہیں تو علم نہیں وہ دکھ، درد اور بیماری سے بلکتے ہوئے انسانوں کے بہتے آنسو کیوں نہیں دیکھ پاتے۔ مجھے علم ہوا کہ اوکاڑہ کے ڈی ایچ کیو کے ایم ایس نے اپنی رپورٹ میں سب کچھ اوکے لکھا ہے او رمیں پریشان ہوں کہ انسان کو اپنی نوکری کے لئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے، کتنی کاغذی کارروائیاں کرنی پڑتی ہیں، کتنے جھوٹ بولنے پڑتے ہیں مگر کچھ لوگ مر کے جھوٹ بے نقاب کر دیتے ہیں۔

ہمیں روزانہ بتایا جاتا ہے کہ سو مریض مر گئے یا سو سے بھی زیادہ، اب اگر آپ کوریمیڈیسوئیرکی خریداری بند کرنے کے فیصلوں اور کرن وقار جیسی موتوں سے بھی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیوں دھڑا دھڑ مر رہے ہیں اور ان موتوں کے ذمے دار کون ہیں تو آپ کو اپنا ذہنی علاج کروانے کی ضرورت ہے۔ جاتے جاتے ڈاکٹر عدیل ریاض کی یہ بات بھی سن لیجئے کہ حکومت نے وبا کے اس زور میں بھی ہسپتالوں میں ایڈہاک ڈاکٹروں کی بھرتی پر پابندی لگا رکھی ہے یعنی ہم جنگ لڑ رہے ہیں اور فوجیوں کی بھرتی پر پابندی ہے۔ کبھی آپ یاسمین راشد، نبیل اعوان یا اس طرح کے کسی اورفیصلہ ساز سے ملیں تو ضرور پوچھئے گاکہ وہ پنجاب کے عوام کا قتل عام کیوں کر رہے ہیں۔